صدر کے خلاف سکینڈل اور تحقیقاتی صحافی


کیا آپ نے باب ووڈورڈ اور کارل برنسٹین کی کتاب آل دا پریزیڈنٹس مین پڑھی ہے؟ یا اس پر بنائی گئی فلم دیکھی ہے؟ صحافیوں، خاص طور پر رپورٹرز کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔

میں نے کئی سال پہلے کتاب پڑھی تھی لیکن فلم چند دن پہلے دیکھی ہے۔ اس میں باب ووڈورڈ کا کردار رابرٹ ریڈفورڈ نے ادا کیا ہے۔ یہ شخص کیا کمال کا اداکار ہے! ریڈفورڈ نے فلم انڈیسینٹ پروپوزل میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ ریڈفورڈ فلمساز بھی ہیں اور انھوں نے ہی 1974 میں کتاب آل دا پریزیڈنٹس کے حقوق خریدے تھے۔

امریکا میں ڈھائی سو سال سے ہر چار سال بعد صدر کا انتخاب ہورہا ہے۔ ان ڈھائی سو سال میں صرف ایک صدر یعنی رچرڈ نکسن نے قبل از وقت استعفا دیا۔ اس انہونی کا سبب واٹرگیٹ اسکینڈل تھا۔ آل دا پریزیڈنٹس مین اسی اسکینڈل کے بارے میں ہے۔

قصہ یوں ہے کہ آج سے ٹھیک 47 سال پہلے 17 جون 1972 کی شب واشنگٹن ڈی سی کے علاقے فوگی باٹم کی عمارت واٹرگیٹ کمپلیکس کے سیکورٹی گارڈ نے دیکھا کہ ایک دفتر کے ڈور لاک پر ٹیپ لگا ہوا ہے تاکہ کوئی اسے بند نہ کردے۔ گارڈ فرینک ولز کو شک ہوا اور اس نے پولیس کو مطلع کردیا۔ پولیس پہنچی اور اس نے دفتر میں گھسنے والے پانچ افراد کو حراست میں لے لیا۔ وہ دفتر ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کا ہیڈکوارٹر تھا۔ یہ واقعہ نقب زنی کی واردات کے طور پر اخبارات میں رپورٹ ہوا۔

واشنگٹن پوسٹ نے اگلی صبح نوجوان رپورٹر باب ووڈورڈ کو مقامی عدالت جانے کا اسائنمنٹ دیا۔ بظاہر یہ عام سی خبر بنتی لیکن وورورڈ عام رپورٹر نہیں تھے۔ انھوں نے کئی اہم باتیں نوٹ کیں۔ مثلا یہ کہ ملزموں کے پاس سے جاسوسی کے آلات برآمد ہوئے۔ مثلا ایک ملزم کے منہ سے نکل گیا کہ وہ خفیہ ایجنسی کے لیے کام کرچکا ہے۔ مثلا ایک بڑا وکیل ملزموں کی پیروی کے لیے موجود تھا۔ مثلا ملزموں کے پاس سے کچھ کرنسی نکلی اور وہ نوٹ ایک سیریز میں تھے۔ اس کا مطلب ہوا کہ کسی نے انھیں اس کام پر مامور کیا تھا۔

باب ووڈورڈ نے جو اسٹوری لکھی وہ ایڈیٹر سے پہلے ساتھی رپورٹر کارل برنسین نے اچک لی۔ ووڈورڈ نے جاکر دیکھا، برنسٹین وہی اسٹوری دوبارہ لکھ رہے تھے۔ ووڈورڈ کو پہلے یہ حرکت اچھی نہیں لگی۔ لیکن جب انھوں نے ایڈٹ کی گئی خبر دیکھی تو تسلیم کیا کہ برنسٹین نے اسے زیادہ بہتر انداز میں لکھا تھا۔

ووڈورڈ اور برنسٹین اس خبر کی کھوج میں لگ گئے اور ایک کے بعد ان پر انکشافات ہونے لگے کیونکہ نقب زنی کی واردات کا کھرا نکسن انتظامیہ کے اہم ارکان تک پہنچ رہا تھا۔ وہ صدارتی انتخاب کا سال تھا۔ رچرڈ نکسن دوسری بار صدارت کے لیے پرامید تھے۔ نومبر میں صدارتی انتخاب شیڈول تھا۔

ہم اکثر خبروں میں ذرائع کا حوالہ سنتے ہیں۔ ذرائع ہم ان افراد کو کہتے ہیں جو ہمیں اندر کی خبریں فراہم کرتے ہیں۔ ووڈورڈ نے اپنی کتاب اور فلم میں ایک ذریعے کا بار بار ذکر کیا لیکن اس کا نام نہیں بتایا۔ اس کے بجائے اسے ڈیپ تھروٹ کے نام سے یاد کیا۔ یہ شخص کسی اہم سرکاری عہدے پر تھا۔ ڈیپ تھروٹ ووڈورڈ کو پیغام دیتا تھا کہ جب مجھ سے ملنا چاہو تو اپنے فلیٹ کی بالکونی میں سرخ کپڑا لہرا دینا۔ ووڈورڈ کا فلیٹ واشنگٹن ڈی سی میں ڈنپورٹ سرکل کے پاس تھا۔ لیکن وہ دونوں ورجینیا کے علاقے روزلین کے ایک پارکنگ لاٹ میں رات گئے ملتے تھے تاکہ کوئی انھیں دیکھ نہ لے۔ ووڈورڈ اپنی کار کے بجائے ٹیکسیاں بدل بدل کر وہاں پہنچتے تھے۔

ووڈورڈ اور برنسٹین کو دو مسئلے درپیش تھے۔ ایک یہ کہ ڈیپ تھروٹ صاف بات کرنے کے بجائے اشاروں اور پہیلیوں میں بات کرتا تھا۔ دوسرا یہ کہ ان کے ایگزیکٹو ایڈیٹر بین بریڈلی بہت سخت تھے۔ وہ ان کی ہر رپورٹ کو کڑی تنقیدی نظر سے دیکھتے اور جہاں کمزوری نظر آتی، اسے مسترد کردیتے۔ ورنہ ان سے کہتے کہ مزید کھوج لگاؤ۔ کسی اور ذریعے سے تصدیق کرو۔ انتظامیہ کا موقف حاصل کرو۔

اس سختی کے باوجود جب ایک بار نکسن انتظامیہ نے ووڈورڈ اور برنسٹین کی ایک خبر کی تردید کی اور واشنگن پوسٹ کا عملہ ان دونوں کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہوا تو بین بریڈلی نے لکھا، ادارہ اپنے رپورٹرز کی خبر پر قائم ہے۔

واٹرگیٹ اسکینڈل صرف واشنگٹن پوسٹ نہیں چھاپ رہا تھا۔ نیویارک ٹائمز اور دوسرے اخبارات بھی اسے دیکھ رہے تھے لیکن کوئی اس قدر بہتر طریقے سے تحقیقات نہیں کرسکا جیسی ووڈورڈ اور برنسٹین نے کی۔ انھیں معلوم ہوا کہ نکسن انتظامیہ اپنے سیاسی حریفوں کی جاسوسی کررہی تھی۔ ان کے فون ٹیپ کیے جارہے تھے۔ جو لوگ یہ کام کررہے تھے انھیں پارٹی فنڈ میں آنے والی رقوم سے ادائیگیاں کی جارہی تھیں۔

ووڈورڈ اور برسنٹین نے پارٹی کو فنڈ دینے والوں سے، نکسن کی انتخابی مہم کے کارکنوں سے، وائٹ ہاؤس کے سابق ملازمین سے بات کی۔ بیشتر لوگ خوف زدہ تھے کیونکہ انھیں دھمکایا جارہا تھا۔ بعض لوگوں کے پاس بتانے کو کچھ نہیں تھا۔ اور جو بتاسکتے تھے، وہ مہر بہ لب تھے۔ لیکن رپورٹرز نے ہمت نہیں ہاری اور کڑیوں سے کڑیاں ملاتے ہوئے وائٹ ہاؤس تک پہنچ گئے۔

یہ بات دلچسپ ہے کہ ووڈورڈ اور برنسٹین نے 20 جنوری 1973 کو پوری اسٹوری ٹائپ کی۔ یہ وہی تاریخ تھی جب نکسن نے دوسری مدت صدارت کے لیے حلف اٹھایا۔

فلم یہاں پر ختم ہوجاتی ہے لیکن یہ معاملہ ڈیڑھ سال اور چلا۔ کانگریس نے اس کی تحقیقات کی اور معلوم ہوا کہ سیاسی حریفوں کی ریکارڈ کی گئی آڈیو ٹیپس موجود ہیں۔ جب نکسن انتظامیہ نے ٹیپ چھپانے کی کوشش کی تو سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ انھیں تفتیشی حکام کے حوالے کیا جائے۔ چنانچہ یہ شواہد مل گئے کہ نکسن انتظامیہ نے سی آئی اے، ایف بی آئی اور محکمہ ٹیکس آئی آر ایس کو اپنے سیاسی حریفوں، مشاہیر اور عوامی تنظیوں کی جاسوسی کے لیے استعمال کیا اور جب بھید کھل گیا تو اسے چھپانے کے لیے ناجائز طریقہ استعمال کیا۔ اس معاملے میں اڑتالیس افراد کو سزا ہوئی اور صدر کو مواخذے سے بچنے کے لیے مستعفی ہونا پڑا۔

واٹرگیٹ اسکینڈل میں سب سے اہم کردار ڈیپ تھروٹ کا تھا۔ ووڈورڈ نے کبھی اس بارے میں سوال کا جواب نہیں دیا اور اکتیس سال تک کوئی نہیں جانتا تھا کہ ڈیپ تھروٹ کون تھا؟ یہ عقدہ 2005 میں کھلا جب ایف بی آئی کے سابق ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر مارک فیلٹ نے انکشاف کیا کہ وہ ووڈورڈ کی خبروں کا ایک ذریعہ تھے۔ ووڈورڈ نے اس کی تصدیق کی اور پھر اس بارے میں ایک کتاب دا سیکرٹ مین، دا اسٹوری آف واٹر گیٹس ڈیپ تھروٹ لکھی۔

میرے پاس کتاب دا سیکرٹ مین پر ووڈورڈ اور آل دا پریزیڈنٹس مین پر ووڈورڈ اور برنسٹین دونوں کے دستخط ہیں۔ اس کے علاوہ بین بریڈلی کی آپ بیتی اے گڈ لائف پر بین بریڈلی کے دستخط بھی ہیں۔ بریڈلی نے اپنی کتاب میں واٹرگیٹ اسکینڈل پر ایک باب لکھا ہے۔ فلم آل دا پریزیڈنٹس مین میں بین بریڈلی کا کردار ادا کرنے والے جیسن روبارڈز نے اتنی اچھی اداکاری کی کہ انھیں بہترین معان اداکار کے آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا۔

صدر نکسن کے مواخذے کی سماعت امریکی کانگریس کی جوڈیشری کمیٹی نے کی تھی۔ میرے پاس اس کی سرکاری رپورٹ موجود ہے جس پر کمیٹی کے چیئرمین پیٹر روڈینو کے دستخط ہیں۔ اس کے علاوہ رچرڈ نکسن کی آپ بیتی میری لائبریری کا حصہ ہے جس میں انھوں نے واٹرگیٹ اسکینڈل کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ یہ بھی دستخط شدہ کاپی ہے۔
میرے پاس ٹائم میگزین کے 1973 کے وہ 14 شمارے بھی ہیں جن میں واٹرگیٹ اسکینڈل کے ہر موڑ کی داستان چھپتی رہی۔

واٹرگیٹ کمپلیکس کے سیکورٹی گارڈ فرینک ولز نے اس واقعے پر مبنی فلم میں اپنا کردار خود ادا کیا ہے۔ انھوں نے عمارت کے رجسٹر میں 17 جون 1972 کو ایک بجکر سینتالیس منٹ پر جو جملہ درج کیا، اسے امریکا کی نیشنل آرکائیو نے محفوظ کرلیا ہے۔ فرینک ولز کا 2000 ء میں انتقال ہوگیا تھا۔

وہ ڈور لاک، جس پر ٹیپ لگا دیکھ کر گارڈ کو شک ہوا تھا، اسے تاریخی اثاثہ سمجھ کر ایک سے زیادہ بار فروخت کیا جاچکا ہے۔ 15 دسمبر 2017 کو ایک نیلام گھر میں اسے ساڑھے 62 ہزار ڈالر میں خریدا گیا۔

وہ پارکنگ لاٹ، جہاں ووڈورڈ اور ڈیپ تھروٹ ملتے تھے، کئی سال پہلے ختم کردیا گیا۔ اب اس مقام پر ایک شاپنگ پلازا ہے۔ لیکن نئے مالکان نے ستون ڈی بتیس کو سنبھال رکھا ہے جس کے پاس کھڑے ہوکر ووڈورڈ اور ڈیپ تھروٹ سرگوشیاں کرتے تھے۔

ووڈورڈ اب واشنگٹن کے پوش علاقے جارج ٹاؤن کے ایک بنگلے میں رہتے ہیں۔ شاید انھیں بھی اپنا ایک کمرے کا اپارٹمنٹ کا نمبر یاد نہ ہو جو ڈنپورٹ سرکل کی بلڈنگ ویبسٹر ہاؤس میں چھٹی منزل پر تھا۔ اس کا نمبر 617 ہے۔

ووڈورڈ اور برنسٹین جب واشنگٹن پوسٹ میں کام کرتے تھے تو اس کا ہیڈکوارٹر 15 ویں اسٹریٹ، نارتھ ویسٹ پر تھا۔ اب واشنگٹن پوسٹ کو امیزون کے مالک جیف بیزوس نے خرید لیا ہے اور ہیڈکوارٹر چند گلیاں دور کے اسٹریٹ نارتھ ویسٹ پر منتقل ہوچکا ہے۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi