دہلی کے بھانڈ اور طوائفیں


پھر بی جان کا اشارہ پاتے ہی سفر داد آگے آ کر سب کو سلام کرتے۔ سارنگئے غلاف اُتار کر طربیں ملاتے، ساز مل جاتے تو بی جان سامنے آکر بیٹھ جاتیں۔ دونوں سارنگئے دائیں بائیں ہو بیٹھتے۔ طبلہ نواز پیچھے بیٹھتا۔ پھر ایک خادم تانپورہ لا کر بی جان کے سامنے پیش کرتا۔ وہ پہلے دائیں کان کو چھوتیں، پھر تانپورہ سر کرنے لگتیں۔ سارنگیوں نے شدھ ٹھاٹ ملایا ہے۔ بی جان نے پنجم کا تانپورہ ملایا۔ جب چاروں تار مل گئے تو سب نے کہا۔ ماشاءاللہ، طبلے والے نے تھاپ دی۔ دونوں کی لو مل گئی۔ بی جان نے سب سے اجازت چاہی اور وقت کا راگ بہاگ الاپنا شروع کیا۔

نوشابہ جان شاہی گایک استاد تان رس خاں کے بیٹے استاد امراؤ خاں کی شاگرد ہیں۔ بھمیری آواز، در و دیوار سے سر برسنے لگے۔ الاپ ختم کرکے بلمپت خیال، ”کیسے سکھ سہوں“ چار دم کے تلواڑے میں گایا۔ سب نے ان کے دم سانس کی تعریف کی۔ اس کے بعد دُرت خیال ”اب رے لالن مئیکو“ تین تال میں سنایا۔ ایک تان آتی اور ایک جاتی۔ کسی نے مومن خاں کا شعرپڑھا

اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک

شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو

بی جان آداب بجا لائیں بولیں۔ ”بزرگوں کا صدقہ ہے۔ یہ گائیکی خاص دلّی کی ہے۔ اگر اجازت ہو تو بادشاہ کی دو ایک بندشیں سناؤں۔ “

سامعین نے کہا۔ ”نیکی اور پوچھ پوچھ؟ ضرور سنائیے۔ “

بی جان نے بہادر شاہ ظفر کا بنایا ہوا باگیشری بہار کا خیال سنایا۔

رُت بسنت میں اپنی اُمنگ سوں

پی ڈھونڈن میں نکلی گھر سوں

رُت بسنت میں۔

ملے تو لال گروا لگا لوں

پاگ بندھاؤں پیلی سرسوں

رُت بسنت میں۔

رنگ ہے سبزہ نرگس یاں کا

کہے شوق رنگ، رنگ ہے دا کا

اِن بھیدن کو کوئی نہ جانے

واقف ہوں میں دا کی جرسوں

رُت بسنت میں۔

سب نے تعریف کی کہ واقع میں شوق رنگ کی بندشیں سب سے الگ ہیں۔ بادشاہ موسیقی کے بھی بادشاہ تھے۔ ایک صاحب نے فرمائش کر دی کہ تان رس خاں کا درباری کا وہ ترانہ بھی سنا دیجئے جس سے انہوں نے کدو سنگھ پکھاوجی کو نیچا دکھایا تھا۔ بی جان نے اپنے دادا استاد کا ترانہ ”تانا نانا نا بیا بیا، یارمن“ سنایا اور اتنا تیار کہ ساری محفل عش عش کر اُٹھی۔

استادی گانے کے بعد ٹھمری اور دادرے کی فرمائش ہوئی۔ بی جان نے کھماچ کی ٹھمری شروع کی ”ناہیں پرت مئی کو چین“

ایک صاحب بولے۔ ”اگر زحمت نہ ہو تو بتائیے بھی۔ “

اب جو بی جان نے اس کے بھاؤ بتانے شروع کیے تو محفل تڑپ تڑپ اُٹھی۔ دادرا ”موری بندیا چمکن لاگی“ بھی اسی انداز سے گایا۔ آخر میں مرزا غالب کی غزل

دل سے تری نگاہ جگر تک اُتر گئی

سنانی شروع کی۔ جب اس شعر پر پہنچیں

وہ بادہ شبانہ کی سرمستیاں کہاں

اُٹھئے بس اب کہ لذت خوابِ سحر گئی

تو ایک بزرگ نے دونوں زانو پیٹ کر کہا ”ہے، ہے“

اور جب مقطع سنایا

مارا زمانے نے اسد اللہ خاں تمہیں

وہ ولولے کہاں، وہ جوانی کدھر گئی

تو اِن بزرگ کی حالت غیر ہو گئی۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور منہ پر رومال ڈال کر سسکیاں لینے لگے۔ انہیں دیکھ کر ساری محفل افسردہ ہو گئی۔

بی جان نے خادم کو اشارہ کیا ”چائے لاؤ۔ “ اور اپنی جگہ آکر بیٹھ گئیں۔ قریب بیٹھنے والوں نے کہا۔

”نوشابہ بائی، آج تو تم نے غضب کر دیا۔ کہتے ہیں کہ گانا چلتا ہوا جادو ہے۔ تم نے اس کہاوت کو سچ کر دکھایا۔ “

بائی جی نے کہا۔

”یہ آپ لوگوں کا حسن سماعت اور اللہ کا کرم ہے۔ “

خشک میوے اور تازہ پھلوں کے تھال آنے لگے۔ چائے آئی اور بی جان نے سب کو خود پیالیاں بنا بنا کر دیں۔ پھر وہیں قہقہے چہچہے شروع ہو گئے۔ رات گئے محفل برخاست ہوئی۔ یہ 1930 ء کی ایک یادگار محفل تھی، جس کا نہایت مختصر آنکھوں دیکھا حال پیش کیا گیا۔

موتی جان پاکستان بننے کے بعد لاہور چلی آئیں۔ چند سال ہوئے ان کا انتقال ہو گیا۔ نوشابہ بائی دلّی ہی میں ہیں۔ گوشہ گیری اور گمنامی کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ جب دلّی اجڑ گئی تو اس کی محفلیں کیسے آباد رہتیں؟

اُن کے جانے سے یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت

نہ وہ دیوار کی صورت ہے، نہ در کی صورت

مشہور گانے والیوں میں امیرجان پانی پت والی، کالی جان، کیٹی جان، شمشاد بائی، اللہ دی غازی آباد والی، نواب پتلی۔ مجیدن بائی اور کئی اونچے درجے کی گانے والیاں تھیں، جن کے ہاں شرفاء کی مخصوص نشستیں ہوتی تھیں۔ جب باہر بلائی جاتیں تو ہزار روپے روزآنہ پر جاتی تھیں اور آئے دن ریاستوں اور رئیسوں میں بلائی جاتی تھیں۔ یہی ان کے تمول کا راز تھا۔

ان میں سے دو ایک کو چھوڑ کر باقی سب شکل و صورت کے اعتبار سے واجبی واجبی ہی سے تھیں۔ مگر گانے کے وقت یہ معلوم ہوتا تھا کہ اندر کے اکھاڑے کی پریاں زمین پر اُتر آئی ہیں۔ کیٹی جان کا رنگ کالا تھا مگر نور کا گلا پایا تھا۔ شامت ِ اعمال ایک دن سبز رنگ کی ساڑی پہنے لال کنویں سے گزیں تو ایک کرخندار نے آوازہ کسا:۔

”ابے شابو، دیکھ ریا ہے لو لگی کیری کو؟ “

یہ پھبتی ایسی چپکی کہ چپک کر رہ گئی اور بی جان بھی اس پر جھوم گئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2