زنا بالجبر اور سماجی رویے


میرا بچپن لائل پور میں گزرا، چھٹیوں میں ہم لاہور میں گوالمنڈی، سید مٹھے اور وزیر خاں کی مسجد کی عقبی گلی میں مقیم رشتہ داروں کے گھر جا کے رہتے تھے۔ بچپن کی ایک دھندلی سی یاد کافی سالوں ساتھ رہی۔ ایک مرتبہ چھٹیوں میں نانی کے ساتھ ہم بہن بھائی لاہور گئے تو گوالمنڈی میں ماموں کی گلی میں سوگوار سا ماحول پایا۔ نانی اور رشتے کی خالائیں آپس میں سرگوشیاں کرنے لگیں، ہم دیگر بچوں کے ساتھ کھیلتے کودتے پھرتے مگر نہ سمجھتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ سمجھ آ ہی جاتا تھا۔

نانی کے ساتھ ہم بھی سامنے والے مکان میں رہنے والی بیوہ استانی کے گھر گئے۔ ماحول کچھ ایسا تھا جیسے مرنے پر لوگ تعزیت کرنے جاتے ہیں۔ بیوہ استانی کی چودہ پندرہ سالہ گونگی اور ذہنی طور پر کمزور بچی نے ایک بچے کو جنم دیا تھا۔ بیوہ ماں کے آنسوؤں کو میں آج تک نہیں بھولی۔ نصف صدی سے بھی پہلے کی بات ہے، اس وقت لوگ ڈی این اے کے بارے میں نہیں جانتے تھے۔ محلے کے ایک صاحب کے بارے میں خواتین سرگوشیوں میں کہتی تھیں کہ وہ اس حرکت کے ذمہ دار ہیں لیکن کھل کے کہنے کی کسی میں ہمت نہیں تھی اور نہ ہی کوئی یہ بات ثابت کر سکتا تھا۔

وقت گزر گیا، کچھ عرصہ بعد سنا کہ ان صاحب کی ایک بہت اچھے گھرانے کی خوبصورت لڑکی سے شادی ہو گئی۔ شعور کی منازل طے کرتے ہوئے میں اکثر سوچتی تھی کہ معاشرے نے ان صاحب کو کیسے قبول کر لیا، ایک معزز گھرانے نے کیسے اپنی لڑکی کا رشتہ ان کے ساتھ کر دیا۔ پھر احساس ہوا کہ ریپ یا زنا با لجبر وہ جرم ہے جس کی سزا معاشرہ مجرم کو نہیں بلکہ اس جرم کا نشانہ بننے والی لڑکی یا عورت کو دیتا ہے۔ لڑکی بدنام ہو جاتی ہے، کوئی اس سے شادی کرنے کو تیار نہیں ہوتا جب کہ مجرم دندناتا پھرتا ہے اور شریف سے شریف گھرانہ اپنی لڑکی اسے دینے کو تیار ہو جاتا ہے۔

سو سال سے بھی پہلے بنگالی ادیبہ رقیہ سخاوت حسین نے کہا تھا کہ اگر کوئی درندہ شہر میں گھس آئے اور لوگوں کو چیرنا پھاڑنا شروع کر دے تو اسے گولی مار دی جائے گی یا پکڑ کر پنجرے میں بند کر دیا جائے گا۔ آپ شہریوں سے نہیں کہیں گے کہ وہ گھروں میں بند ہو جائیں کیونکہ گلیوں میں ایک درندہ گھوم رہا ہے مگر ریپ یا زنا با لجبر کے معاملے میں بالکل ایسا ہی ہوتا ہے، عورتوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ گھروں میں بند ہو جائیں کیونکہ اگر وہ باہر نکلیں تو کوئی ان کی عزت لوٹ لے گا جب کہ معاشرے نے مردوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، ان کو پکڑنے والا کوئی نہیں۔

عزت اور غیرت کا ہر تصور عورت سے وابستہ کر دیا گیا ہے۔ یہاں مجھے کملا بھسین کی بات یاد آ رہی ہے۔ ”جب میرے ساتھ ریپ یا زنا با لجبر کیا جاتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ میری عزت لٹ گئی۔ میری عزت کیسے لٹ گئی؟ میری عزت میری ویجائنا یا اندام نہانی میں نہیں۔ یہ ایک پدرشاہی تصور ہے کہ میرے ریپ سے برادری کی عزت پر دھبہ لگے گا۔ میں ہر ایک سے کہنا چاہتی ہوں کہ آخر آپ نے برادری کی عزت کو عورت کی ویجائنا یا اندام نہانی میں کیوں رکھ دیا ہے۔

عورتوں نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ یہ ریپسٹ ہے جو اپنی عزت کھوتا ہے نہ کہ عورت۔ “۔ میری دوست بیرسٹر یاسمین رحمن بھی یہی کہا کرتی تھیں کہ سارا معاملہ سوچ یا طرز فکر کا ہے یعنی آپ ریپ یا کسی بھی عمل کو کیسے دیکھتے ہیں۔ بہت پرانی بات ہے، مرحومہ کامریڈ لالی نے ہمیں ہندوستان کی ایک کمیونسٹ ایکٹوسٹ لڑکی کا قصہ سنایا تھا۔ پارٹی دشمن، عوام دشمن عناصر میں کسی نے اس کے ساتھ زنا بالجبر کیا لیکن اگلے روز وہ پارٹی پمفلٹ بانٹنے نکل گئی کیونکہ اس کے لئے پارٹی کا کام سب سے اہم تھا۔

ریپ یا زنا با لجبرعام طور پر عورتوں یا لڑکیوں کے ساتھ ہی ہوتا ہے لیکن بعض دفعہ مرد اور لڑکے بھی اس کا نشانہ بنتے ہیں۔ بہر حال عورت کے ساتھ ہو یا مرد کے ساتھ، یہ ایک سنگین جرم ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ قانونی اور سماجی طور پر اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔ اسٹینفورڈ انسائکلو پیڈیا آف فلاسفی کے مطابق فیمنسٹس ریپ یا زنا با لجبر کے بارے میں مختلف پہلوؤں سے سوچتی ہیں، پہلا معاملہ ”خاموشی کو توڑنے کا ہے“۔ فیمنسٹس نے اس مفروضے کو چیلنج کیا ہے کہ ریپ یا زنا با لجبر کے واقعات شاذونادر ہی ہوتے ہیں۔

انہوں نے ثابت کیا ہے کہ یہ لڑکیوں اور عورتوں کی زندگی کا ایک عام تجربہ ہے۔ حالیہ عشروں میں فیمنسٹس کے پروگراموں کے ذریعے یہ آگاہی عام ہوئی ہے۔ اور عورتوں نے ریپ یا جنسی زیادتی کے حوالے سے اپنے تجربات کے بارے میں بولنا شروع کیا ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ گھر سے باہر نکلنے والی تنہا عورت کسی سنسان جگہ پر کسی اجنبی کے ہاتھوں ریپ یا زنا با لجبر یا جنسی زیادتی کا نشانہ بنتی ہے، ایسا بھی ہوتا ہے لیکن زیادہ تر عورتیں ان مردوں کے ہاتھوں زیادتی کا نشانہ بنتی ہیں جو ان کے جاننے والے ہوتے ہیں۔ ان مردوں میں دوست، رشتے دار، باس، شوہر، ہمسائے، کولیگ یا کوئی بھی جاننے والا ہو سکتا ہے۔

فیمنسٹس کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ عورتوں کے جنسی پامالی کے تجربات کو سنجیدگی سے لیا جائے، اس بنا پر ہونے والے نقصانات کو تسلیم کیا جائے اور زیادتی کرنے والے کا محاسبہ کیا جائے۔ انہوں نے ریپ یا زنا با لجبر کے بارے میں پائے جانے والے روایتی تصورات کو بھی چیلنج کیا ہے۔ ریپ یا زنا با لجبر کے کیسز میں عموماً قانونی اور سماجی طور پریہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس میں عورت کی رضامندی بھی شامل تھی، یا اس نے کپڑے ایسے پہن رکھے تھے یا اس نے خود دعوت دی تھی۔

یا اس کے کردار کو زیر بحث لایا جاتا ہے اور اس کے ماضی کے حوالے دیے جاتے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے اس دور میں جنسی زیادتی کے نئے اور بدصورت پہلو سامنے آئے ہیں۔ فیس بک کے ذریعے لڑکیوں سے دوستی کی جاتی ہے، ملاقات پر اصرار کیا جاتا ہے اور جب لڑکی ملنے آ جاتی ہے تو اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس عمل کی ویڈیو بنا کر اسے بلیک میل کیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ تو ملے بغیر ہی لڑکی کی تصاویر کو فوٹو شاپ کر کے اسے بلیک میل کیا جاتا ہے۔

لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ سائبر کرائمز کے خلاف قانون بن چکا ہے اور ایف آئی اے میں ایسے معاملات کی رپورٹ درج کرائی جا سکتی ہے۔ حال ہی میں حیدرآباد اور کراچی کے خواتین محاذ عمل کے چیپٹرز نے زنا با لجبر اور جنسی زیادتیوں کے چیلنجز اور مفروضات کے حوالے سے ایک کانفرنس منعقد کی ہے۔ بدقسمتی سے ہم اس میں شرکت نہ کر سکے لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ اس کانفرنس میں پیش کردہ تجاویز پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).