بیکینی، بُرقینی اور انسانی حقوق


\"Amjadسوئمنگ پوُل یا ساحلِ سمندر پر خواتین کو کیا پہننا چاہیےِ؟ آج سے کچھ عرصہ پہلے مغربی دنیا میں شاید یہ سوال ہی نہیں تھا کیونکہ بِیکینی (نہایت ہی مختصر پہناوا) ہی بیچ پر دُھوپ اور پانی میں اشنان کرنے کی واحد علامت تھی۔ لیکن بُرقینی (مکمل مگر پانی دوست پہناوا) کے ایجاد ہوتے ہی اس کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بظاہر یہ کوئی متنازع بات نہیں ہونی چاہئے تھی لیکن چونکہ گزشتہ ڈیڑھ دہائیوں میں مغربی ممالک میں ہونے والے دہشت گردی یا انتہا پسندی کے زیادہ تر واقعات کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے مسلمانوں سے ثابت یا منسوب کیا جاتا رہا ہے اس لیے مغربی ممالک کی حکومتوں اور عوام کا رویّہ مسلسل مسلمانوں کے خلاف ڈھلتا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے کچھ معاملات ایسے ہیں جنہیں کئی جہتون سے پرکھا اور تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ ان میں بیکینی اور بُرقینی تازہ ترین اوردلچسپ ترین معاملہ ہیں۔

برقینی ویسے تو سمندر اور سوئمنگ پُول میں نہانے کا ایک متبادل لباس ہے مگر یہ نہایت تیزی سے ایک ایسی ہنگامہ خیز علامت بن کر ابھرا جس کے ارد گِرد کئی ایک آراء اور نقطہ ہائے نظر گھومتے ہیں۔ مثلاََ  فرانسیسی حکومت (اور بہت سے مقامی باشندوں) کا خیال ہے، کہ کیونکہ یہ پہناوا مسلمان خواتین زیبِ تن کرتی ہیں اور اگر اِس کی آزادی اور رواج عام ہو گیا تو معاملہ نفاذ شریعت کے مطالبے تک جائے گا۔ اس لیے فرانس میں بُرقینی پر بین لگا دیا گیا اور اس کی دیکھا دیکھی بہت سے ہوٹلوں اور نجی تفریح گاہوں نے بھی فرانس کے اندر اور فرانس کے علاوہ دوسرے ملکوں میں بھی بُرقینی پر قدغن لگا دی۔ یہ مکتبہِ فکر یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ کوئی بھی مسلم خاتون بذاتِ خود حجاب یا برقینی وغیرہ نہیں پہننا چا ہتی۔ یہ محض اُن کے والدین یا مرد رشتہ داروں کے جبر کا نتیجہ ہے کہ وہ مقیّد ہو کر آزاد گھومتی ہیں۔ اِس لیے فرانس میں نہ صرف بیکینی پہننے پر پابندی ہے بلکہ بعض صورتوں میں خواتین کو بر سرِ ساحل پولیس بُرقینی اتار کر بیکینی پہننے پر مجبور کرتی ہے اور حجابی خواتین کو یونیورسٹیوں اور دفاتر میں داخل ہونے سے روکنا عام ہے۔

اس حوالے سے برطانیہ اور امریکا کا رویہ یکسر مختلف ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بُرقینی پہن کر سمندر میں نہانا یا ساحل پر چہل قدمی کرنا مسلمانوں کا مغربی دنیا میں ضم ہونے بلکہ کثیر ثقافتی معاشرت اپنانے کا بہترین اظہار ہے۔ اب تو بہت سی غیر مسلم خواتین بھی برقینی کو ترجییح دینے لگی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس سے اُنہیں بندی اور پابندی کے بجائے زیادہ آزادی، زیادہ تحفظ، اور زیادہ آرام دہ محسوس ہوتا ہے۔ بہت سی مسلمان خواتین نے اپنے انٹرویوز میں یہ بھی بتایا کہ وہ بیکینی کے نیچے بُرقینی ہی پہنتی ہیں اور اس طرح سمندر میں نہانے کا مزا دوبالا ہو جاتا ہے۔ چین میں تو خواتین سمندر میں نہاتے ہوئے چہرہ تک ڈھانپ لیتی ہیں۔ کیونکہ اِس عمل سے اُن کا چہرہ غیر ضروری آبی نمکیات کے اثرات اور دھوپ کی شِدت سے محفوط رہتا ہے۔

مگر فرایسیسی حکومت اور زیادہ تر عوام کا خیال ہے کہ بُرقینی اسلامی استعارہ ہے اور اسی طرح کی کوئی بھی واضح مذہبی علامت زیبِ تن کرنا فرقہ ورانہ تقسیم اور تفریق کی بنیاد بن سکتا ہے۔ اور فرانس جیسا سیکولر ملک لوگوں کو اپنی مذہبی وابستگیوں کے کھلم کھلا اظہار کی اجازت نہیں دے سکتا۔ کیونکہ \”فرانس کے آباواجداد نے لا مذہبی فکر، فن اور عقلیت پسند معاشرت اور ثقافت کے لیے بے پناہ جدو جہد کی ہے اور وہ کسی بھی صورت اِن آزادیوں پر سمجھوتا نہیں کر سکتا\”۔ سابقہ فرانسیسی صدر\” نکولس سارکوزی\” نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ \”بُرقینی بنیاد پرستانہ اسلام کے فروغ کا نیا طریقہ ہے\”۔ کچھ انتہا پسند مغربی حلقوں کے خیال میں \”برقینی بھی جنسی کشش پیدا کرنے کا ایک متبادل ذریعہ ہے\” رد عمل میں \”ہیری پاٹر\” کی ناول نگار جے۔ کے۔ رولنگ طنز کرتے ہوے کہتی ہیں کہ \”چاہے خواتین اپنا بدن مکمل ڈھانپ لیں یا نیم برہنہ لباس اوڑھ لیں گویا ہر دو صورت میں وہ جنسی کشش ہی پیدا کر رہی ہوتی ہیں اور اس کے علاوہ اس کا اور کوئی مقصد نہیں ہو سکتا؟ آخر عورت اپنے ظاہر کے بارے میں خود فیصلہ کیوں نہیں کر سکتی؟

اس تمام صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مغربی دنیا میں اگر کچھ عورتوں کو نیم برہنہ لباس پہننے حتیٰ کہ بے لباسی کی بھی آزادی ہے تو کچھ اور عورتوں کو مکمل لباس پہننے کی آزادی کیوں نہیں ہے؟ اگر بے لباسی کسی مذہب کی علامت نہیں ہے تو لباس پہننا مُقام و مصروفیت سے قطِعِ نظر، کسی مذہب کی علامت کیوں ہے؟ ما سوائے اس کے کہ کوئی معاشرہ یا ریاست پہلے ہی سے جانتے ہوں اور متعصب بھی ہوں۔

دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کیا ریاست کو لوگوں کا لباس کا کوڈ مقرر کرنے کا اختیار ہونا چاہیے یا نہیں؟ انسانی حقوق کے اصولوں کے مطابق ریاست کو ایسے کسی بھی اقدام سے باز رہنا چاہیے جو لوگوں کی نجی آزادیوں کے خلاف ہو۔ اس میں ایسی تمام نجی آزادیاں شامل ہیں جن سے براہِ راست یا بالواسطہ  کسی دوسرے شخص کو کوئی نقصان نہ پہنچتا ہو۔ اور نفسیاتی نقطہِ نظر سے یہ طے کرنا بہت ہی مشکل ہے کہ کسی (مسلم یا غیر مسلم) عورت نے پبلک میں کونسا لباس کس کی مرضی سے پہنا ہوا ہے۔ ثقافتی تنوع، کثیر جہتی جمہوریت کا ایک اہم تری عنصر ہے۔ اور ِاس میں لباس بھی ایک غیر مستور جُزو ہے۔

اگر ہم مغربی دنیا میں مسلمان عورتوں کے اِس بنیادی حق کو تسلیم کر لیتے ہیں تو حقیقت پسندی سے مسلمان ریاستوں اور معاشروں کو بھی مغرب سے آنے والی سیاح یا عارضی اور مستقل طور پر رہائیش پذیر خواتین کو بھی اپنے چوائس کا لباس پہنن کر گھومنے پھرنےاور ساحلِ سمندر یا سوئمنگ پول میں بیکنی پہن کر نہانے کی آزادی دینا ہو گی۔ اور ان ممالک میں ایران اور سعودی عرب سے لے کر پاکستان جیسے کئی ایک ممالک شامل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments