فیلڈ مارشل ان پارلیمنٹ


مرے تو تن بدن میں آگ لگ گئی۔ یقین نہیں آتا تھا، یہ میں کیا سن رہا ہوں۔ فیلڈ مارشل ایوب خاں کی مدح سرائی، پاکستان کی جمہوری پارلیمنٹ میں۔ شاید مرا ایک ذہنی پس منظر ہے کہ جب ایک طالب علم کے طور پر سیاسی شعور پیدا ہونے لگا تو سب سے پہلا ٹاکرا ایوب خاں سے ہوا۔ مادر ملت کی قیادت میں گائوں گائوں پھر کر ہم نے اس آمر کے کرتوتوں کے پول کھولے تھے۔ پھر جب 68ء کا زمانہ آیا تو پاکستان بھی ان ملکوں میں شامل تھا جہاں طلبہ میدان میں اترے ہوئے تھے۔ بالکل جس طرح پیرس کی یونیورسٹیوں میں طلبہ کا راج تھا۔ پاکستان میں بھی ایک غلغلہ تھا۔ یہاں مگر اس کی وجہ ایوب خاں کی حکمرانی تھی۔ ہمارے لئے تو اسے ہٹانا قومی حمیت کا تقاضا بن گیا تھا۔

پھر برسوں کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ ایوب کی مدح سرائی کرے۔ ایسے لوگ بھی جو اس دور کی اقتصادی ترقی کے گن گاتے ہیں وہ بھی یہ کہے بغیر نہیں رہتے تھے کہ یہی وہ دور تھا جس نے ملک کو دولخت کرنے کی بنیاد رکھی، جو اس ملک میں جمہوریت کا قاتل اول تھا۔ یہ ایوب خاں کا پوتا اپنی حکومت کے دفاع میں اپنے دادا کی عظمتیں بیان کرتا ہے۔ ہر کسی کو حق ہے کہ وہ کسی بات کا کریڈٹ لے، مگر یہ کیا بات ہوئی کہ تحریک انصاف کا وزیر اپنی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے اپنے خاندان کو سامنے لے آئے۔

بیچارا اورکرتا بھی کیا، تحریک انصاف کا تو کوئی ماضی ہے نہیں۔ پھر کیا ضرورت تھی ماضی کی طرف جانے کی اور اپنی پارٹی کو بدنام کرنے کی۔ ابھی تک تو یہ کہتے تھے کہ یہ لوگ مشرف کی باقیات ہیں۔ اب معلوم ہوا کہ اس ساغر کی تہہ میں ایوب خانی تلچھٹ بھی ہے۔ آپ اسے اس طرح بیان کر رہے ہیں کہ یہ گویا ایوب خاں کا نہیں، آپ کی پارٹی کا کریڈٹ ہے۔ زرداری صاحب نے کریڈٹ لینا شروع کیا۔ پہلے ڈھکے چھپے لفظوں میں۔ جب اندازہ ہوا کہ کوئی مخالفت یا تردید نہیں کر رہا تو ذرا کھلنے لگے۔ پہلے تو عطا آباد جھیل کا ذکر کیا۔ پھر اپنے دوروں کا تذکرہ شروع کیا، آہستہ آہستہ اس پر آئے کہ یہ تو میرا وژن تھا۔ کسی نے تردید نہیں کی۔ اس لئے کہ اس وقت کی حکومت یہ چاہتی تھی کہ اس پر کوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔

اگر دوسری پارٹی اس کا کریڈٹ لیتی ہے تو اس کا مطلب ہے اس کی مخالفت نہیں کر رہی۔ اس بات کی بہرحال انہیں داد دینا پڑتی ہے۔ انہوں نے خیبر پختونخواہ میں بھی تحریک انصاف کی حکومت کو آن بورڈ لے لیا۔ حالات کا تقاضا یہی تھا۔ خیبر پختونخواہ والوں نے یہ کریڈٹ لے لیا کہ ہم نے لائن سیدھی کر دی۔ اپنے علاقے میں ہونے والی ناانصافیوں کا خاتمہ کر دیا۔ اس پر بھی کوئی نہ بولا۔ چلیے سب کو حق پہنچتا تھا۔

اب یہ عمر ایوب نئی درفنطنی لے کر آئے ہیں۔ فرماتے ہیں امریکہ نے مرے دادا کو ایک ڈوزیئر دیا جو بتاتا تھا کہ پاکستان چین سے تعلقات بڑھا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب 62ء میں چین بھارت جنگ ہوئی تو پاکستان نے بڑی دانشمندی کا ثبوت دیا اور پھر 65ء میں چین نے دوستی کا حق ادا کر دیا۔ غالباً اس بات کو عمر ایوب سی پیک کا آغاز کہہ رہے ہیں۔ اس کا کریڈٹ تو بھٹو بھی لیتے ہیں اور جانے کتنے لوگ لیتے ہیں۔ اس طرح ذرا اور دور جائیں تو اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان ان اولین ممالک میں سے تھا جنہوں نے مائوزے تنگ کے عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کیا تھا۔

ایک بڑے سنجیدہ مطالبے کی ضرورت ہے کہ اس وقت ہمارے امور خارجہ کون چلا رہا تھا۔ میں ان خارجہ سیکرٹریوں کا تذکرہ نہیں کرنا چاہتا اور ان وزرائے خارجہ کا بھی نہیں جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں مضبوط خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی۔ ویسے ہم اس وقت چین کے نہیں، امریکہ کے قریب تھے ۔ بغداد پیکٹ پر دستخط کر تے وقت آپ ایوب خاں کو دیکھ سکتے ہیں۔ وہ ہمارے کمانڈر چیف ہی نہیں، وزیردفاع بھی تھے۔ سیٹواور سنٹو میں شمولیت انہی لوگوں کی سوچ کا نتیجہ تھی۔

ان دنوں پی ایل 480 کے تحت ہمارے غریبوں کے لئے گندم، خشک دودھ اور گھی بھی امریکہ سے آیا کرتا تھا۔ اس وقت ہمارے جو چین سے تعلقات بنے، وہ صرف ابتدا تھی۔ اس طرح کریڈٹ لینا ہے تو کیوں نہ ہم اس کاکریڈٹ نظریہ پاکستان کی طرح علامہ اقبال کو دے دیں۔ جنہوں نے مائوزے تنگ سے بھی پہلے چین کی عظمت کے گن گائے تھے: گراں خواب چینی سنبھلنے لگے ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے۔ ایوب خاں بھی یاد آیا تو کہاں آیا۔

اب فرماتے ہیں یہ تربیلا 4 کا کریڈٹ کیسے لے سکتے ہیں۔ تربیلا بھی تو میرے دادا نے بنایا تھا۔ جی ہاں الزام یہ ہے کہ تین دریا بیچ کر عالمی امداد سے بنایا گیا۔ الزام یہ بھی ہے کہ عالمی قرضے لینے کی ابتدا اسی دور میں ہوئی تھی جب ہم نے باہر سے وزیر خزانہ منگوانے کا آغاز کیا تھا۔ وگرنہ پاکستان کی ابتدا میں جب ملک غلام محمد اور چودھری محمد علی پاکستان کے وزرائے خزانہ تھے، پاکستان کا بجٹ خسارے کا نہیں ہوتا تھا۔ فاضل ہوا کرتا تھا یعنی سرپلس یہ تو جب سے ہمارے ہاں بھاڑے کے ماہرین اقتصادیات آنے لگے، ہم اس جال میں پھنسنے لگے۔

خیر یہ الگ بات ہے کہ تربیلا اور منگلا تو بن گیا۔ مگر اب اس کی گنجائش کم ہوتی جا رہی ہے۔ دونوں ڈیموں میں توسیع کے منصوبے الگ منصوبے ہیں یہ تربیلا کا حصہ نہیں۔ کسی حکومت نے اس جانب توجہ دی ہے تو آپ کا کہنا کہ تربیلا 4کا تو نام نہ لو۔ بھئی آپ نام نہ لیں ایوب خاں کے وقت تو شاید اس کا کوئی تصور تک نہ ہو گا ترقی کا سفر رواں دواں ہے۔ چلتا ہی رہتا ہے۔ ترقی صرف ایوب خاں کے زمانے میں نہیں ہوئی آج تک جاری ہے۔

عمر ایوب نے اپنے دادا کے ساتھ اپنے والد گوہر ایوب کا بھی تذکرہ کیا کہ انہوں نے جیل کاٹی۔ ذکر کر بیٹھے ہیں تو ان کا ایک آدھ کارنامہ بھی سن لیجیے ایوب خاں کو جتنا بدنام ان کے لاڈلے بیٹے نے کیا شاید ان کی اپنی کرتوتوں نے بھی نہیں کیا: گوہر، سہگل، آدم جی بنتے ہیں برلا اور ٹاٹا یہ اس زمانے میں حبیب جالب کی مشہور نظم کا ٹکڑا تھا۔ صدر ایوب زندہ باد۔ کراچی میں آج بھی اس کا نام ایک نفرت کی علامت ہے۔ گندھارا انڈسٹری بھی اسی زمانے کی یادگار ہے۔

مادر ملت کی مہم کے دوران کراچی دل و جان سے مادر ملت کے ساتھ تھا۔ ان دنوں گوہر ایوب نے پٹھانوں کے جتھے لے کر مہاجر آبادیوں پر دھاوا بولنے کا ایسا چلن ڈالا کہ کراچی میں نسلی منافرت کی بنیاد رکھ دی۔ پٹیل پارہ کراچی کا ایسا علاقہ ہے جہاں آج بھی پختون خاصی تعداد میں ہیں۔ ان دنوں مواصلات کے جدید ذرائع تو تھے نہیں کراچی کے لوگ بتاتے ہیں کہ کھمبے بجا بجا کر ایک سے دوسری بستی والوں کو پیام دیتے تھے کہ حملہ ہونے والا ہے۔ ذرا تصورکیجیے جو لوگ ہجرت کے زخم سہہ کر اس شہر میں آئے ہوں ان کے لئے راتوں کو کھمبے کھڑکنے کی یہ آوازیں کیسی دہشت پیدا کرتی ہو گی۔

کہتے ہیں بھٹو صاحب کے ذو لسانی بل نے کراچی میں نفرت کی بنیاد رکھی جب اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے گا، کا نعرہ گونجا مگر یہ تو بہت بعد کی بات ہے۔ آپ کہتے ہیں سی پیک ایوب خاںنے بنایا تو سن لو ایم کیو ایم گوہر ایوب نے بنائی۔ اس کی بنیاد 64ء اور 65ء میں رکھ دی گئی تھی۔ خیر میں تو فیلڈ مارشل کے ذکر ہی سے تلملایا بیٹھا تھا کہ کوئی کس ڈھٹائی سے بھری بزم میں اس کا دفاع کر رہا ہے، اس پر مستزاد یہ کہ تاریخ کو بھی بچگانہ انداز میں مسخ کر رہا ہے۔

مگر افسوس اس بات کا ہے کہ جمہوریت کے علمبرداروں میں کوئی نہیں تھا جو اس زمانے کی یاد دلاتا اور بتاتا کہ اس قوم نے اس فوجی آمر کو کس طرح اقتدار سے فارغ کیا تھا۔ خبردار پھر ایسے نہ کرنا۔ پہلے ہی سیاسی خاندان موجود ہیں، اب ایک نیا فوجی سیاسی خانوادہ متعارف کرانے کی کوشش نہ کرو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).