مولانا کی انتشار پسند بیٹریاں


حکومت کے سامنے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار چیلنج آیا ہے۔ بجٹ پیش کیا جا چکا۔ بحث جاری ہے اور اب اسے پارلیمنٹ سے منظور کرانا ہے۔ دوسرا چیلنج یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان رابطے بڑھے ہیں۔ ساری اپوزیشن جماعتیں اب حکومت کو کچھ مہلت دینے کا موقف ترک کر کے مولانا فضل الرحمن کی رائے سے اتفاق کر رہی ہیں یعنی حکومت کے خلاف فوری تحریک کا آغاز۔

قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کو بجٹ منظور کرانے کے لئے ق لیگ‘ ایم کیو ایم اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر مینگل کی حمایت درکار ہے۔ ایم کیو ایم نے سب سے پہلے کچھ باغیانہ بھائو دکھائے اور حکومت سے مزید ایک وزارت حاصل کر لی۔ ق لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان مونس الٰہی کو وزارت دینے کا تنازع کئی ماہ سے چل رہا ہے۔ مونس الٰہی دو بار اپنی جماعت سے الگ دکھائی دیے۔ حالیہ دنوں قومی اسمبلی کے اجلاس میں انہوں نے بلاول بھٹو زرداری سے ان کی نشست پر جا کر علیک سلیک کی۔

چودھری شجاعت حسین کی سربراہی میں ق لیگ کا وفد وزیر اعظم سے ملا ہے۔ وفد نے وزیر اعظم کے سامنے کچھ مطالبات رکھے ہیں عوماً ایسے مطالبات کو ’’تحفظات‘‘ کا نام دے کر خوش معنی بنا دیا جاتاہے۔ جناب اختر مینگل پر بلاول بھٹو زرداری کی خصوصی نظر ہے۔ اختر مینگل صرف ووٹ نہیں ہیں بلکہ بلوچستان کے ان حلقوں کا چہرہ ہیں جو ریاست اور قوم پرست باغیوں کے درمیان مفاہمت کے لئے کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اگر اختر مینگل حکومت کے اتحادی نہ رہیں تو ممکن ہے عمران خان کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہ ہو مگر ان کی حکومت کی ساکھ ضرور متاثر ہو سکتی ہے۔ شنید ہے کہ بلاول بھٹو کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں اختر مینگل کا موقف کچھ بدلا ہے۔ اب کہہ رہے ہیں کہ وہ حکومت کے اتحادی نہیں بلکہ کچھ امور پر حکومت کی حمایت کر رہے تھے۔ تحریک انصاف کوشش کر رہی ہے کہ سردار اختر مینگل کے’’تحفظات‘‘ کا احترام کیا جائے۔ سیاسی صورتحال دو الگ الگ راستوں پر پڑ گئی ہے۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا شہباز گروپ پارلیمنٹ میں رہ کر حکومت کی مزاحمت کر رہا ہے۔ ن لیگ کا مریم گروپ اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس کھونے کو مزید کچھ نہیں۔ ایک سال تک دولت مند اپوزیشن جماعتوں کو مزاحمت پر قائل کرتا رہنے کے بعد مولانا فضل الرحمن اپنی کچھ اہمیت بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ مولانا جانتے ہیں کہ وہ اکیلے کچھ بھی نہیں۔

ان کی جماعت ایک مسلک کی سیاسی شکل ہے۔ اسے قومی جماعت ہرگز تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی سیاست یہی ہے کہ بلوچستان کے پشتون اضلاع‘ قبائلی اضلاع اور ڈیرہ اسماعیل خان کو اس مسلکی سیاست سے باہر نہ نکلنے دیں۔ شہباز شریف کے خلاف نیب کی کارروائی جاری تھی کہ انہیں باہر جانے کی اجازت مل گئی۔ نیب کی حراست میں تھے تو روز قومی اسمبلی پہنچ جاتے۔ نیب افسران کو بطور اپوزیشن لیڈر برا بھلا کہتے۔ تفتیش کیا ہوتی‘ پھر لندن چلے گئے۔ کئی ہفتے اکیلے سڑکوں پر گھومتے رہے۔ جب خود ان کی جماعت کے اراکین اسمبلی ان کے طرز سیاست پر تنقید کرنے لگے تو واپس آ گئے۔

چار گھنٹوں سے زائد وقت کی تقریر کی۔ ان کے ساتھی بھی حیران تھے۔ تقریر میں یہ نہیں کہا کہ پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کریں گے‘ کچھ اعداد و شمار بیان کئے اور اپنی سابقہ حکومت کی کارکردگی کی داد چاہی۔

پھر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بجٹ سیشن میں اظہار خیال کیا۔ چار دن تک اسمبلی میں کوئی کسی کی بات سننے کو تیار نہ تھا۔ مگر گزشتہ بدھ کے روز سب نے ایک دوسرے کی بات تحمل سے سنی۔ وزیر عمر ایوب نے بات کی‘ تب بھی ایوان پرامن تھا۔ بلاول بھٹو زرداری کو تاریخی موقع ملا ہے کہ وہ ہئیت حاکمہ اور سیاسی جماعتوں کے درمیان تعلقات کا براہ رات جائزہ لے سکیں۔ بے نظیر بھٹو نے انہیں ذوالفقار علی بھٹو کی تقاریر کی ویڈیو دکھائیں۔

بلاول ذوالفقار علی بھٹو کی کتابیں پڑھتے رہے۔ سیاست میں متحرک ہوئے تو آصف علی زرداری ان کے سر پرست بنے۔ بلاول کو مولانا فضل الرحمن کچھ ہفتے قبل اپنی شاگردی میں آنے کی پیشکش کر چکے ہیں۔ آصف علی زرداری کی گرفتاری کے بعد بلاول نے مولانا کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ مولانا ان دنوں بہت خوش ہیں۔ ان کی انتشار پسند بیٹریاں چارج ہو رہی ہیں ۔وہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے سیاسی مقاصد کو سمجھتے ہیں۔

انہیں معلوم ہے کہ کوئی ان پر بھروسہ نہیں کر رہا مگر وہ اس وقت تک صورت حال کا شہد نچوڑنے کو بے تاب ہیں جب تک دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں حکومت سے پراکسی تصادم کے لئے مولانا کی احتجاجی فورس پر تکیہ کرتی رہیں گی۔ سیاسیات کے طالب علموں کو گمان ہوتا ہے کہ سیاسی اتحادی کا مطلب مشترکہ نظریاتی مفادات رکھنے والی جماعتیں ہوتی ہیں۔ کچھ معاشروں میں ایسا ہوتا ہو گا۔ پاکستانی معاشرے نے الفاظ‘ اصطلاحات اور اشتراک کو ہمیشہ اپنے ڈھب سے برتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں ایسے کردار کسی نہ کسی طور اہمیت اختیار کر لیتے ہیں جو لفظوں کے معانی بدلنے کی سند ہوتے ہیں۔1973ء کے آئین کا تناظر ہو‘ جمہوریت اور اٹھارویں ترمیم ہو، بلوچستان کے حقوق ہوں یا پھر اصولوں کی سیاست‘ ان سب کا وزن کسی’’انصاف کانٹے‘‘ پر کریں۔ بہت ہلکے نکلیں گے۔ حکومت بجٹ منظور کرا لے گی۔ حکومت کے خلاف تحریک بھی چند ہفتوں میں نئی شکل میں سامنے آئے گی۔ بلاول بھٹو زرداری مولانا سے جان چھڑا لیں گے کیونکہ مولانا کی خدمات کی قیمت مسلسل بڑھتی رہتی ہے۔

مریم نواز کے پاس زیادہ وسائل ہیں اسی لئے مولانا نے شہباز شریف کی بجائے میاں نواز شریف سے مشاورت کی باتیں ابھی سے شروع کر دی ہیں۔ وہ بلاول اور مریم کی اپنے اپنے باپ سے محبت کی قیمت وصول کرنے کے لئے انہیں مزاحمت کی اس گلی میں لے جا رہے ہیں جہاں فائدہ صرف مولانا کا ہو گا۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).