مشرق وسطیٰ کے پاکستانی


\"samiبیرون ممالک میں پاکستان نہ میڈیا سے پہچانا جاتا ہے، نہ پرائم منسٹر آف پاکستان، نہ عساکرِ پاکستان کا سپہ سالار، نہ چیف جسٹس آف پاکستان اور نہ جنگ اخبار والے میر خلیل الرحمن سے۔ بلکہ وہ لوگ جو ملک سے باہر معاش کے متلاشی ہوتے ہیں، اور وہ بھی مشرق وسطیٰ کے ممالک میں خصوصاً متحدہ عرب امارات میں۔

پاکستان عرصہ دراز سے سیاسی طور پر غیر مستحکم ہونے کے ساتھ ساتھ اقتصادی اور معاشی طور پر بھی گراوٹ کا ایک نمونہ ہے۔ مملکت خداد کے ان حالات سے مجبور ہو کر بیشتر شہری یا تو زمین کا ٹکڑا اونے پونے داموں بیچ دیتے ہیں یا کسی سے ادھار لے کر مشرق وسطی کی طرف رو بہ سفر ہو جاتے ہیں، تاکہ اپنی اور خاندان کی پیٹ پوجا کی جا سکے۔ پھر کیا۔۔۔ ان کا سفر پہلی دفعہ ائیرپورٹ کے لاؤنج میں داخل ہونے سے شروع ہو کر متحدہ عرب امارات میں فرنگیوں کے ساتھ ساحل سمندر پہ کھینچی ہوی تصویروں تک اپنے آپ میں ایک لازوال مستنصر حسین تارڑ اور ابن بطوطہ کے سفر نامہ سے کہیں کم نہیں ہوتا ہے۔ ان لازوال داستانیں میں کہیں سڑک کراس کرتے ہوئے جرمانہ پا لینا ہے، تو کبھی کسی ہائپر مال میں چیز خریدنے سے پہلے اس کا سٹیکر اُتار دینا، کبھی ساحل سمندر پہ جاکر کسی فرنگی لڑکی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا ہوتا ہے، تو کبھی اپنے کمپنی کے منیجر سے اس لئے لڑنا کیونکہ وہ انڈین ہے، کبھی نماز جمعہ کے لئے سڑک کی درمیان میں کھڑا ہوجانا ہے، تو کبھی چلتی ہوئی گاڑی سے نسوار پھینکنا، کبھی کسی فلپائنی لڑکی کے ساتھ سات جنموں کے وعدے کرنا، تو کبھی ٹولیوں کی شکل میں سڑک کنارے بیٹھ کر موبائل پہ با آواز بلند گانے سُننا وغیرہ شامل ہے۔ یہی حرکات ہیں جو ایک عام انسان کو ایک پاکستانی بنا دیتا ہے۔ یہ لوگ وہ کام روٹین کے طور پر کرتے ہیں، جو عام انسان انتہائی مجبوری کے حالت میں ہی کرتا ہے۔ جیسا کہ جان لیوا تپتپی دھوپ میں زمین کی کھدائی کرنا، اس بلا کی گرمی میں کنسٹرکشن کا کام کرنا جس گرمی کی وجہ سے کھجور پکتے ہیں۔ بڑے بڑے ٹرک چلانا جن میں اے سی تک نہ ہو اور اس جیسے اور بہت سارے کام، جو ایک عام انسان کو بوقت مجبوری کرنے پڑتے ہیں۔

یہ لوگ پاکستان کے امیج کو اتنا تباہ کر دیتے ہیں، کہ پھر اہل عرب انہیں الباکستانی کہنے سے اور گالیاں دینے سے بھی باز نہیں آتے۔ اپنا زیادہ تر وقت کمپنی کی گاڑی چلانے والا یا کسی کنسٹرکشن کمپنی میں کام کرنے والا یہ موصوف، جب بارہ اور سولہ گھنٹہ کام کرنے کے بعد سوشل میڈیا پہ سر تاج عزیز کا منصب سنبھالتا ہے، تو اپنے کہے ہوئے حرف کو حرف آخر قرار دینے سے بھی نہیں چوکتا۔ یہ بندہ جب نسیم حجازی کے ناول کا ایک کردار بننے کی کوشش کرتا ہے تو دل سے ایک آواز آتی ہے، ایتھے رکھ۔ یہ لوگ مملکت خداد کا جو امیج فیسبک کے ریکارڈ یا لائیو ویڈیو کے ذریعے دیتے ہیں، وہ نہ تو ہم نے معاشرتی علوم کی کتاب میں پڑھا ہوتا ہے اور نہ پی ٹی وی کی نیوز بلیٹن پہ دیکھا ہوتا ہے۔ یہ سوشل میڈیا کے وہ کردار ہوتے ہیں، جو عام اصطلاح میں پشاور کے گل خان، لاہور کے پاکستانی چاچا، کراچی کے بھائی وغیرہ جیسے اصطلاحات سے جانے جاتے ہیں۔

ان مجاہدین کی دیگر اَن گنت خصوصیات میں سے ایک خاصیت دفاع پاکستان کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا بھی ہے، یہ سیف علی خان کی فلم فینٹم کا بدلہ لینے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں، بندے کو ایسا لگتا ہے، کہ گل خان کسی بھی وقت دہلی میں گُھس کر لال قلعہ پر سبز ہلالی پرچم لہرا کر زید حامد کی حسرت کو خواب تعبیر بخشے گا، حالانکہ ان کی ٹوپی بھی لال نہیں ہوتی اور نہ بال لمبے، اور نہ ہی ان کو غرناطہ، قسطنطنیہ، اُندلس اور غزوہِ ہند جیسے الفاظ کے استعمال کا اتا پتہ ہوتا ہے۔

حب الوطنی کا ایسا بخار تو ان کے سر پہ اتنا چڑھا رہتا ہے کہ مشرق وسطی، جیسے امارات، قطر اور سعودی عرب جیسے ممالک کو اپنا سمجھ بیٹھ جاتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ وہ ان کو اپنے ساتھ کھانا کھانے میں بھی بیٹھنے نہ دے۔ اتنے عرصے کے بعد جب یہ لوگ عام گفتگو کرتے ہیں تو اس میں عربی کے محاورے ایسے استعمال کرتے ہیں جیسے ہر لفظ کے بدلے دس نیکیاں ملنی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں، جو اپنی پشاوری چپل، ملتانی کُھسہ اور کوئٹہ وال سینڈل پہ، چمکدار اونچی ایڑھی والے عربی چپل کو ترجیح دیتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات جو دنیا کا اقتصادی اور معاشی مرکز ہے، جہاں دنیا سے لوگ آکر تجارت کرتے ہیں، وہاں ہمارے پاکستانی یا تو چوکیدار ہوتے ہیں اور یا ڈرائیور۔ بہت کم ایسے لوگ ہیں جو اچھی پوزیشنز پہ کام کرتے ہیں، اور تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ مہذب اور معیاری اخلاق کے بھی حامل ہیں۔

تو یہ ہم سب ہیں، جو پاکستان کو وہ نام دیتے ہیں، جو شرم کا ایک دوسرا نام ہوتا ہے، اور یہاں آکر ہماری عقل نکلنے جانے کے ساتھ ساتھ، ہمارا خلاصہ ہوجاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments