حکومتیں چلنی چاہئیں


یہ فقرہ بظاہر تو ایسے لگتا ہے جیسے کھانا پکنا چاہیے یا سورج نکلنا چاہیے مگر بعض اوقات لکڑیاں یا گیس نہیں ہوتیں تو کھانا نہیں پک سکتا چاہے آپ کی شدید خواہش ہو اور آپ کے پاس کھانا پکانے کے لوازمات خریدنے کے وسائل بھی ہوں اور لوازمات دستیاب بھی ہوں۔ اسی طرح مطلع ابر آلود ہو تو سورج نکلنے کے باوجود نہ تو دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی اس کی حدت پوری طرح محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہی حال کچھ حکومتوں کا بھی ہوا کرتا ہے، چاہے آپ جس قدر بھی چاہیں کہ وہ چل پائیں مگر وہ چل نہیں پاتیں۔ ایسا ہی کچھ پاکستان کی موجودہ حکومت کا احوال ہے کہ باوجود ان کی خواہش کے بھی جو اس کے مخالف ہیں نہ تو یہ چل رہی ہے اور نہ مستقبل میں چلتی دکھائی دیتی ہے۔

عرب شیوخ کی ڈرائیوری کرکے ان کی رقوم ”پارک“ کروا لینے سے معیشت چلنے سے رہی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے نجی کار پارکنگ میں کھڑی کی گئی گاڑی کو پارک کا مالک اپنی کار سمجھنے لگے جس کو وہ انتہائی ضرورت کے وقت بھی استعمال نہیں کر سکتا چاہے مالک چابی حوالے ہی کر گیا ہو۔ اگر کوئی کم بخت ڈھیٹ بن کے استعمال کر بھی لے تو کسی بھی وقت لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔

وزارت خارجہ، وزارت خزانہ ”ٹوئسٹ“ یعنی تروڑ مروڑ کے یا سپن کرکے یعنی جو دکھانا چاہیے اس کی بجائے کچھ اور دکھا کے پارکنگ کے ساتھ انویسٹمنٹ مطلب سرمایہ کاری کا ملمع بھی چڑھا دیتے ہیں۔ بھائی قطر والا اگر اس دوران کسی بھی قسم کی کوئی سرمایہ کاری کرنا ہی نہ چاہے تو۔

یا پھر یہ کہ عالمی مالیاتی فنڈ سے آپ 6 ارب ڈالر 36 قسطوں میں لینے کی تگ و دو کر رہے ہوں اور وہ جب تک ڈالر کی شرح 185 تک نہ پہنچ جائے آپ کو پہلی قسط دینے پر ٹال مٹول کر رہے ہوں تو فلم کچھ یوں بنتی ہے کہ فی قسط 166666666 ڈالر ملتے ہیں جو اصل میں 15 کروڑ ہی ملیں گے کیونکہ سروسز اور سود کی پہلی قسط میں باقی کٹ جائیں گے اور ہر قسط میں سروس چارجز وہی رہیں گے لیکن سود کم نہیں ہوگا۔ یوں ننگی کو جب نچوڑنے کو کچھ نہیں ہوگا تو وہ نہا نہیں پائے گی۔ مگر معاملہ رقوم پانے کا نہیں بلکہ رقوم کی ادائیگی کا ہے کہ آپ کو روپے کے عوض ڈالر اسی بھاؤ سے خرید کے دینے ہوں گے جو موقع پر ہوگی مطلب اگر شرح 100 ہوتی تو آپ کو ساڑھے سولہ کروڑ ساڑھے سولہ ارب روپوں میں مل جاتے لیکن اگر شرح 185 ہوگی تو تین ارب پانچ کروڑ پچیس لاکھ میں۔ لیکویڈیٹی کو قائم رکھنے کو آپ نئے نوٹ چھاپیں گے تو افراط زر کی شرح بڑھے گی پھر افراط زر کی شرح سے وابستہ مہنگائی اور بیروزگاری کا جن چنگھاڑنے اور پھاڑنے لگے گا۔

جب معیشت ہی ڈانواڈول ہوگی تو حکومت بھی لنگڑائے گی۔ جاننے والے اکتوبر میں درون پارلیمنٹ حکومت تبدیلی کی بات کر رہے ہیں۔ لنگڑاتی حکومت کی ٹانگ کی جگہ اگر پروستھیسس یعنی مصنوعی ٹانگ بھی لگا دی جائے تب بھی نقص کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہا کرتا ہے۔

ایسے میں کیا کرنا ہوگا کہ کوئی ایسی حکومت آئے جو فی الواقعی چلنے کے قابل ہو۔ ویسے تو یہ آج کے حساب سے سوا سولہ کروڑ روپے ( ملین ڈالر ) کا سوال ہے مگر اس کا جواب دینے کے لیے جو جزر نکالی جا سکتی ہے وہ مڈ ٹرم الیکشن یعنی وسط مدتی انتخابات ہیں جو یہ حکومت کروانا نہیں چاہے گی چاہے حاکم دو ٹانگ والا ہو یا پونے دو ٹانگ والا۔ مگر بات صرف جزر پر ہی مبنی نہیں، اس کے لیے اضافت و منہا کا قاعدہ بھی برتنا ہوگا یعنی جو پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کہلاتی ہے وہ انہیں اعمال پر کاربند ہو جس کا بین الاقوامی معاشرہ تقاضا کرتا ہے۔ کاسمیٹک یعنی سرخی پاوڈر لگا کے مسخ چہرہ چھپانے کی بجائے ریڈیکل پلاسٹک سرجری یعنی چہرہ تبدیل کرنے والی جراحی کیے بن کام نہیں بنے گا۔ ایسا اسٹیبلشمنٹ کرنے سے گریزاں ہے۔

ایف اے ٹی ایف نے حکومت پاکستان کو اکتوبر کی مہلت دی ہوئی ہے اور یہ غالباً آخری بار بڑھائی گئی مدت ہے۔ دہشت گرد تنظیموں کا وجود کسی بھی شکل میں اور انہیں مالی وسائل کی فراہمی ہر شکل میں بند نہ کی گئی تو یہ ادارہ پاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کیے جانے کی سفارش کر سکتا ہے اور اس ادارے کی سفارشات و تجاویز بالعموم مان لی جاتی ہیں۔ اگر خاکم بدہن ایسا ہو گیا، سونا تو پہلے ہی نہیں سہاگہ بھی ہاتھ سے جائے گا۔ پھر پھرتے رہنا ڈھیلے سے نجاست صاف کرنے کی تگ و دو میں اسے مزید پھیلاتے ہوئے۔

دوست سمجھتے ہیں کہ ایسی باتیں وزیر اعظم عمران خان یا تحریک انصاف سے عناد رکھنے کی وجہ سے کی جاتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بلا کم و کاست تجزیہ نگار کی نہ تو آہو سے دوستی ہوتی ہے نہ کاہو سے بیر البتہ حب الوطنی اور عوام کی تکالیف کا درد محسوس کرنے پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔

نواز شریف ہوں یا آصف علی زرداری، فریال تالپور ہوں یا علیمہ نیازی صاحبہ، کوئی بھی بددیانت یو تو اس سے پوری طرح نمٹیں مگر عوام کا کچومر نکالنے کا کسی کو بھی کوئی حق نہیں ہے، بلا تخصیص۔

ذاتی طور پر میری خواہش ہے کہ حکومت اپنے پانچ برس پورے کرے اور پھر باقاعدہ دوسری حکومت آئے موجودہ حکمرانوں کی یا اوروں کی جنہیں عوام منتخب کریں گے۔ گذشتہ انتخابات میں زبان زد عام مداخلت کرنے والوں کا جو ذکر ہے وہ شاید سبق سیکھ جائیں، ویسے لگتا نہیں ہے کیونکہ اقتدار اور طاقت کا نشہ تب ہی جاتا ہے جب ان سے زیادہ مقتدر یا طاقتور ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہو۔

ایسے میں مرتے پستے پھر بھی عوام ہیں چاہے عراق ہو یا لیبیا، افغانستان ہو یا شام لیکن اگر سیدھے ہاتھ گھی نہ نکلے تو انگلی ٹیڑھی کرکے گھی نکالنے والے گھی نکال لیتے ہیں، اپنے لیے، عوام کے لیے نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).