لیاقت علی خان کو کس نے قتل کیا؟


گولی کی آواز سنتے ہی نجف خاں نے پشتو میں چلا کر کہا، ”اسے مارو“ نجف خاں نے پنڈی (پنجاب) کے جلسے میں پنجابی کی بجائے پشتو کیوں استعمال کی؟ کیا اسے معلوم تھا کہ قاتل افغانی ہے؟ اس کے حکم پر سید اکبر کو ہلاک کرنے والا انسپکٹر محمد شاہ بھی پشتو بولنے والا تھا۔ کیا پولیس کا ضلعی سربراہ اضطراری حالت میں یاد رکھ سکتا ہے کہ اس کے درجنوں ماتحت تھانیدار کون کون سی زبان بولتے ہیں؟ کیا تجربہ کار پولیس افسر نجف خاں کو معلوم نہیں تھا کہ وزیر اعظم پر حملہ کرنے والے کو زندہ گرفتار کرنا ضروری ہے؟

جب انسپکٹر شاہ محمد نے سید اکبر پر ایک دو نہیں، پانچ گولیاں چلائیں، اس وقت سفید پوش انسپکٹر ابرار احمد نے حاضرینِ جلسہ سے مل کر قاتل سے پستول چھین لیا تھا اور اسے قابو کر رکھا تھا۔ کیا انسپکٹر شاہ محمد قاتل پر قابو پانے کی بجائے اسے ختم کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا؟

لیاقت علی کے صاحبزادے اکبر لیاقت علی کا کہنا ہے کہ سید اکبر کو تو خواہ مخواہ نشانہ بنایا گیا، اصل قاتل کوئی اور تھا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ لیاقت علی خاں کو گولی سامنے سے نہیں، عقب سے ماری گئی تھی

جلسہ گاہ میں موجود مسلم لیگ گارڈ بھالوں سے سید اکبر پر ٹوٹ پڑے۔ اس کے جسم پر بھالوں کے درجنوں زخم تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ وزیر اعظم کے آس پاس بہت سے مسلح افراد موجود تھے جس سے ناقص حفاظتی انتظامات کی نشاندہی ہوتی ہے۔

نجف خاں کے حکم پر حفاظتی گارڈ نے ہوا میں فائرنگ شروع کر دی جس سے جلسہ گاہ میں افراتفری پھیل گئی اور زخمی وزیراعظم کو طبی امداد پہنچانے میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ اس ہوائی فائرنگ کا مقصد واضح نہیں ہو سکا۔

ایس پی نجف خاں نے انکوائری کمیشن کو بتایا کہ اس نے اپنے ماتحتوں کو ہوائی فائرنگ کا حکم نہیں دیا۔ بلکہ ایس پی نے اپنے ماتحتوں سے جواب طلبی کر لی۔ انکوائری کمیشن کے سامنے اس ضمن میں پیش کیا جانے والا حکم 29 اکتوبر کا تھا۔ تاہم عدالت نے رائے دی کہ ریکارڈ میں تحریف کی گئی تھی۔ اصل تاریخ 20 نومبر کو بدل کر 29 اکتوبر بنایا گیا مگر اس کے نیچے اصل تاریخ 20 نومبر صاف دکھائی دیتی تھی۔ ظاہر ہے کہ نجف خاں نے فائرنگ کا حکم دینے کے الزام کی تردید کا فیصلہ 20 نومبر کو کیا۔ سرکاری کاغذات میں ردوبدل ایس پی نجف خاں کے سازش میں ملوث ہونے یا کم از کم پیشہ وارانہ بددیانتی کا پختہ ثبوت تھا۔ انکوائری کمیشن کے مطابق نجف خاں نے ایک ذمہ دار پولیس افسر کے طور پر اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کی تھی۔ اس عدالتی رائے کی روشنی میں نجف خان کے خلاف محکمانہ کارروائی ہوئی لیکن اسے باعزت بحال کر دیا گیا۔

وزیر اعظم کے جلسے میں ممکنہ ہنگامی صورت حال کے لیے طبی امداد کا کوئی انتظام نہیں تھا حتٰی کہ کسی زخمی کو اسپتال لے جانے کے لیے ایمبولنس تک موجود نہیں تھی۔ چاروں طرف اندھا دھند گولیاں چل رہی تھیں اور چند افراد اس بھگڈر میں سید اکبر کو ختم کرنے میں مصروف تھے۔ کچھ لوگ ایک وزنی آرائشی گملا اٹھا لائے اور اسے سید اکبر پر دے مارا جس سے اس کی پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ اس افراتفری میں سید اکبر پر حملہ کرنے والوں کا اطمینان حیران کن تھا۔ سید اکبر نے زرد رنگ کی شلوار قمیص پر اچکن پہن رکھی تھی۔ یہ خاکسار تحریک کی وردی نہیں تھی۔ واردات کے فورا بعد یہ افواہ کیسے پھیلی کہ قاتل خاکسار تھا بلکہ صوبہ بھر میں خاکساروں کی گرفتاریاں بھی شروع ہو گئیں۔ کیا یہ عوام کے اشتعال کو کسی خاص سمت موڑنے کی سوچی سمجھی کوشش تھی؟

خواجہ ناظم الدین نتھیا گلی میں تھے جب کہ غلام محمد پنڈی ہی میں تھے۔ دونوں نے جلسے میں شرکت کی زحمت نہیں کی۔ البتہ وزیر اعظم کے قتل کی خبر پاتے ہی یہ اصحاب صلاح مشورے کے لیے جمع ہو گئے۔ مشتاق گورمانی کی گاڑی جلسہ گاہ میں اس وقت پہنچی جب نیم مردہ وزیراعظم کو جلسہ گاہ سے باہر لایا جا رہا تھا۔ وزیراعظم کی موت کی تصدیق ہوتے ہی گورمانی صاحب ان کے جسد خاکی کو اسپتال چھوڑ کر اپنے گھر چلے گئے اور اگلے روز کراچی میں تدفین تک منظرِ عام پر نہیں آئے۔

اس سازش کے ڈانڈوں پر غور و فکر کرنے والوں نے تین اہم کرداروں کی راولپنڈی سے بیک وقت دوری کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سیکرٹری دفاع سکندر مرزا کراچی میں ٹینس کھیل رہے تھے۔ فوج کے سربراہ ایوب خان لندن کے اسپتال میں تھے اور سیکرٹری خارجہ اکرام اللہ ایک خاص مشن پر ہالینڈ میں بیٹھے اگلے احکامات کے منتظر تھے۔

1951 کے وسطی مہینوں سے اخبارات مرکزی کابینہ میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کی خبریں شائع کر رہے تھے۔ وزیر خزانہ غلام محمد شدید فالج کے باعث اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ انھوں نے اپنے داماد حسین ملک کے ذریعے استعفیٰ دینے سے پہلے چند دن کی مہلت مانگی تھی۔ اکتوبر 1951 میں وہ راولپنڈی میں اپنے سمدھی ڈی ایم ملک کے گھر پنشن سے قبل رخصت کے دن گزار رہے تھے۔ لیاقت علی کے پولیٹکل سیکریٹری نواب صدیق علی خان کہتے ہیں کہ وہ خود غلام محمد کو کراچی چھاؤنی سٹیشن پر خیبر میل میں سوار کر کے آئے تھے۔

ملک غلام محمد اور جنرل ایوب خان

خواجہ ناظم الدین کے چھوٹے بھائی وزیر داخلہ شہاب الدین کو مصر میں سفیر بنائے جانے کا سرکاری اعلان کیا جا چکا تھا۔ وزیرِ امورِ کشمیر نواب مشتاق احمد گورمانی کو بھی علیحدہ کیا جا رہا تھا۔ غلام محمد، نواب مشتاق گورمانی اور خواجہ ناظم الدین اس روز راولپنڈی میں ہی موجود تھے۔ مگر سوائے نواب مشتاق گورمانی کے دوسروں نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس جلسہ میں شرکت نہیں کی۔

نواب زادہ لیاقت علی نے پنجاب کے گورنر عبدالرب نشتر کو وزارت خزانہ سونپنے کے علاوہ نائب وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا تھا۔ گورنر پنجاب کے لیے نواب اسماعیل کا انتخاب ہو چکا تھا۔ لیاقت علی کے قتل کے بعد نشتر اور نواب اسماعیل ہی ایسے کردار تھے جنھیں اقتدار کی بندر بانٹ سے الگ رکھا گیا۔

لیاقت علی خاں کو نواب مشتاق گورمانی کی گاڑی میں ہسپتال پہنچایا گیا۔ وزیر اعظم کے انتقال کے بعد مشتاق گورمانی خاموشی سے کراچی چلے گئے۔ غلام محمد اور خواجہ ناظم الدین نے ہسپتال پہنچنے کی زحمت بھی نہیں کی۔ وزیرِ اعظم کی نعش ہسپتال میں پڑی تھی اور کابینہ کے ارکان کرسیاں بانٹنے میں ا ±لجھے ہوئے تھے۔

غلام محمد، مشتاق گورمانی کی آشیرباد سے وزیر اعظم بننا چاہتا تھا لیکن خواجہ ناظم الدین خود اپنے لیے وزیر اعظم کے سوا کسی عہدے پر رضامند نہ ہوئے۔ چنانچہ چلنے پھرنے میں مفلوج اور بات چیت سے معذور ملک غلام محمد گورنر جنرل بن گیا۔ وزیر داخلہ خواجہ شہاب الدین مصر میں سفیر کی بجائے گورنر سرحد بن بیٹھا۔ کابینہ سے فارغ کیا جانے والا گورمانی وزیر برائے امور کشمیر سے وفاقی وزیر داخلہ بن گیا۔ چوہدری محمد علی سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر وزیر خزانہ بن گئے۔ آئی جی (پنجاب) قربان علی خاں، ایجنٹ ٹو دی گورنر جنرل، بلوچستان یعنی عملی طور پر گورنر بن گئے۔ میاں انور علی ڈی آئی جی پنجاب، آئی جی پنجاب بن گیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5