وادیِ عشق و من ۔ چراغ کے لے کہاں سامنے ہوا کے چلے


بام دنیا میں ایک مہمان خانہ مل گیا۔

استور اب میرا انتظار کر۔ فی الحال تو میں یہیں رکا جاتا ہوں۔

گھر سے استور جانے کے لیے نکلا تھا۔ جادو کے سے اثر والے نام کی جگہ، اس کی عجیب سی کشش تھی۔ وہاں جارہا ہوں، سب سے یہی کہا تھا، سب کو یہی بتایا تھا۔ اس لیے کہ باقاعدہ بتانا پڑ رہا تھا کہ جس جگہ میں جا رہا ہوں، وہ کون سی ہے اور کہاں ہے۔

لیکن جب دو چار ہاتھ لب بام رہ گیا تو میں یہیں رک گیا۔ آگے جانے کے لیے میرے قدم ہی نہیں اٹھے۔ میں نے پاؤں پسار لیے۔ اب میں کچھ دن یہیں ٹھہرو گا۔

لیکن پہلے اپنا جغرافیہ درست کر لینا چاہیے۔

یہ نام ایک دوسرے کے نعم البدل نہیں ہیں۔ چٹور کھنڈ، جو شاید پاکستان کی حدود میں اس سمت آخری قصبہ ہے، اس کے بعد اکا دکا گاؤں آتے ہیں اور پھر سرحد، جہاں فرشتوں کے پر جلتے ہیں۔ مجھے گنجا ہونے کا شوق نہیں ہے اور نہ میرے بازوؤں، شانوں پر پَر موجود ہیں، اس لیے میں نے اس طرف کا رُخ نہیں کیا۔

ناموں کی گڑبڑ راستے میں شروع ہوگئی تھی۔ گلگت سے آگے گاہکوچ تک سب نام واضح تھے۔ گاہکوچ اتنا بدل گیا ہے کہ میرے لیے اس کو پہچاننا بھی مشکل تھا کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں اب سے کئی دہائیاں پہلے آنے کا موقع ملا تھا۔

گاہکوچ کے دو حصّے ہیں ناں؟ گاہکوچ پائیں اور گاہکوچ بالا؟ میں نے پرانی یادوں کی گرد چھاڑی۔

وہ تو یہاں بہت سے گاؤں کے ہوتے ہیں، مگر آپ کو جانا کہاں ہے؟ جواب ملا۔

آپ کہاں جا رہے ہیں؟ وہاں کیا ہے؟ کئی بار بروگل کا نام لیا۔ پھر پہلے بورڈ کے بعد دور دور تک کوئی ایسے آثار نہ تھے، اس کے بعد ڈرائیور سے فون کروایا۔ میرا فون بھی بند ہوگیا تھا۔

ایک لمبے راستے کے اختتام پر ایک دروازے پر بورڈ لگا دیکھا اور ایک مانوس صورت جس کو تصویر میں دیکھا تھا۔ ہوٹل کی نہیں، ہوٹل والے کی۔ میں وہیں گاڑی سے اتر پڑا۔ روایتی مہمان داری کے انداز میں استقبال۔ مگر اصل حیرت تو احاطے کے اندر داخل ہونے کے بعد کی تھی۔

اب میں اس پتے پر اپنے آپ کو خط لکھ سکتا ہوں۔ ضلع غزر میں خاص تحصیل اشکومن، ڈاک خانہ چٹورکھنڈ میں بروگل نالے سے آگے رائل گیسٹ ہاؤس میں حال مقیم کو ملے۔

مطلب کچھ نہیں مگر خط لکھنے کے لیے پتہ مل گیا۔

اب میں اپنا خط وصول کرنے کے لیے موجود ہوں۔

پہلی نظر میں فیصلہ ہوگیا۔ اس کے بعد میں نے احتیاطاً نظر دوڑائی کہ باقی تفصیلات بھی ذہن میں سما جائیں۔

اچھا اس لیے زیادہ لگا کہ وہ دیکھنے میں ہوٹل معلوم نہیں ہوا۔ اس کی عمارت میں ہوٹلوں جیسی سجی سجائی، اپنی طرف بلاتی ہوئی اور آغوش پھیلاتی ہوئی مصنوعی دعوت نہیں تھی۔ عمارت اپنے آپ میں گم سم سی کھڑی تھی۔

ہری تھی من بھری تھی، مجھے جانے کہاں سے یاد آیا۔ نو لاکھ موتی جڑی تھی۔ راجہ جی کے باغ میں دو شالہ اوڑھے کھڑی تھی۔

یہ راجہ کا مکان تھا۔ خالی پڑا تھا، اس لیے یہاں سے سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ مجھے بتایا گیا اور احاطے کے اندر لایا گیا، پھر ایک چار دیواری میں دروازہ کھول کر داخل ہوئے تو باغ اور اس کے کونے میں کھڑی عمارت، پھولوں کے پودے اور ہوا میں سرسراتے ہوئے درختوں کی طرح اس چپ چاپ منظر کا حصہ۔ اپنے خاص وقت میں اور اس وقت کے سناٹے میں پتھرائی ہوئی، جیسے ہمیشہ سے اسی طرح رہی ہو، ہمیشے سے اسی لمحے کی منتظر۔

وہ لمحہ جو میری آمد کا لمحہ تھا۔

گھاس پر کرسیاں بچھی ہوئی تھیں اور پلنگ عین درختوں کے نیچے تھے۔ پیچھے کی طرف خیمے تھے کہ جو لوگ چاہیں ان میں قیام کرلیں۔ پلنگ سستانے اور ٹیک لگانے کی دعوت دے رہے تھے۔ ایک پلنگ کے ساتھ مصنوعی شیر بھی موجود تھا، اسی منظر کا حصہ، جس کے گلے میں پٹّا بندھا ہوا تھا اور شاید یہاں کی سجاوٹ کا کوئی حصہ تھا۔ درختوں میں چیری، خوبانی، سیب کی طرف توجہ دلائی گئی اور ایک کونے میں انگور کی بیل جس کے نیچے لکڑی کا بنچ پڑا ہوا تھا۔ گھاس کے دو متقابل گوشوں میں انار کے پھول اور گلاب کھلے ہوئے تھے۔ پتہ نہیں کون کون سی چڑیوں کی آوازیں مٹھاس گھول رہی تھیں۔

انگور کی بیل کے پاس والے پیڑ پر سے پھڑپھڑاہٹ ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ ایک ہدہد پَر پھیلا کر ایک درخت کی شاخ پربیٹھ گیا ہے۔

مجھے نشانی مل گئی۔ ہدہد کو دیکھ کر میں نے فیصلہ کرلیا۔

اس کے بعد اندر کے کمرے دکھائے گئے۔ چھ کمرے اور ایک طعام گاہ۔ لمبا چوڑا نہیں بلکہ آرام دہ اور cosyمعلوم ہورہا تھا۔

یہ کمرہ میرے لیے بہت بڑا ہے، جس کمرے میں میرا سامان رکھا گیا اس کو دیکھ کر میں نے کہا۔ بیچ میں جہازی ساز کا بستر رکھا ہوا تھا۔

یہاں تو دو گینڈے آسکتے ہیں ؛ میں نے کمرہ دکھانے والے سے کہا۔ پھر جب انھوں نے آہستہ سے کہا کہ یہاں گرم پانی آتا ہے اور کموڈ بھی ہے تو میں نے اپنے آپ کو نعرۂ مستانہ بلند کرنے سے روکا ورنہ ہالی لویاہ کی آواز سے میں چھت پر بیٹھے پرندے اُڑا سکتا تھا۔

زندگی کی ترجیحات اس کس قدر واضح ہوگئی ہیں۔ باقی ضروریات میں ساتھ لایا تھا، کتابیں، سادہ کاغذ، چھ سات قلم، روز کی دوائیں۔ اور ہاں موبائل ٹیلی فون، سب سے پہلے اسی سے چھٹکارا ملنا تھا۔ مگر اس رہائی کا احساس ذرا بعد میں ہوا۔

یہاں پھل کھانے کے لیے پوچھنا نہیں پڑتا، مجھے بتایا گیا۔ اس کے بعد سرخ سرخ چیریز کی ایک قاب میرے سامنے دھردی گئی۔ میرے ہاتھ اس کی طرف بار بار بڑھنے لگے۔

باقی پھل جولائی میں آئیں گے، سیب، ناشپاتی، چیری کی ایک اور قسم۔ مجھے اطلاع دی گئی کہ ابھی کچھ باقی ہے، میں ان پھلوں کے نام سُن کر حوصلہ قائم رکھوں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3