حکومت گرانا مقصد نہیں، غربت مٹانا سیاست ہے


گزشتہ روز ملک کی 11 اپوزیشن پارٹیوں نے ایک طویل کانفرنس کے بعد چند امور پر اتفاق کیا ہے جن میں سرفہرست سینیٹ چئیرمین کو ہٹا کر تحریک انصاف کی حکومت کو سیاسی لحاظ سے خفیف کرنا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے بعد پریس کانفرنس میں جو نکات سامنے رکھے گئے، ان میں بجٹ کو غریب دشمن تو قرار دیا گیا لیکن یہ بتانے کی زحمت نہیں کی گئی کہ ملک میں اس غربت کے اسباب کیا ہیں۔ اس طرح یہ اجلاس اور سیاسی لیڈروں کی باتیں ملک میں سیاسی تبدیلی کے لئے اپوزیشن کاایجنڈا تو قرار دی جا سکتی ہیں لیکن اجلاس کے شرکا، ملک کو درپیش مسائل کا ادراک کرنے اور انہیں حل کرنے کے لئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اسی لئے لوگوں کو اس سوال کا جواب نہیں مل سکا کہ آخر کس بنا پر عوام تحریک انصاف کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور ان سیاسی پارٹیوں کا ساتھ دیں جنہیں وہ پہلے بھی آزما چکے ہیں ۔

تحریک انصاف کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ معاشی انحطاط ہے۔ وہ ملکی معیشت کو درپیش چیلنجز کا حل تلاش کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ اسی لئے عمران خان اور ان کی ٹیم کے بارے میں عوام کی بدگمانی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اپوزیشن عمران خان کی مقبولیت اور عوام کے بیچ بڑھتی ہوئی اس خلیج کو وسیع کرنا چاہتی ہے تاکہ حکومت کوتبدیل کیا جا سکے۔ لیکن ملک کا ہر ذی شعور یہ سوچتا ہے کہ عمران خان کی ناکامی کو اپوزیشن کے اخلاص اور اہلیت و قابلیت کی دلیل کیسے مان لیا جائے۔ عمران خان کی حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ معیشت کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے بنیادی نوعیت کے اقدام کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ ان میں ملک میں اعتماد کا ماحول پیدا کرکے قومی پیداوار کے اشاریوں کو بہتر بنانا بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے برعکس تحریک انصاف کی حکومت نے ملک میں سیاسی ہیجان میں اضافہ کیا اور بے یقینی پیدا کی۔ اسی بے یقینی کی وجہ سے سرمایہ دار اور صنعتکار و تاجر تذبذب کا شکار ہیں ۔

عمران خان طویل سیاسی سفر کے بعد وزیر اعظم بننے کا خواب پورا کرنے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن اس مقصد کے لئے انہیں اپنے اصولوں پر مفاہمت کرتے ہوئے ایسے سیاسی عناصر کو ساتھ لے کر چلنا پڑا ہے جو ہمیشہ سے ملک میں ’اسٹیٹس کو ‘ قائم رکھنے کے حامی رہے ہیں اور ہر دور حکومت میں اپنے لئے جگہ بنانے کے لئے کسی بھی تبدیلی کا راستہ روکنے کا سبب بنتے رہے ہیں۔ عمران خان اقتدار حاصل کرنے کی عجلت میں کئے گئے ان فیصلوں کے مضمرات سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ وہ اپنی حکومت کی سب مشکلات اور ملک کو درپیش معاشی مسائل کی وجہ سابقہ حکمرانوں کو سمجھتے ہیں اور انہیں لٹیرا قرار دے کر اپنے لئے آسانی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم سابقہ حکمرانوں کو بدنام کرنے یا موردالزام ٹھہرا کر ملکی معیشت کو درپیش معاملات حل نہیں ہوسکتے۔

اس مشکل سے نمٹنے کے لئے عمران خان نے سابقہ دو ادوار میں لئے گئے غیر ملکی قرضوں کے احتساب کے لئے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن بنایا ہے اور ایک نئی قومی ترقیاتی کونسل بنا کر ملک و قوم کے مسائل حل کرنےکے لئے آرمی چیف کو اپنے ساتھ بٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن لیڈروں کے گرد گھیرا تنگ کرکے اور انہیں بدعنوانی کے الزام میں لوگوں کی نگاہوں سے گرا کر، وہ اپنے لئے سیاسی سہولت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ فوج کو اہم قومی فیصلوں میں باقاعدہ شراکت دے کر انہوں نے یہ یقین دہانی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے کہ فوج بدستور ان کی حکومت کی تائد کرتی رہے گی۔ عمران خان اس مقصد میں تو کسی حد تک کامیاب ہیں۔ مزید یقین دہانی کے لئے اس سال کے آخر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے عہدے کی مدت میں توسیع کرکے، یہ سمجھا جائے گا کہ ’استحکام ‘ حاصل کرلیا گیا ہے۔

 وزیر اعظم جس طرح معیشت کی بنیادی ضروریات کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں، اسی طرح وہ سول ملٹری تعلقات کے بارے میں بھی بعض خوش فہمیوں کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ اگر اس خوش فہمی کے اظہار کے لئے نومبر میں جنرل باجوہ کے عہدہ کے مدت میں توسیع کا فیصلہ کیا گیا تو عمران خان خود کو مکمل طور سے اسٹبلشمنٹ کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا اعلان کریں گے۔ کسی بھی سیاسی لیڈر کی طرف سے یہ اظہار عوام کے ایک بڑے طبقہ میں اس کے بارے میں بدگمانی پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ فوج کی پوزیشن اور سیاسی ’ پہنچ‘ میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان میں جمہوریت اس قدر پختہ بنیادوں پر استوار نہیں ہے کہ عوام جمہوری قیادت کی بے اختیاری پر واقعی پریشان ہوجائیں۔ ورنہ 2017 میں نواز شریف کی برطرفی اور مسلم لیگ (ن) کے لئے 2018 کے انتخابات کو مشکل بنانے کے اقدامات کے خلاف عوامی مزاحمت یا رد عمل سامنے آتا۔

اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کا سامنا کرنے اور قیام پاکستان سے اب تک بھارت جیسے دشمن کی وجہ سے اہل پاکستان فوج کو ملکی دفاع کے لئے اہم سمجھتے ہیں۔  پہلے قائد اعظم کے انتقال اور اس کے بعد، پھر 1971 میں سقوط ڈھاکہ کے بعد سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں کو وقفوں وقفوں سے حکومت کرنے کا موقع بھی ملتا رہا ہے۔ لیکن عوام نے اس عرصے میں فوجی آمریت کے طویل دورانیے بھی بھگتے ہیں۔ اس طرح عوام کو یہ بھی بخوبی اندازہ ہوگیا ہے کہ جس طرح سیاسی لیڈر، ان کے مسائل سمجھنے اور ان کے حل کا کوئی راستہ تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے، اسی طرح فوجی حکمرانوں کے ادوار میں بھی بظاہر سکون و استحکام پیدا ہونے کے باوجود ملک کی معیشت کو لاحق بیماریوں کا علاج نہیں ہوسکا۔ گویا حکمرانی میں فوج بھی سیاسی پارٹیوں سے بہتر ثابت نہیں ہوسکی۔

اسی طرح فوج کو بھی بار بار حکومت سنبھال کر یہ اندازہ ہوچکا ہے کہ براہ راست حکومت پر قبضہ سے اس کی شہرت اور عوام کی نگاہوں میں قدر و منزلت متاثر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب فوج بھی براہ راست ملک پر حکومت کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ براہ راست حکمرانی میں فوج کی عدم دلچسپی سے پیدا ہونے والے خلا میں البتہ سیاسی لیڈر عوام کے ساتھ اعتماد کا رشتہ استوار کرنے، مسائل کی نشاندہی کرنے اور انہیں حل کے لئے قومی کوششوں کا آغاز کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بلکہ اپنی اپنی باری پر سیاسی لیڈروں نے ایک دوسرے کے لئے مشکلات پیدا کرنے، مقدمے قائم کرنے اور بالواسطہ رابطے استوار کرکے جمہوریت کو بے توقیر کرنے کا ہر ہتھکنڈا اختیار کیا۔

 اس لئے عام رائے میں اگر فوج کی سیاست میں مداخلت کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے تو لوگ سیاست دانوں کی ناکامیوں کو بھی فراموش نہیں کرسکے ہیں۔ اسی لئے بعض ثقہ دانشور بھی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر فوج کی حکومت یا سیاست میں مداخلت غلط ہے تو سیاست دان ہمیشہ فوجی قیادت کے ذریعے ہی اقتدار تک پہنچنے کا راستہ کیوں کھوجتے ہیں۔

گزشتہ روز اپوزیشن کے اجلاس کے بعد یہ سوال زیادہ شدت سے سامنے آیا ہے۔ جس طرح عمران خان ملک کو درپیش معاشی مسائل کی ذمہ داری سابقہ حکومتوں پر ڈال کر خود بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں، بالکل اسی طرح اپوزیشن لیڈروں نے بھی بجٹ پر یک طرفہ تنقید کرتے ہوئے سارا ملبہ عمران خان اور تحریک انصاف کے سر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ یوں اس بداعتمادی اور بے یقینی میں اضافہ کیا ہے جو ملکی اقتصادی احیا کے لئے سب سے بڑے مسئلہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اپوزیشن کی حکمت عملی سیاسی اہداف تک محدود ہے۔ حالانکہ اسے معاشی مسائل حل کرنے کے لئے عوام اور حکومت کی رہنمائی کرنی چاہئے تھی۔

اس وقت ملک میں طاقت دو کرّوں میں تقسیم ہے۔ ایک کرہ طاقت کا اصل منبع و مرکز ہے جبکہ دوسرے کرّے میں ساری سیاسی پارٹیاں جمع ہوکر اپنی اپنی بولی بول رہی ہیں۔ یہ لڑائی جس قدر شدید اور سنگین ہوتی ہے، طاقت کے اصل مراکز کی قوت اور اثر و رسوخ میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے۔ یہی رویے اور سیاسی طاقت کی تقسیم کا اصول ملکی معاشی الجھن کا اصل سبب ہے۔ ملک کسی ایسے قائد یا صاحب بصیرت سے بدستور محروم ہے جو صورت حال کا ادراک کرکے قوم کی رہنمائی کرنے کا اہل ہو۔ ملک کی سیاسی پارٹیاں جب تک اپنے زیر تصرف حصے پر دسترس کے لئے آپس میں جھگڑتی رہیں گی، اس وقت تک ملک کے حالات میں کوئی قابل ذکر تبدیلی ممکن نہیں ہے۔

عمران خان نے ملک کی سیاسی خانہ جنگی میں شدت پیدا کی ہے اور مولانا فضل الرحمان اس ہیجان کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ اس کا اثر ملکی معیشت اور اداروں کے درمیان طاقت کے توازن پر مرتب ہورہا ہے۔ ملکی سیاست جب حکومت گرانے کی بجائے غربت دور کرنے اور مسائل کے بیل کو سینگوں سے پکڑنے کی ضرورت محسوس کرے گی، تب ہی حالات میں بہتری کی کوئی صورت دکھائی دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali