ایک چرواہے کی ڈائری


\"waqarگزرے وقتوں کے غبارِ راہ سے ایک تصویر کچھ یوں ابھرتی ہے کہ اس گاﺅں کے لوگ بھیڑ بکریوں کے بڑے بڑے ریوڑ پالتے تھے ۔ ہماری پرائمری تعلیم کا زمانہ تھا۔ تب یہاں بجلی نہیں آئی تھی ۔ بجلی تو خیر اب بھی نہیں آتی ، لیکن اس وقت یہ ہمارا موضوعِ سخن نہیں ۔ اس بارانی علاقے میں زندگی محدود تھی اور وسائل محدود تر۔ زراعت پیشہ لوگوں کے ذرائع آمدن کھیتی باڑی اور یہی ریوڑ جبکہ غیر زراعت پیشہ افراد کے لیے اپنے اپنے مخصوص ہنر ان کے دال دلیے کا ذریعہ تھے ۔ خود ہمارے گھرمیں بھی ایک بڑا ریوڑ تھا ، جسے چچا جان چرانے کے لیے صبح چراگاہ میں لے جاتے اور شام ڈھلے واپس آتے ۔ مغرب کے وقت گاﺅں میں گھر گھر تندوروں سے اٹھتے دھوئیں کی خوشبو اور مختلف سمتوں سے واپس آتے ریوڑوں کی گھنٹیوں کی مسحور کن آوازیں، پُر سکون دیہاتی زندگی کا وہ خوبصورت منظر تھا جو اب ناپید مگر ہماری لوح یادداشت پر ثبت ہے ۔

جب برادری میں کوئی غمی خوشی ہوتی اور بڑے مصروف ہو جاتے تو وہ دن ہم چچا زاد برادران کے لیے روزِ عید ہوتا کیونکہ ریوڑ چرانے کا بارِگراں ہمارے نازک کندھوں پر آ جاتا۔ ایک تو اسکول سے چھٹی ، اوپر سے سارا دن پکنک، سبحان تیری قدرت۔ ہم صبح دیسی گھی کے پراٹھوں کا ناشتہ کر کے روٹی ، اچار اور لسی پر مشتمل اپنا پر تکلف لنچ باندھتے ،اپنی اپنی ڈانگیں سنبھالتے اور باڑے سے ریوڑ کو نکال کر اسے ہانکتے خراماں خراماں جنگل کی طرف لانگ مارچ شروع کر دیتے ۔ دن بھر ریوڑ چراتے ، ہرے بھرے اشجار کی ٹہنیوں سے بندروں کی طرح لٹکتے ،بیریوں کے بیر کھاتے اور شام کو بوجھل دل سے واپسی کا قصد کرتے کیونکہ صبح سکول جانا ہوتا تھا ۔ یہاں پر یہ عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چرواہے کے متعلق دیہات میں عمومی تاثر یہ ہے کہ چونکہ اس کی زندگی کا غالب حصہ جنگلوں اور چراگاہوں کی نذر ہوتا ہے اور دنیا کی ہوا اسے کم ہی لگتی ہے ، لہذا یہ سادہ لوح اور بے وقوف ہوتا ہے مگر جانوروں کی نفسیات پر دسترس رکھتا ہے ۔اگر آپ ہمیں مکمل چرواہے کا درجہ نہیں دینا چاہتے تو پارٹ ٹائم یا نیم چرواہا ہی سمجھ لیں لیکن براہِ کرم اس ادنیٰ چرواہے کی اس تحقیق پر آنکھیں بند کر کے یقین فرما لیں کہ بھیڑ بکریوں میں کوئی شعور وعور نہیں ہوتا اور چرواہا انہیں جدھر ہانک دے ،یہ چل پڑتی ہیں ۔ وہ انہیں چراگاہ میں چھوڑ دے تو وہیں چرنے لگتی ہیں اور اگر چرواہا اپنی بے وقوفی یا بد نیتی کی بنا پر ریوڑ کو کسی کی قیمتی فصل میں چھوڑ دے تو وہ اسے آناً فاناًتباہ و برباد کر کے رکھ دیتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ ریوڑ کی اپنی کوئی سوچ نہےںہوتی اوراس کا ”ریموٹ کنٹرول“ چرواہے ےاآجڑی کے ہاتھ میں ہے ۔سب سے خطرناک بات ےہ ہے کہ اگر چرواہاان گھڑ ہے،ہماری طرح کا نےم چرواہا ہے ےا اپنی سوچ کی بجائے دوسروں کے تابع ہے تو پھراللہ ہی حافظ ہے ،فصلوں کابھی اور رےوڑ کا بھی۔

دوسری طرف ہمارے ریوڑ میں مسکین بھیڑ بکریوں کے علاوہ خطرناک بکرے بھی تھے ۔ بڑھے ہوئے پیٹوں والے خوش خوراک اور نوک دار سینگوں والے بڑے بڑے متکبر بکرے اور چھترے ۔ بظاہر یہ ریوڑ کا حصہ تھے مگر ان کا رہن سہن ، خوراک اور عادات و خصائل باقی ریوڑ سے یکسر مختلف تھے ۔ ریوڑ میں ان کی تعدا د آٹے میں نمک کے برابر تھی مگر بھیڑ بکریاں جتنی فرمانبردار تھیں ، بکرے اتنے ہی خود سر اور بد معاش ۔بھیڑ بکریوں کو چرتا دیکھ کر استحصالی بکروں کے پیٹ میں مروڑ اٹھتے تھے ۔جہاں یہ بیچاری کسی ہری جھاڑی یا گھاس پر لپکتیں ، بکرے انہیں ٹکریں مار مار کر بھگا دیتے اور ان کا حصہ بھی خود تناول کرنا شروع کردیتے ۔ خدا جانے ان کے پیٹ کتنے بڑے تھے جو بھرتے ہی نہیں تھے ، جبکہ باقی ریوڑ کو اکثر روکھی سوکھی گھاس پر گزارا کرنا پڑتا۔ عید قرباں پر شازو نازر ہی ان چھتروں کی قربانی دی جاتی ۔ اس مبارک موقع پر بھیڑ بکریوں ہی میں سے کسی کو اپنی خدمات پیش کرنا پڑتیں ۔ اسی طرح جب گھر میں کوئی ضرورت آ پڑتی تو انہیں مظلوموں میں سے دوچار دانے قصائی کو فروخت کر کے پوری کی جاتی ۔ غمی خوشی کی ہر دعوت میں بھی بھیڑ بکریاں اور بکروٹے ہی ذبح ہوتے مگر یہ چھترے صاف بچ نکلتے ۔

بکروں کی نفسیات اور رویوں کو سمجھنے کے لیے ایک اور تکلیف دہ منظر کا ذکر بھی ضروری ہے ۔ گرمیوں میں ریوڑ کے لیے کھلے میدانوں میں اوپن ایئر عارضی باڑے بنائے جاتے تھے ۔ بھیڑیے اکثر رات گئے شکار کے لیے ان باڑوں پر حملہ آور ہوتے ۔ آپ یقین فرمائیں کہ ان مواقع پر بھی کبھی کوئی بکرا کام نہیں آیا۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ان کے پاس بلٹ پروف کنٹینر یا گاڑیاں وغیرہ تھیں ،البتہ یہ چھترے خطرے کی بو سونگھتے ہی بھیڑ بکریوں کے پیچھے چھپ جاتے اور انہیں اپنے سینگوں اور طاقت کے زور پر دھکیل کر آگے کر دیتے ۔ بھیڑیا بجلی کی سی تیزی سے ان میں سے اپنے شکار کو چنتا اور اسے اٹھا کر بھاگ جاتا ۔ ہاں یاد آیا ، برسات کے دنوں میں کئی چرواہے رات کے وقت اپنے اپنے ریوڑ ہمارے ا سکول کے کمروں میں بندکر جاتے ۔ گویا یہ سرکاری اسکول ٹو ان ون تھا ، جہاں صبح کی شفٹ میں ہم علم کی دولت سے سرفراز ہوتے اور شام کو وہاں جانور آرام کرتے ۔ صبح اکثر یوں ہوتا کہ ہم اسکول پہنچتے تو ریوڑ استراحت کے بعد وہاں سے نکل رہا ہوتا۔سچی بات ہے کہ ہمارے ایسے نیم چرواہے کو یہ بات کبھی بھی بری نہیں لگی۔ ویسے بھی ہماری ہرحکومت کی صدق دل سے کوشش ہوتی ہے کہ سرکاری ا سکولوں سے بھیڑ بکریاں ہی نکلیں ۔

سال میں ایک دفعہ مالکان بھیڑ بکریوں کو بڑی بڑی قینچیوں سے مونڈ ڈالتے اور ان کے بالوں سے جولاہے ہمیں گرم چادریں اور کمبل بنا کر دیتے ۔بازار سے جوتے خریدنے کا رواج بھی کم ہی تھا ۔ جب کسی بھیڑ بکری یا گائے کو ذبح کیا جاتا تو گاﺅں کے موچی اس کی کھال سے جوتے بنا کر آجڑیوں اور مالکان کو دیتے ۔ بھیڑ بکریوں کو اس بات کی قطعاًپرواہ نہ تھی کہ ان کو ٹنڈ منڈ کر کے ان کے بالوں سے کمبل بنائے گئے ہیں یا ان کی کھال سے جوتے ۔ المختصر ! یہ نیم چرواہا اور نیم کالم نگار اپنی محدود فہم کی بنا پر یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ بھیڑ بکریاں ،بھیڑ بکریاں ہی ہوتی ہیں اور بکرے ،بکرے ….چاہے وہ قبل از مسیح کے ہوں یا اکیسویں صدی کے ۔ بس صاحبو! قبل اسکے کہ ہماری ڈائری کسی غلط سمت میں نکل کر سنسر کی زد میں آ جائے ہم اسے ڈاکٹر اعظم سمور کی اس نظم پر ختم کرتے ہیں ۔

تُوں سائیاں دی کُھرلی چُگ

یا تینوں لے جاون چور

تینوں کوہ کے بال ڈرائیے

یا قصائیاں ہتھ وکائیے

تیرے چَم تے طِلا کریئے

یا منجی دے اَٹھے بھرئیے

ایہہ جے تینوں کھڑک وی نئیں

چھُری تلے فیر پھڑک وی نئیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments