عارفہ شہزاد کی کتاب ’’عورت ہوں نا‘‘ کے بارے میں


\"ayub’’عورت ہوں نا‘‘ عارفہ شہزاد کی 103 نظموں پر مشتمل شعری مجموعہ ہے۔ جس کا ٹائٹل پڑھ کر مجھے ایک لمحے کو لگا کہ جیسے ’’نا‘‘ کا لفظ عورت کی مظلومیت کی طرف اشارہ ہے جو ہماری پڑھی لکھی سوسائٹی سے کم و بیش اب ختم ہو چکا ہے۔

کتاب کی پہلی نظم ’’کہانی سے پوچھو‘‘، دوسری نظم ’’عجیب سیڑھی‘‘ تھی، پھر ’’انہونی‘‘ اس کے بعد ’’ان بوجھی پہیلی‘‘ اور پھر ’’عورت ہوں نا‘‘۔ یہ پہلی پانچ نظمیں محبت کے احساس کی لمحہ بہ لمحہ، سطر بہ سطر، نظم بہ نظم تجسیم کرتے ہوئے ایک حیرت ناک اظہاریے کے در وا کرتی ہیں۔ میں نے ان نظموں کو اسی ترتیب سے تین چار بار پڑھا تو یہ بھی احساس ہوا کہ’’ عورت ہوں نا‘‘ کے ساتھ ’’نا‘‘ کا لفظ مجھے کھٹک رہا ہے۔ جب پہلی پانچ نظموں کو پھلانگ کر اگلی نظموں کے بطن میں اترنے کی کوشش کی تو انھوں نے میرے ذہن سے ’’نا‘‘ کا لفظ محو کر دیا۔

میرا خیال ہے کہ تخلیق و تحریر کی دنیا میں مرد و عورت کو gender میں تقسیم کرنے کا زمانہ ختم ہو گیا۔ افسانہ نگار ہوں یا شاعر ایک دوسرے کے مماثل ہوتے ہیں۔ یہ gender wender سے بالاتر ہوتے ہیں۔ ہر چند عام لوگ بھی انسانی جذبات و کیفیات کو ننگی حالت میں دیکھ سکتے ہیں لیکن تخلیق کار انھیں چھو کر، ان کی دبیز گہرائیوں میں دھڑکتی ہوئی معنویت کو لفظوں کے لباس سے آراستہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

پہلے یہ لباس مخمل کے اور ریشم کے ہوا کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ لباس see through  دوپٹوں کی طرح مہین ہو گئے۔ gender کا آئینہ توڑنے والی پہلی پہلی خواتین میں معروف ترین شاعرہ کشور ناہید، فہمیدہ ریاض اور بعد میں پروین شاکر اور عذرا عباس تھیں۔ 90 کی دہائی کے اوائل میں جب میں عبد اللہ حسین کی ناولٹ ’’نشیب‘‘ کر رہا تھا تو میرے پاس :’’فنون‘‘ میں تواتر سے چھپنے والی ایک شاعرہ یاسمین گل کی ’’اعتراف‘‘ کے نام سے شعری مجموعہ مجھ تک پہنچا۔ جس پر مجھے کچھ لکھنا تھا۔ اپنے اس تبصرے میں میں نے یہ بات بھی لکھی تھی کہ ’’جو عورت دو ڈھائی سو سال تک غزل کا موضوع بنی رہی وہ اب خود بول پڑی ہے۔ ‘‘

ایک لمحہ بچھڑ کر کہاں رہ گیا

جو ہوا چاہتا تھا، ہوا کیوں نہیں؟

وہ مکیں ہے اگر میرے اندر کہیں

میری دستک پہ پھر بولتا کیوں نہیں؟

رنگ تھی اور تھی دسترس رنگ پر

نقش جو بن رہا تھا بنا کیوں نہیں؟

یہ میری آنکھ میں اک شخص جو سویا ہوا ہے

اسے سونے دو، ساری رات کا جاگا ہوا ہے

یہ ریفرنس آج کی نشست میں عارفہ شہزاد کی کتاب سے توجہ ہٹانے کے لیے نہیں، اس لیے ہے کہ اس کتاب پر تانیثیت اور اس کی آزاد روی پر جو اتنی باتیں فیس بک پر لکھی اور پڑھی جا رہی ہیں ان میں زیریں سطح پر جو ایک تلذذ کی لہر کروٹیں لیتی محسوس ہوتی ہے وہ خواہ مخواہ کا ایک سسکار بھرا شور ہے، جس کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے کہ بیشتر خواتین جو کشور ناہید، فہمیدہ ریاض اور پروین شاکر سے آگے نہ بڑھ پائی تھیں اس ہجوم سے نکل کر عارفہ شہزاد نے ایک لمبی جست لگائی اور خود کو اُن سے الگ ایک اونچے مقام پر کھڑا کر لیا۔ اس لیے کہ عارفہ شہزاد کے ہاں جذبے کی شدت بہت ہے۔ پھر ان کے پاس بات کہنے کا یا نظم بنانے کا بے ریا ہنر ہے، وضع دار حوصلہ ہے اور مہذب بے باکی ہے۔ عارفہ شہزاد نے دوسروں کی سیلفیوں میں دکھائی دینے کی بجائے اس کتاب میں اپنی سیلفیاں بنا ڈالی ہیں۔

\"auratمحترم ڈاکٹر تبسم کاشمیری صاحب نے ان کی کتاب کے flap میں یہ جملہ لکھا ہے ’’شاعری وہ ہے جو ہمیں کسی نہ کسی سطح پر move کرے۔‘‘ لوگ  moveتو ہوئے مگر الیکٹرانک میڈیا کے اس آزاد ترین دور میں سوالیہ نشان سے مزین مجسمہ حیرت بن جانا چہ معنی دارد۔ مجھے تو یہ نظمیں پڑھ کر محسوس ہوا کہ یہ ایسی ان گنت عورتوں کے دلوں کی دھڑکنوں کا مجموعہ ہے جو ذاتی اور اجتماعی زندگی کے  taboosمیں جکڑی ہوئی ہیں جو اپنے دل کی بات خود سے بھی کرنے سے شرماتی ہیں۔

’’میں وہاں نہیں تھی‘‘، ’’رات چاہتی ہے کیا‘‘، “ٹیوب روز‘‘، ’’پریت کی راس‘‘، ’’اگر تم جانتے‘‘، ’’کس سینے میں دل رکھا ہے‘‘، ’’ وہ کیا مصلحت تھی‘‘، ’’برین سکین‘‘، ’’دھکیلو مجھے‘‘۔ یہ وہ نظمیں ہیں جن کو دل کی چابی سے نہ کھولیں اپنی دانش کی چابی سے کھولیں۔ پھر آپ کو male escort اور sexting  جیسی نظموں میں آپ کو اپنی ماڈرن سوسائٹی کے  key clubsکے منظر نامے دکھائی دیں گے۔

ہر نظم کا اپنا ایک علاقہ ہوتا ہے اور عارفہ شہزاد ہر نظم کو اس کے ہی علاقے میں پروان چڑھاتی ہیں۔ انھوں نے ہر نظم کے علاقے کی images اور لفظی مرکبات، content اور بات کہنے کے ہنر کو اس طرح گوندھا ہے کہ تخلیقی تجربے کا ایک انفرادی ذائقہ ذہن اور دل کو محسوس ہوتا ہے۔ کئی نظموں میں ڈرامائیت کے عناصر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ نظمیں ایسی ہیں کہ جن کی اختتامیہ سطروں میں چونکا دینے والی ڈرامائیت ملتی ہے جسے وہ نظم بنانے کے دوران سنبھال سنبھال کر رکھتی ہیں۔ ایسی نظموں میں لگتا ہے جیسے انھوں نے لفظوں کی شطرنج بچھا رکھی ہے، مصرعے رفتہ رفتہ چالیں چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور بعض نظموں میں تو جیسے پیادہ بادشاہ کو شہ دے کر پڑھنے والے کے دل میں سناٹا بھر دیتا ہے۔

عارفہ شہزاد ہجر جھیلنے کا فن جانتی ہے۔ ’’ابھی کب ہجر آیا ہے‘‘ میں انھوں نے تواتر سے پہلے مصرعوں کو وصل کی شالیں اوڑھائے رکھیں۔ مگر آخری سطر ’’مگر پھر بھی ہوا کیوں بین کرتی ہے‘‘ یک لخت سامنے آتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے اچانک انھوں نے اپنے اندر کے صحرا کا دروازہ کھول دیا ہو۔

’’ان دیکھی کائنات‘‘، لاسلکی شعاعیں‘‘، ’’ہے کہر آلود موسم‘‘، ’’چلو باتیں کریں‘‘، ’’رات کی کوکھ میں‘‘، ’’ یہ راہ داریاں‘‘، ’’جو تم چپ رہو‘‘، ’’سر راہ‘‘، ’’یاد کو کچھ یاد نہیں‘‘ ایسی نظمیں ہیں جو دو کرداروں کے ماضی اور حال کے درمیان کی نظمیں ہیں۔ یہ میں اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کہ اس کتاب کی نظموں کی ترتیب میں وقت گزرنے کا احساس باقاعدہ سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ نظموں کا لب و لہجہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا ہے۔ ایک اداسی اور بہت کچھ کھو دینے کی کیفیت میں ڈوبی ہوئی سنجیدگی میں لپٹی ہوئی یہ نظمیں دل و دماغ کے درمیان چغلی کھاتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ ’’دھکیلو مجھے‘‘ صحرا میں گردش کرتے ہوئے ایک بگولے جیسی نظم ہے۔ مگر اس سے پہلے کی نظم ’’تو پھر یوں ہوا کہ‘‘ پڑھنا ضروری ہے جس میں ایک مسافر اپنا سامان باندھتا ہے اور پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر نکل جاتا ہے اور اس سے بے خبر ہے کہ ایک نظم اس کے تعاقب میں آنکھوں سے بہتی ہوئی آئی لیکن خلا میں کہیں کھو گئی۔ یہ نظم میں نے کم و بیش آپ کوسنا دی ہے۔ اور اس کے تسلسل میں اب نظم آتی ہے ’’دھکیلو مجھے‘‘

دھکیلو مجھے سرد خانے میں

واپس دھکیلو

مری روح کیسی تپش سے پگھلنے لگی ہے

اسے تم ابھی

اس دہکتے ہوئے سرخ انگار سانچے سے باہر نکالو

اسے پھر

اُسی ٹوٹے برتن میں ڈالو۔۔۔جو میرا تو ہے نا

میں اس سرد خانے کے سب طاقچوں سے ہوں مانوس

دیواریں سبھی دیکھی بھالی ہیں میری

مجھے تم کسی سمت دیوار سے اب لگا دو

بجھا دو یہ انگارے جو میرے تلووں کے نیچے دھرے ہیں

جلے پاؤں کی ایک بلی کی مانند کب تک پھروں میں

دھواں اپنی آنکھوں میں کب تک بھروں میں

دھکیلو مجھے سرد خانے میں

یا پھر

کوئی برف کی سل دھرو جسم و جاں پر

اکھیڑو یہ بل کھاتی ساری رگیں

میرے اعصاب کی سب طنابیں ابھی کھینچ ڈالو

مجھے درد کے ایسے جھنجھٹ سے باہر نکالو

نہیں تو

مجھے اپنے لفظوں کے جنگل میں واپس بلا لو

بھٹکتی رہی ہوں

بھٹکتی پھروں گی

\"arfaجذبے کی شدت، تخیل اور کرافٹنگ کی بہترین مثالوں میں سے ایک مثال ہے عارفہ شہزاد کی یہ نظم۔ ان دونوں نظموں کے بیچ ایک کہانی چھپی ہے۔ مڑ کے دیکھے بغیر چلے جانے والے کو روکنے والے کی التجا بھی نہ روک سکے تو تنہا رہ جانے والے کو ایسی ہی صورت حال سے گزرنا پڑتا ہے جو اس نظم کی سطر سطر میں موجود ہے۔ ہوا جب صحرا کے کسی مقام پر گرم ہوتے ہوتے بے وزن ہوتی ہے تو اپنی ہی تپش سے بھڑک کر خود بخود اتنی شدت سے اوپر کو اٹھتی ہے کہ اٹھتے اٹھتے بگولا بن جاتی ہے۔ اور اپنے نا تمام وجود کی گردشوں میں ڈھل کر صحرا کو بھی اپنی ایڑیوں تلے روند ڈالتی ہے۔ میں نے اتنی شدت کم کم نظموں میں دیکھی ہے۔

نظم ’’دائرے‘‘ زندگی، محبت اور ہجر و وصال کے اتار چڑھاؤ کو معنویت دینے کی تگ و دو ہے۔ ایک دائرے میں دوسرا اور پھر تیسرا اور پھر دائرہ پر دائرہ۔ الجھتے ہوئے دائروں میں وقت کو قید کرنے کا ایک ایسا کھیل ہے گویا سانپ اور سیڑھی کا کھیل۔ مگر عارفہ شہزاد نے تو سیڑھی کو پاتال میں اترنے کے لیے استعمال کیا۔

’’ٹیوب روز‘‘، ’’captured‘‘، ’’برین سکین‘‘، ’’ان سومنیا‘‘، ’’مسمریزم‘‘ اس طرح کی نظموں میں ہجر و وصال سے ہٹ کر کچھ اور طرح کا منظر نامہ ہے۔ ایسی تقریباً ساری نظموں کا ڈکشن اور لفظیات بھی مختلف ہیں۔ ان نظموں میں عارفہ شہزاد کا سفر اندر سے باہر کی طرف ہے۔

اور آخر میں دو نظموں کا تذکرہ ضروری ہے اور وہ نظمیں ہیں ’’اذن گویائی‘‘ اور ’’وہ کیا مصلحت تھی‘‘۔ یہ دونوں نظمیں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ عورت ہونے کے ناطے عارفہ شہزاد کی نسوانیت اپنی جگہ لیکن اپنے اس شعری مجموعے میں ان کا ذہنی اور تخلیقی وجود عصری دانش سے مرصع ہو کر سامنے آیا ہے۔ میری خواہش ہے کہ مضمون کے اختتام پر یہ ناظمین میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا چلوں۔ پہلے پڑھئے نظم \”اِذن گویائی \”

ابھی اپنی مٹھی سے سورج نکالوں

ہوا میں اچھالوں

میں اک سیمگوں صبح

تیری ہتھیلی پہ دھردوں

یہ بکھری ہوئی ساری سمتیں سمیٹوں

ابھی انگلیوں پر

فلک کی طنابیں لپیٹوں

یہاں سے وہاں بھاگتے بادلوں کو

میں آنچل سے باندھوں

فضاؤں میں

روئی کے گالوں کی مانند

اُڑتی پھروں

تھام کر ہاتھ تیرا

میں خاموش دھرتی کو

بوندوں کو رم جھم سے

رَس سے بھرا ساز کر دوں

زمیں پر، درِآئینہ باز کر دوں

مجھے اِذن گویائی دے کر تو دیکھو

کہو! نظم کہہ دوں؟

اب دوسری نظم ملاحظہ کیجئے “وہ کیا مصلحت تھی” اس نظم کو پڑھنے کے بعد یقیناً آپ کو بھی میری طرح ان دونوں نظموں کے درمیان موضوعی سطح پر ایک جڑاؤ نظر آئے گا۔

وہ کیا مصلحت تھی؟

میں آغاز ہستی سے حوا کی صورت ہوں

آدم کی خواہش کا اک شاخسانہ !

زمیں کو بسانے کا بس اک بہانہ

میں روز ابد نیکیوں کا صلہ ہوں !

نہ جانے میں کیا ہوں

گلہ خالق کل سے کیسے کروں میں

اُسی کی رضا ہوں !

یہ ہے فخر آدم

کہ بس ابن آدم

امین خدا ہے، قرین خدا ہے

یہ ہستی مری

کیا فقط واسطہ ہے؟

یہ تسلیم ہے

میں صحفیوں میں تو

عابدہ، مومنہ، صالحہ کے لقب سے پکاری گئی تھی

مگر جب فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا تھا

تو حوا کہاں تھی؟

میں روحوں کے اقرار کے وقت جانے کہاں؟

کون سی صف میں تھی؟

یا نہیں تھی؟

اگر تھی، تو اقرار بھی تو کیا تھا !

عدم میں اگر روح خود مکتفی تھی

تو پھر خالق کُن فکاں کی وہ کیا مصلحت تھی

کہ میں دوسری تھی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments