جانور راج! کرپٹ انسانوں سے نجات کے بعد


اس پورے برس، جانوروں نے غلاموں کی طرح بیگار کاٹی۔ مگر وہ اپنے کام میں خوش تھے ؛ انہیں اپنی کاوشوں اور قربانیوں کا کوئی ملال نہ تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ یا تو ان کے بھلے کے لئے ہے یا ان کے بعد آنے والے ان ہی جیسوں کے لئے، نا کہ نکمے، اچکے، کرپٹ انسان نامی گروہ کے لئے۔

پوری بہار اور سارا موسم ِ گرما انہوں نے ہفتے میں ساٹھ گھنٹے کام کیا اور بھادوں کے مہینے میں نپولین نے اعلان کیا کہ اب اتواروں کو بھی سہ پہر میں کام ہوا کرے گا۔ یہ کام تھا تو مکمل طور پہ رضاکارانہ لیکن جو جانور اس میں سے غیر حاضر ہو گا اس کا راشن آدھا کر دیا جائے گا۔ اس کے باوجود کچھ کاموں کو نامکمل چھوڑنا ہی ضروری سمجھا گیا۔ کٹائی بھی پچھلے سال کی نسبت ہلکی رہی اور دو کھیت جن میں آتی گرمی میں شلجم بوئے جانے تھے، خالی چھوڑنے پڑے کیونکہ ان میں وقت سے ہل نہ پھرے تھے۔ یہ نظر ہی آرہا تھا کہ آنے والا موسم سرما کڑا ہو گا۔

پون چکی نے غیر متوقع مسئلے کھڑے کیے ۔ فارم پہ ایک جگہ زمین میں چونے کا پتھر پایا جاتا تھا اور ایک کوٹھڑی سے بہت سی ریت اور سیمنٹ مل گیا تھا یوں سارا تعمیراتی سامان موجود تھا۔ مگر جو مسئلہ جانوروں سے شروع میں حل نہ ہو سکا وہ پتھروں کو مناسب حجم میں توڑنا تھا۔ اس کے لئے ان کے پاس، فقط کسنی اور کدال ہی تھے مگر کوئی بھی جانور انہیں استعمال نہیں کر سکتا تھا کیونکہ کوئی بھی جانور پچھلی ٹانگوں پہ کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔ ہفتوں کی سعیٔ لاحاصل کے بعد کسی کو کششِ ثقل کو استعمال کرنے کا خیال سوجھا۔ بڑے بڑے پتھر، اتنے بڑے جو اسی شکل میں استعمال ہونے کے قابل نہیں تھے تمام کان کے فرش پہ بکھرے ہوئے تھے۔

جانوروں نے ان پتھروں کے گرد رسیاں باندھیں اور پھر تمام جانوروں، گایوں، گھوڑوں، بھیڑیوں نے رسی کو تھام لیا، یہاں تک کہ بعض مشکل مواقع پہ سور بھی ان کے ساتھ آن ملے۔ وہ ان پتھروں کو بیزار کن حد تک سست رفتار سے، کان کی ڈھلان سے چوٹی تک لے جاتے تھے۔ جہاں سے وہ کگر سے لڑھکا دیے جاتے تھے تاکہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔ ٹوٹنے کے بعد پتھروں کو ڈھونا نسبتاً آسان ہو جاتا تھا۔ گھوڑوں نے اسے چھکڑوں میں ڈھویا، بھیڑیں ایک ایک پتھر کو گھسیٹ کر لے جاتی تھیں۔ حتیٰ کہ میوریل اور بنجامن نے پرانی گدھا گاڑی میں خود کو جوتا اور اپنے حصے کا کام سر انجام دیا۔ موسمِ گرما کے آخر تک پتھروں کا خاصا ذخیرہ اکٹھا ہو گیا اور تب، سؤروں کی نگرانی میں تعمیر کاکام شروع ہوا۔

مگر یہ ایک سست رفتار اور تھکا دینے والا کام تھا۔ اکثر و بیشتر، ایک پورا روز ایک چٹان کو چوٹی تک لے جانے میں لد جاتا تھا اور کبھی جب اسے کگر سے لڑھکایا جاتا تو وہ ٹوٹتی ہی نہ۔ باکسر نہ ہوتا تو کچھ بھی ممکن نہ تھا، جس کی طاقت اکیلے ہی، دوسرے تمام جانوروں کی طاقت کے برابر تھی۔ جب کبھی چٹان، ڈھلان سے لڑھکنے لگتی اور تمام جانور خود کو ڈھلان پہ اس کے ساتھ گھسٹتا پا کر چلاتے تو یہ باکسر ہی ہوتا تھا جو کہ رسی پہ گرفت قائم رکھ کے چٹان کو گرنے سے روکتا تھا۔ ایسا کرتے ہوئے اس کی سانس تیز چلتی، اس کے کھرزمین میں پیوست ہوتے، اس کے پہلؤوں سے پسینہ ٹپکتا، وہ انچ انچ چوٹی کی طرف کھسکتا اور یہ دیکھ کے سب کی نظروں میں عقیدت ابھر آتی۔

کلوور اسے ٹوکا کرتی کہ خود زیادہ مت تھکاؤ، مگر باکسر اس کی کب سنتا تھا۔ اس کے دونوں نعرے، ’اب سے میں مزید محنت کروں گا‘ اور ’نپولین ہمیشہ درست کہتا ہے‘ اس کے لئے بہتیرے تھے۔ اس نے صبح بانگ دینے والے مرغے سے بات کر لی تھی کہ اسے معمول سے آدھا گھنٹا پہلے کی بجائے، پون گھنٹہ پہلے جگا دیا کرے۔ فرصت کے اوقات میں جو کہ اب شاذ ہی ملتے تھے وہ کان سے ٹوٹے ہوئے پتھر گھسیٹتا اور اکیلا ہی پون چکی کی جائے تعمیر پہ لے جاتا۔

پورا موسمِ گرما جانور سخت ترین مشقت کے باوجود نہ گھبرائے، کیونکہ دانہ، چارہ، جانی صاحب کے وقتوں سے اگر زیادہ نہ تھا تو کم بھی نہ تھا۔ صرف اپنے لئے خوراک حاصل کرنا اور پانچ فضول خرچ انسانوں کا بوجھ نہ اٹھانا ایک ایسا خوشگوار احساس تھا کہ اس کے مقابلے میں بہت سی ناکامیاں سہی جا سکتی تھیں اور کئی طرح سے، جانوروں کے کام کرنے کا طریقہ بہتر ہی تھا اور اس سے بہت سی مشقت بچ جاتی تھی۔ کچھ کام، جیسا کہ نلائی، انسان کی نسبت ایسی نفاست سے کیے جاتے کہ بس۔

اب جبکہ کوئی کچھ چراتا بھی نہیں تھا تو، چراگاہ اور کھیتوں کے درمیان باڑ بھی نہیں باندھنا پڑتی تھی جس سے، باڑوں اور بندوں کو ٹھیک ٹھاک رکھنے کی کھکھیڑ سے جان چھوٹ گئی تھی۔ مگر جوں جوں موسمِ گرما گزرتا گیا کئی چھوٹی چھوٹی کمیاں کھلنے لگیں۔ مٹی کے تیل، کیلوں، رسیوں، کتوں کے بسکٹوں اور گھوڑوں کی نعلوں کی ضرورت پڑی، جن میں سے کوئی بھی شے فارم پہ پیدا نہیں ہوتی تھی۔ بعد ازاں، بیج، کیمیائی کھاد، اور کئی اوزاروں کی ضرورت بھی اٹھی اور آخر میں پون چکی کے لئے مشینری۔ یہ سب کیسے حاصل کیا جائے گا؟ کوئی کچھ نہیں جانتا تھا۔

اس سیریز کے دیگر حصےجانور راج: پون چکی ناگزیر ہے!جانور راج: انسانوں سے تجارت کی شروعات

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).