اسمارٹ صحافت، من گھڑت خبریں اور ورکنگ جرنلسٹ کی مشکلات


ماضی قریب ہی کی بات ہے کہ میں اور میرے ہم پیشہ دوست یعنی صحافی جس محفل میں بھی جاتے لوگ ہم سے پوچھتے کیا یہ پی پی پی حکومت پانچ سال پورے کر پائے گئی؟ اسامہ بن لادن کیا واقعی مارا گیا ہے؟ میموگیٹ اسکینڈل کا کیا ہوگا؟ اس جسے کئی سوالات لوگ ہم سے کیا کرتے تھے۔ یہ تھا وہ دور جب اسمارٹ فون ابھی عام نہ ہوئے تھے فیس بک ٹوئٹر وغیرہ تو موجود تھا مگر اس کے استعمال کے لیے کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ لازمی شرط تھا۔ مطلب عوام کی ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا استعمال کرنے سے محروم تھی۔

2013۔14 کے بعد اسمارٹ فون عام ہوا پھر ہر خبر ہر منظر سب کی پہنچ میں یہ دور سوشل میڈیا کا دور کہلایا تو تیزی سے سوشل میڈیا کے ساتھ ہی صحافت کے پیمانے بھی تبدیل ہونے لگے اور اب یہ عالم ہے کہ لوگ ماضی کی طرح ہم سے خبریں پوچھتے نہیں بلکہ اب ہمیں خبریں بتاتے ہیں کہ عمران خان حکومت کا کیا ہوگا، منضور پشتین مہم کا آغاز اور انجام، پروسی ملک بھارت میں دوبارہ مودی حکومت آنے کے بعد پاک بھارت تعلقات وغیرہ وغیرہ۔

کیونکہ کثرت سے سوشل میڈیا استعمال کرنے والے اکثر افراد اپنے آپ کو رپوٹر اور تجزیہ کار سمجھنے لگے ہیں پھر ہر شخص نے اپنا یوٹیوب چینل بنا ڈالا۔ چینل بنانے والے کی ایک دو ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے کہ اچھے خاصے پیسے گھر بیٹھے مل جاتے ہیں۔ اس لیے اب عوام کو سننے سے زیادہ بتانے کی عادت پڑھ گئی ہے۔ یہ تو تھی سوشل میڈیا استعمال کرنے والے عام افراد کی بات ہو۔ اب ایک نظر صحافت کے بدلتے پیمانوں پر۔ جس دور میں وٹس ایپ نہیں تھا تو صحافی چاہیے پرنٹ میڈیا کا ہو یا الیکٹرانک اس کے لیے لازمی ہوتا تھا کہ وہ ہفتے میں دو تین بار اپنے سورس سے ملتا اور فون پر بھی مسلسل رابطے رہتے تاکہ اچھی، مختلف اور مستند خبر نکالی جاسکے۔

مگر اب تبدیل ہوتے حالات کے ساتھ دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ بیٹ رپورٹرز کا ایک گروپ ہوتا ہے جس میں اکثر خبریں بغیر سوچے سمجھے چینلز کی ضرورت کے پیش نظر خود سے ہی تشکیل کرکے گروپ میں شئیر کردی جاتی ہیں۔ پھر سب چینلز پر ایک جیسی بریکنگ اور ایک جسے ٹکر۔ اس تمام تر صورت حال میں اگر ایک اچھا رپوٹر معاملات کو بھانپ کر اپنی ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خبر نہ دے تو۔ بریکنگ نیوز کو مسنگ نیوز بناکر کر اس کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔

ایسی صورتحال میں زیادہ تر خبریں خواہشات پر مبنی معلوم ہوتیں ہیں۔ جس کے اثرات جانے بغیر صرف ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڈ میں نشر کردیا جاتاہے۔ اس تمام تر صورت حال میں سب سے زیادہ مشکلات ورکنگ جرنلسٹ کو درپیش ہیں کیونکہ ہر وقت بریکنگ نیوز کی جلد بازی میں خبر دیر سے دینے کا خوف اور نوکری ہاتھ سے جانے کی تلوار سر پر لٹکی رہتی ہیں۔ موجودہ میڈیا کے حالات نے کئی صحافیوں کو شوگر اور بلڈ پریشر کا مریض بنادیا ہے۔

آج کے دور کی اسمارٹ صحافت نے خبر دینے والوں کا کام آسان نہیں کیا بلکہ خبر بننے والوں کے لئے تو کہیں زیادہ آسانیاں پیدا کردی ہیں۔ چند سال پیچھے جائیں تو آج کے کچھ بڑے سیاستدان اور کچھ جماعتوں کے معروف ترجمان شام کے وقت اپنی ایک پریس ریلیز کی کاپیاں لے کر اخبارات کے دفاتر میں پہنچ جاتے تھے وہاں متعلقہ لوگوں کے ساتھ ملتے گپ شپ لگاتے اور جاتے ہوئے انہیں ایک پریس ریلیز تھما دیتے اس درخواست کے ساتھ کہ اسے اچھی جگہ سے دی جائے۔ ان تو صورتحال ہی بدل گئی ہے وہی سیاستدان جب بھی کوئی بیان ذہن میں آیا فون اٹھایا اور ایک ٹویٹ داغ دی۔ نہ کہیں جانے کی ضرورت نہ کسی سے درخواست کر کے کوئی احسان لینا۔

چند لائیں لکھ دیں اور پھر ٹی وی لگا کر بیٹھ گئے۔ اور اپنے بیان کی بریکنگ نیوز کے مزے لینا شروع کر دیے۔

تو یوں آج کی سمارٹ صحافت میں پریس ریلیز کی جگہ ٹویٹ نے لے لی۔ محکموں میں موجود پی آر اوز کا کام بھی اسمارٹ صحافت نے سمیٹ دیا۔ جن محکموں کے وزرا یا سربراہان موبائل لیٹریٹ ہیں وہاں تو پی آر او کو نوکری کے لالے پڑ گیے ہیں ہاں جن کے باسز ابھی بھی نوکیا 3310 کے دور میں رہ رہے ہیں انہیں کچھ کام ضرور کرنا پڑتا ہے لیکن اب وہ بھی اس کام کی لئے سوشل میڈیا کا سہارا ہی لیتے ہیں۔ اور یہ بھی یقین کرلیں کہ آج بھی نوکیا 3310 والے صاحبان موجود ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).