بابا بشیرا اور وزیراعظم عمران خان


چند دن پہلے لاہور کے ایک نواحی گاؤں میں ایک باریش آدمی سے ملاقات ہوئی۔ دوپہر کا قت تھا، درجہ حرارت پینتالیس ڈگری کو چھو رہا تھا۔ آسمان پر پرندے تک نظر نہیں آرہے تھے۔ ایسے میں  پسینے سے شرابور اور پرنم آنکھوں والا ایک بزرگ آدمی دکھائی دیا۔ جب یہ منظر دیکھا تو عجیب سی کیفیت ہوئی نہ رہا گیا اور اس بوڑھے آدمی سے ہاتھ ملایا جس کی عمر قریبا ستر سال کے لگ بھگ تھی۔

جب اُس بزرگ سے حال احوال پوچھا تو اس کا سیدھا ہی جواب تھا (کہ بیڑا غرق ہوگیا اے ایس حکومت دا) ۔ پھر پوچھا بابا جی کون ہیں آپ، کیوں پریشان ہے؟ اس بزرگ نے اپنا نام بشیر حسین بتایا اور گاؤں والے بابا بشیرا پکارتے ہیں۔ بشیر حسین کو جیسے بس تھوڑا پوچھنے کی دیر تھی اس کے اندر کا غبار باہر آنا شروع ہوگیا اور کہا کہ میں غریب آدمی ہوں بمشکل مہینے کا بارہ سے پندرہ ہزار کماتا ہوں سارا دن سائیکل پہ سبزی فروخت کرتا ہوں۔ اور گھر میں کمانے والا بھی اور کوئی نہیں۔

ابھی پوچھنے ہی والا تھا کہ پریشان کیوں ہیں کہ بشیر حسین نے خود ہی بتایا مجھے بیس ہزار بجلی کا بل بھیج دیا گیا ہے میرے گھر میں پنکھا اور دو انرجی سیور ہیں۔ میں یہ ناجائز بل ادا کروں یا جوان بیٹیوں کی شادی کا کچھ سوچوں، جیسے ہی اپنی بیٹیوں کا ذکر زبان پہ آیا آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوگئے۔ اس صورتحال میں کچھ دیر کے لیے مجھ پہ بھی سکتہ طاری ہوگیا۔ شاید میرا پاس نہ کوئی سوال بچا اور نہ ہی جواب! کچھ دیر بعد کہا کہ بابا جی دعا کریں، کہ ملک کے حالات ٹھیک ہوجائیں۔ بابا بشیر حسین نے جھٹ سے جواب دیا کہ میری دعا یہ ہے کہ اس ملک کے غریب ہی مرجائیں۔ تھوڑا دلاسا دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا بابا جی عمران خان بندہ ٹھیک ہے حالات بہتر کرلے گا۔

بشیر حسین عرف بابا بشیرا نے میری طرف تھوڑی نفرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ یہ جھوٹا ہے یہ لالچی ہے اس میں تکبر ہے یہ ضدی ہے یہ ظالم ہے یہ کم عقل ہے یہ نالائق ہے یہ خوشامد پسند کرتا ہے اور آخر میں یہ کہا کہ بدقسمتی سے اس کی ہمیشہ قسمت اچھی رہی۔ اس کے بعد بابا بشیرا کو مزید پوچھنے کی کوشش کی۔ لیکن نہ جانے کیا ہوا بشیر حسین نے کہا (پترا رب خیر کرے تیرے تے، میں چلیا آں ) اور بابا بشیرا اپنی سائیکل پہ بیٹھ کے چند لمحوں میں نظروں سے اوجھل ہوگیا۔

بشیر حسین کی ان سب باتوں کا جواب بھی چاہیے اور خود ایک ایک کرکے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی۔
اور سوچا کہ وزیر اعظم عمران خان جھوٹا کیوں؟

تو بہت سارے بیانات یاد آئے، منصب سنبھالنے کے بعد قوم سے کیا پہلا خطاب، کہا گیا کہ پروٹوکول نہیں لوں گا، وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات کم کروں گا، ایک کروڑ نوکریاں دوں گا، عمران خان صاحب کو یقین تھا کہ ایسا ممکن نہیں۔

بلیک میل نہیں ہونگا وغیرہ وغیرہ 2۔ لالچی کیسے؟ عمران خان صاحب نے اقتدار کی لالچ کی خاطر پنجاب کی حکومت بنائی، ماضی کے دشمنوں، قاتلوں، بھتہ خوروں، قبضہ گروپوں کو دوست بنایا۔

3۔ تکبر کیسے؟ ان کی ماضی کے ساتھی کرکٹر ز اور سیاسی دوست کہتے ہیں کہ وہ بڑے اکثر و بیشتر بہت مغرور بن جاتے ہے اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔

4۔ ضدی کیسے؟ عمران خان صاحب کی یہ ضد ہی ہے کہ انہوں نے عثمان بزدار صاحب کووزیراعلی ابھی تک رکھا ہے وہ وسیم اکرم ان کو دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ ان میں قدرتی طور پہ حکمرانی کرنے کی صلاحیت نہیں، حکومت کرنا کوئی کرکٹ کا ٹورنامنٹ تھوڑی ہے جو ہار گئے تو خیر۔آج عمران خان کی ضد اور انا کی وجہ سے پنجاب کا حال دیکھ لیں

5۔ ظالم کیسے؟ دن دہیاڑے سانحہ ساہیوال ہوا، لیکن انصاف نہ مل سکا۔ ماضی میں خان صاحب سانحہ ماڈل ٹاون پہ کہا کرتے تھے یہ ظالم حکمران لوگوں کو قتل کرواتے ہیں اور انصاف نہیں کرتے.

6۔ کم عقل کیسے؟ بابا بشیرا کی یہ بات بہت دل کو لگی کیونکہ اس سے بڑی کم عقلی کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ ایک ہی وقت میں اپوزیشن سے لڑائی بھی اور دوسری معشیت کی بقا کی جنگ بھی۔ دونوں کا ایک ساتھ شروع کرنا ہی ناکامی کا وجہ ہیں۔ ایسے میں نہ قیدیوں سے کچھ ملے گا اور نہ معشیت درست ہوگی۔

7۔ نالائق کیسے؟

عمران خان صاحب کی نالائقی کی انتہا ہے کہ ایک طرف آٹھ ہزار ارب روپیہ ٹیکس اکٹھا کرنے کا تقریباً ناممکن دعوی کرتے ہیں اور دوسری طرف ٹیکس دینے والوں کے سامنے اپنا اعتماد کھودیتے ہیں۔ کون سی اتنی قیامت آگئی ہے کہ ایک ہی وقت میں سارا نظام ٹھیک کرنا ہے یہ نالائقی نہیں تو کیا ہے کہ مریض جلدی ٹھیک کرنے کے چکر میں اوور ڈوز دے کے مار دینا۔ آخر پہلے بھی تو جیسا تیسا نظام چل ہی رہا تھا۔ محترم وزیراعظم صاحب نے کہا کہ میرا کوئی بھائی نہیں، فیملی نہیں کوئی لابنگ نہیں، یہ صرف عوام کے لیے کررہا ہوں۔ بالکل ٹھیک کہا تھا کیونکہ اس لیے ان کو غریبوں کے دکھ کا احساس نہیں، کیونکہ ان کے بچے باہر ہیں، وہ ویسے سونے کا چمچ لے کے پیدا ہوئے ہیں، بھائی ہے کوئی نہیں اور بہن کے پاس سونے کی سلائی مشین ہے! ان کو عام آدمی کا احساس کیسے ہوگا

عمران خان کی نالائقی کی وجہ سے ڈالر کی قیمت بڑھی اور قوم سینکڑوں ارب روپے کے قرض تلے دب گئی۔ پہلے اسد عمر اوور سمارٹ بنے اور تاخیر  سے آئی ایم ایف کی پاس گئے جس کی وجہ سے شرائط سخت ہو گئیں۔

گیس مہنگی، بجلی مہنگی، پیٹرول مہنگا، روزمرہ کے استعمال کی ہر چیز مہنگی، اگر بجلی اور پیٹرول پہ ٹیکس نہ لگایا جاتا تو یہ عوام گزارا لیتی۔ عوام کو ٹیکس کے بدلے حکومت دے گی کیا؟

ٹیکس یورپ کے حساب سے، سہولیات یوگنڈا اور عیاشیاں عربوں جیسی۔ یہ سب ایک ساتھ نہیں ہو سکتا۔ خدارا! عوام پہ رحم کھائیں اور اعتماد حاصل کریں۔ ایکسپورٹ بڑھائیں نہ کہ اس سے پہلے تم بھی قصہ پارینہ بن جاؤ۔

8۔ خوش قسمت کیسے؟

عوام کی بد قسمتی ہے کہ ایک کرکٹر وزیراعظم ہے اور وزیراعظم کی خوش قسمتی ہے کہ سیاستدانوں کی اپنی کرتوتوں کی وجہ سے ان کا برا وقت چل رہا ہے۔ آج آرمی چیف کو معیشت کی بحالی کے لئے کہنا پڑ رہا ہے۔

بد قسمتی سے لکھنا پڑھ رہا ہے کہ اس سے اچھا وقت تو نواز شریف کا دور تھا۔ اگر ایسے ہی چند مہینے گزرے تو یہ حکومت بس آج گئی یا کل گئی۔ گیم فنشڈ ہے بس! فیصلہ باجوہ صاحب کی ایکس ٹینشن کرے گی۔
جو ان کو حکومت دے بھی تو نہیں لینی چاہیے۔ کیونکہ جتنی عزت قدرت نے ان کو دی، کہیں وہ متاثر نہ ہوجائے۔ جس کا زرداری صاحب انتظار کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).