فضائی حدود بندش اور گنگا اغوا کی سازش


وہ ہائی جیکرز کون تھے اور اب کہا ں ہیں؟

اب بات ہو جائے ان ہا ئی جیکرز کی جن کا استقبال کرنے ذوالفقار علی بھٹو لاہور ایئر پورٹ چلے گئے ( جو تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے ) ہاشم قریشی اور اشرف قریشی آپس میں رشتے دار تھے، ہاشم قریشی نے 2012 ؁ء میں نئی دہلی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہو ئے کچھ انوکھی باتیں کیں جو اپنے اندر کئی سوالات رکھتی ہیں۔ ہاشم کی کہانی ہاشم کی زبانی ہی قارئین کے لیے پیش خدمت ہے اور ظاہر ہے اس کے انکشافات نامکمل نظر آرہے ہیں جو سمجھنے والے کو بتادیں گے کہ وہ کہہ کیا رہا ہے، ہاشم خود اعتراف کرتا ہے کہ ( این ڈی ٹی وی نے اس انٹر ویو میں بہت سی جگہوں پر یکم جنوری 1971 ؁ء کویکم جنوری 1969 ؁ء لکھا ہے جو تاریخی طور پر غلط ہے ) ( 2 ) ۔

بقول ہاشم قریشی بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف ) کے افسر سے سری نگر میں ایک حجام کی دکان پر ملا اور میں نے اس سے کہا، میں پاکستان جانا چاہتا ہوں، میں نے اس کو کچھ مطلو بہ معلومات بھی فراہم کر دیں ہاشم قریشی مزید کہتے ہیں کہ میں دراصل بی ایس ایف کو دھو کا دے رہا تھا۔ میں سیالکوٹ سیکٹر سے پاکستا ن میں داخل ہوا اور پاکستان میں مقبول بھٹ سے ملا مقبول بھٹ سے منسوب بات کرتے ہوئے موصوف فرماتے ہیں کہ کشمیر کی تحریک کو دنیا کے سامنے اجا گر کرنے کے لیے بھارت کا طیارہ ہائی جیک کرنا ضروری ہے اور مجھے چکلالہ میں ایک فوکر طیارے سے شنا سائی کرائی گئی۔ جہاز اغوا کرنے کی ٹریننگ کے بعد ہاشم لائن آف کنٹرول کراس کر گیا۔

ہاشم قریشی کہتے ہیں کہ میں بس میں سوار ہوا گیا، بس کو پولیس نے تلا شی کے لیے روکا، میں ایک پستول اور دستی بم کے ہمراہ پکڑا گیا پولیس والے مجھے بی ایس ایف والوں کے پاس لے گئے، جہاں میں نے بتا یا میرے علا وہ تین لوگ پاکستان سے ہوائی جہاز اغوا کرنے کی ٹریننگ لے کر آئے ہیں۔

بی ایس ایف کی طرف سے مجھے ایئر پورٹ پر نظر رکھے جانے کو کہا گیا۔ میں نے اخبار میں ایک ایسی پستول کا اشتہار دیکھا جو چوروں سے بچا ؤ کے لیے بنا ئی گئی تھی میں نے ایک آرڈر کی مزید میں نے ایک مصنو عی ہینڈ گر نیڈ بنایا اور اس کو اصل کا تا ثر دینے کے لیے مٹالک (دھاتی) رنگ میں رنگ دیا

ہاشم نے تیس جون کو اپنے اور اپنے کزن کے لیے سری نگر سے جموں کے لیے فوکر کے دو ٹکٹ بک کروائے۔

جیسے ہی جہاز نے پر واز کی میں نے جہاز کاک پٹ کا رخ کیا، میں نے پستول پائلٹ کی کنپٹی پر رکھ کر جہاز اغوا کرنے کا اعلان کیا اور میں نے پائلٹ کو جہاز پاکستان لے جانے کا حکم دیا، اس وقت عملے سمیت 34 افراد جہاز پر سوار تھے۔

دو پہر ایک بجے جہاز لاہور میں لینڈ کر گیا، جہاں ذوالفقار علی بھٹو بھی پہنچ گئے، پاکستانی اہلکاروں نے کہا مسافروں کو چھوڑ دو، میں نے کہا جب تک میں مقبول بٹ سے بات نہ کر لوں ایسا نہیں ہو سکتا، میری مقبول بٹ سے بات ہوئی۔ ہم رات ساڑھے 8 بجے تک ایئر پورٹ پر رہے، ہاشم قریشی نے مزید کہا کہ پھر لاہور پولیس کے ایک افسر آئے اور انھوں نے کہا کہ ڈرامہ بند کرو اور جہا ز کو آگ لگا ؤ، اس سے میڈیا کی زیادہ توجہ ملے گی۔ پھر بالا خر پاکستان آرمی کے ایک نامعلوم افسر کا حوالہ دیتے ہو ئے کہتے ہیں وہ ایندھن سے بھرا ایک کنستر لائے اور کہا مقبول بھٹ نے کہا ہے کہ جہاز کو آگ لگا دو، ہم نے جہاز کو آگ لگائی پر بعد میں معلوم ہوا کہ مقبول بٹ نے ایسا کرنے سے منع کیا تھا۔

پاکستان میں ہر جگہ ہما را استقبال ایک ہیرو کی طرح ہوا لیکن یہ بہت دیر پا نہیں رہا میں اپریل 1971 ؁ء میں پاکستان میں گرفتار کرلیا گیا اور میں 1980 ؁ء میں بری ہوا بری ہو نے کے بعد میں نے پاکستانی انٹیلی جنس کو کہا کہ میں کشمیر حریت پسندوں کا ایک گروپ منظم کر سکتا ہوں ہوجس کو آتشی اسلحہ چلانے کی ٹریننگ دی گئی ہو۔ ہم اس طرح دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کی فوجی مداخلت کے لیے راہ ہموار کر سکیں گے، یہ صاف تھا کہ وہ کشمیر میں ایک پر ا کسی واربھارت کے خلاف شروع کرنا چاہتے ہیں تاکہ بنا اس وعدے کے ہم آزاد ہوں۔

میں نے بالآخر پاکستان چھوڑ کر اگست 1986 میں ہالینڈ چلا گیا، جہاں سے میں 27 دسمبر 2000 ؁ء میں واپس آگیا۔ آج میں کشمیر کے مسئلے کو 20 سال کے لیے سرد خانے میں ڈالنے کی بات کرتا ہوں تاکہ پاکستان اور بھارت میں نفرت کو کم کیا جاسکے۔

ہاشم پہا ڑوں کی طرف ایک گھر میں رہتے ہیں جو نشاط کے علا قے میں واقع ہے گالف کھیلتے ہیں اور اپنے وقت کو یاد کرتے ہیں۔ ہاشم ہائی جیکر کو انڈین میڈ یا اب سابق ہائی جیکر کہہ کر مخا طب کرتا ہے اور ہاشم بھی بھارت کی کشمیر کو اپنے قبضے میں رکھنے کی پالیسی کو صحیح قرار دے رہا ہے اور ہاشم کا کہنا ہے کہ جمہوری طریقے سے بھارت نے کشمیر میں کام تو کیا ہے، پاکستان نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں کوئی تعمیری کام نہیں کیا۔ ( 3 )

یہ ترجمہ اس لیے پیش کیا گیا کہ قارئین اندازہ لگا لیں کہ ہاشم جو طیارہ ہا ئی جیک کا اصل ملز م ہے مقبوضہ کشمیر میں ایک آزاد خو شحال شہری کی زندگی گزار رہے اور آج بھی کشمیری نیشنل ازم کو استعمال کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو خراب کرنے کی کوشش کررہا ہے اور بھارت نے اس کو ایک کارڈ کے طور پر استعمال کیا، دوسری جانب بھارت نے اسی جھوٹے کیس میں مقبول بھٹ کو سزائے موت سنا ئی کیوں کہ وہ بھارت کی کٹھ پتلی نہیں بنا، کشمیر کو تحریک آزادی کو بھی بدنام کیا اور اسی جعلی اغوا ڈرامے کو مشرقی پاکستان اور پاکستان کے درمیان فضائی حدود کو بند کرنے کے لیے اس واقعہ کو استعمال کیا جس سے عالمی سطح پر ایک اور بدنامی ہما رے حصے میں آئی جس میں ہمارا اتنا قصور تھا کہ ہم کشمیر کی آزادی کی تحریک کی حمایت کرتے ہیں۔

(۱) https://en.wikipedia.org/wiki/List_of_hijackings_of_Indian_aeroplanes
(۲) https://www.ndtv.com/india-news/when-a-kashmiri-teen-hijacked-plane-with-a-toy-pistol-472534
(۳) (https://www.news18.com/news/india/pakistani-security-forces-no-better-than-british-colonialists-former-terrorist-hashim-qureshi-1124366.html)
https://www.ndtv.com/video/news/the-buck-stops-here/money-used-to-engage-separatists-so-what-ex-raw-chief-s-explosive-revelations-373752


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2