میرے پنجابی ہونے کی شناخت


صحافت میں ساری عمر صرف کرتے ہوئے ذاتی تجربات سے سیکھا یہی ہے کہ کسی موضوع پر لکھتے ہوئے اسے ایک ہی کالم میں سمیٹ دینا چاہیے۔ کئی اقساط تک پھیلے کالم مؤثر پیغام دینے میں ناکام رہتے ہیں۔ کالم ویسے بھی تحقیقی مضمون نہیں ہوتا۔ ہلکے پھلکے انداز میں کسی موضوع کو چھیڑتے ہوئے اس کے ذریعے محض ”ڈنگ ٹپایا“ جاتا ہے۔

ہفتے کی شب پاکستان اور افغانستان کے مابین ہوا کرکٹ مقابلہ دیکھا تو ٹویٹر پر چھائے ”پاکستان بمقابلہ نمک حرام“ والے ٹرینڈ کی وجہ سے افغانستان کے حوالے سے کچھ ذاتی تجربات پیر کی صبح چھپے کالم میں بیان کردیے۔ انہیں بیان کرنے کا مقصد نفرت کی آگ بھڑکانا ہرگز نہیں تھا۔ خواہش محض یہ تھی کہ ہفتے کے روز ہوئے واقعات کو ایک وسیع تناظر میں رکھ کر دیکھا جائے۔ ”افغان جہاد“ کے ایام سے 2011 ء تک پیشہ وارانہ فرائض کی وجہ سے افغانوں سے بہت واسطہ رہا۔

کئی بار اس ملک بھی گیاہوں اور ا یسے قصبات اور علاقوں میں قیام کا موقعہ بھی نصیب ہوا جہاں پاکستانی تو کیا افغان صحافی بھی جانے سے گریز کرتے ہیں۔ پاکستان ہی کے نہیں کسی غیر ملک کے شہروں میں جاؤں تو میری کوشش ہوتی ہے کہ وہاں کے حالات جاننے کے لئے روایتی ”ذرائع“ پر انحصار نہ کیا جائے۔ عام لوگوں سے گھل مل کر کئی ایسے پہلو نگاہ میں آتے ہیں جو نام نہاد ”ماہرین“ کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتے حالانکہ وہ ٹھوس حقائق کی نمائندگی کرتے ہیں۔

برطانیہ کا ایک معروف صحافی ہے۔ رابرٹ فسک۔ مشرقِ وسطیٰ کے حقائق کو حیران کن انداز میں سمجھتا ہے۔ اس نے ایک اصطلاح متعارف کروائی تھی ”منکی جرنلزم“۔ اس کے ذریعے اس نے سی این این جیسے اداروں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی کوتاہ بینی کو بے نقاب کیا جو کسی ملک میں خانہ جنگی یا اس پر مسلط ہوئی جنگ کو ”رپورٹ“ کرنے کے لئے وہاں جاتے ہیں تو فائیو سٹار ہوٹلوں میں مقیم ہوئے سٹنگرز کی مدد سے مقامی افراد یا ”ماہرین“ کی باتیں سن کر اپنی دانست میں کمال کر دیتے ہیں۔

ایسے صحافیوں کو اس نے بندروں کی طرح درختوں پر چڑھ کر زمینی حقائق سمجھنے کا عادی ٹھہرایا۔ میں ایسی ”صحافت“ سے ہر ممکن گریز کی کوشش کرتا ہوں۔ ایک امریکی صحافی بھی ہے۔ وہ فسک کی طرح بہت مشہور نہیں۔ جوڈتھ میٹلوف اس کا نام ہے۔ 2017 ء میں اس نے ایک کتاب لکھی۔ اس کا عنوان ہے ”The war is in the Mountains“۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد میں اس کا ترجمہ ”جنگ (صرف) پہاڑوں ہی میں ہوتی ہے“ کروں گا۔ اس خاتون نے لاطینی امریکہ، یورپ اور ایشیاء کے کئی ایسے ممالک میں کئی ماہ صرف کیے جہاں خانہ جنگی ہورہی ہے یا غیر ملکی قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد جاری ہے۔

لاطینی امریکہ میں اس نے ان پہاڑی علاقوں پر توجہ دی جو منشیات پیدا کرنے کے مراکز شمار ہوتے ہیں۔ امریکہ منشیات کی پیداوار کو بے تحاشا ڈالر خرچ کرنے کے باوجود ختم کرنے میں ناکام رہا۔ اس کی جانب سے مقامی حکومتوں کو فراہم کردہ جدید ترین اسلحہ اور آلاتِ جاسوسی بھی کسی کام نہ آئے۔ لاطینی امریکہ کے علاوہ وہ روس کے زیر نگین چیچنیا بھی گئی۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی کئی ماہ گزارے اور افغانستان کے دور دراز علاقوں کے کئی دورے کیے ۔ دور دراز پہاڑی علاقوں کے سفرکرنے کو وہ یہ حقیقت د ریافت کرنے کے بعد مجبور ہوئی کہ دنیا کی مجموعی آبادی کا صرف دس فی صد پہاڑوں میں رہتا ہے جبکہ پہاڑ ہماری زمین کے ایک چوتھائی حصے پر مشتمل ہیں۔

25 فی صد زمین پر بسنے والے محض دس فی صد افراد مگر اس وقت پوری دنیا میں جاری مسلسل جنگوں کی وجہ سے تباہ ہوئے 27 ممالک میں سے 23 ”پہاڑی ممالک“ میں رہتے ہیں۔ اسی باعث وہ یہ طے کرنے کو مجبور ہوئی کہ جنگیں ”صرف پہاڑوں“ ہی میں برپا ہوتی ہیں۔ اپنی جاں گسل تحقیق کی بدولت جوڈتھ میٹلوف نے البانیہ، افغانستان اور چیچنیا کے پہاڑوں میں بسے افراد کی اجتماعی نفسیات میں حیران کن حد تک ”یکساں“ رویوں اور سوچ کو بھی دریافت کیا۔

میری کوشش ہوگی کہ جب کبھی موقعہ ملے اس کی تحقیق کے طفیل نصیب ہوئی آگہی کے چند نکات آپ کو بیان کرسکوں۔ افغان نفسیات کو سمجھنا ہو تو پاکستانی ہوتے ہوئے ہمیں ”مردِ کوہستانی“ کی ترکیب کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ ”مردِ کوہستانی“ کی مخصوص نفسیات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اقبالؔ نے خوش حال خان خٹک کی شاعری کو گہری نگاہ سے دیکھا تھا۔ افغانوں کی اجتماعی نفسیات میں جھوٹی یا سچی بنیادوں پر پاکستان کے بارے میں برسوں سے کچھ شکوے شکایات موجود ہیں۔

2004 ء میں مجھے کابل میں افغان صحافیوں کے بیس سے زائد افراد پر مشتمل ایک گروپ سے گفتگو کا موقعہ ملا۔ ان کی اکثریت مجھے یہ بتانے کو بضد تھی کہ پاکستان نے ”افغان جنگ“ کی بدولت آئی امریکی امداد سے اپنی ٹی وی نشریات کو ”رنگین“ بنایا۔ میں ذاتی تجربے سے انہیں بتاتا رہا کہ 1975 ء سے پاکستان ٹیلی وژن کے لئے ڈرامے لکھنا شروع کیے تھے۔ ہمارا ٹی وی 1977 ء کے انتخابات سے قبل ذوالفقار علی بھٹو نے ”رنگین“ بنادیا تھا۔ میرے ذاتی تجربے پر مبنی حقیقت کا بیان بھی انہیں قائل نہ کرپایا۔ ہمارے ایٹمی پروگرام کے بارے میں بھی وہ ایسا ہی سوچتے پائے گئے۔

پیر کے روز چھپے کالم میں بیان کرچکا ہوں کہ 2004 ء ہی میں قندھار بھی گیا تھا۔ وہاں قیام کے دوران میں حامد کرزئی کے بھائی سے بھی ملا۔ جو ان دنوں اپنے گھر میں بادشاہوں کی طرح بیٹھا تمام دن مختلف افراد پر مشتمل وفود سے ملاقاتیں کرتے ہوئے ان کی ”مشکلات“ کا ازالہ کرنے کا دعوے دار تھا۔ میں اس کے ہاں گیا تو دروازے کے باہر ملاقاتیوں کی ایک لمبی قطار تھی۔ ہر شحض کو سکیورٹی چیک کے لئے لگائے واک تھرو دروازے سے گزرنا ضروری تھا۔

اس دروازے سے گزرنے کے باوجود بہت ہی بے ہودہ نوعیت کی جامہ تلاشی بھی ہو رہی تھی۔ لمبی قطار کو دیکھ کر میں کرزئی سے ملاقات کی خواہش کو بھولنے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا تو اس کا ایک محافظ میرے پاس آیا۔ شاید اسے میرے آنے کا بتایا گیا تھا وہ مگر میرا نام بھول گیا تھا۔ اس نے مجھے کہا ”تم پنجابی ہو“۔ میں نے ہاں میں جواب دیا تو وہ مجھے اپنے ہمراہ واک تھرودروازے سے گزارنے اور جامہ تلاشی کے بغیر گھر کے اندر لے گیا۔

وہاں ایک کمرے میں بٹھا کر انتظار کرنے کو کہا۔ میرے لئے وہ قہوہ اور پستہ وغیرہ لایا تو میں نے صحافیانہ تجسس سے استفسار کیا کہ اسے میرے ”پنجابی“ ہونے کا پتہ کیسے چلا۔ میرا چہرہ کئی افغانیوں جیسا ہے اور میں نے شلوار کُرتا بھی پہن رکھا ہے۔ میرا سوال سن کر اس نے طنزیہ قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا کہ ”تم پنجابی کاتون (کاٹن) کا شلوار کُرتا پہنتے ہو۔ وہ اکڑا ہوتا ہے“ مختصراً کہہ لیجیے کہ میرے کلف زدہ شلوار کُرتے نے اسے بطور ”پنجابی“ میری شناخت میں مدد دی۔ یاد رہے کہ کلف زدہ کپڑے اس کی نظر میں ”خوش حالی“ کی علامت تھے اور ایسی ”خوش حالی“ جنگ سے تباہ حال ماحول میں ناگوار محسوس ہوتی ہے۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).