باڈی شیمنگ ہم اپنا حق سمجھ کر کرتے ہیں


”ارے ناصر کو دیکھا کتنا موٹا ہے“
”نائلہ کی آنکھیں دیکھیں کتنی چھوٹی ہیں“

”روبینہ کو دیکھا کیسے چلتی ہے“
”یار تمہارے ہاتھ پاؤں تو ذرا تمہارے چہرے سے نہیں ملتے“
”زوہا کا رنگ تو بہت کالا ہے اس کے ماں باپ تو سفید ہیں یہ پتہ نہیں کس پہ گئی ہے“

یہ اور اس طرح کے کئی جملے ہماری روزمرہ کی بات چیت میں ایسے استعمال ہوتے ہیں جیسے روزمرہ کا کھانا پینا۔ کیا وجہ ہے کہ ہم دوسروں کو اپنے آپ سے کم تر سمجھنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ ہم یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ کسی کے جسمانی خدوخال یا کسی جسمانی عذر کی وجہ سے اس انسان کے ساتھ برتا جانے والا سلوک اس انسان کو کس قدر ذہنی اذیت دے سکتا ہے۔ فلاں تو بہت پتلا ہے۔ فلاں بہت موٹا ہے۔ فلاں کی ناک لمبی ہے۔ فلاں کا قد چھوٹا ہے۔ فلاں یہ فلاں وہ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ گورے ماں باپ کے بچوں پہ فرض ہو گیا ہے کہ وہ گورے ہی پیدا ہوں گے ۔ اگر ان کے رنگ میں مشابہت نہیں ہے تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں۔

میں سمجھتی ہوں یہ رویہ ہماری گھٹی میں اس لیے آتا ہے کہ ہم بچپن میں ہی اپنے ساتھ یا اپنے بڑوں کو اپنے ارد گرد کے لوگوں کے ساتھ ایسا کرتے دیکھتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ وہ بات لکھوں یا کروں جس کا براہ راست تجربہ میں نے خود پہ سہا ہو یا بالواسطہ یا بلا واسطہ ایسے تجربات کی چشم دید گواہ رہی ہوں۔ دور کیا جانا میں اپنے واقعات ہی بتاتی ہوں اور ان واقعات کے سہنے سے جو میری حالت رہی وہ تو چلو ایک طرف۔ لیکن بتا دینا شاید کسی کے سدھار کا سبب بن جائے۔

میرے ماموں کے ہاں شادی کے سات سال تک اولاد نہیں ہوئی۔ میں چھوٹی تھی تب جب ان کی شادی ہوئی۔ بچوں کو دلہن دیکھنے کا بہت شوق ہوتا ہے تو ایسے ہی ان کی دلہن مجھے بہت اچھی لگتی تھیں۔ وہ گاؤں چلے گئے تو ان کی شادی کے دو ڈھائی سال بعد میں ان کے پاس رہنے چلی گئی۔ شروع میں تو ممانی کا رویہ بہت اچھا رہا۔ پھر ان کے لہجے میں تلخی آتی گئی۔ وہ کوئی موقع نہ جانے دیتیں جس میں وہ مجھے ڈی گریڈ نہ کرتیں۔ ان کے پاس جانے سے پہلے تک مجھے علم نہ تھا کہ میرے پاؤں کی انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی چھوٹی ہے اور تھوڑا curve لیے ہوئے ہے۔ کوئی ہمسایہ آ جاتا یا ان کے رشتے دار۔ میرے پاؤں کی دو انگلیاں ڈسکس ہوتیں۔

سب کا کہنا یہ ہوتا کہ شکل کتنی پیاری اور معصوم ہے لیکن پاؤں کس پہ چلے گئے۔ ماں اور خالائیں بھی بڑی گوری ہیں لمبے لمبے ہاتھ پاؤں۔ یہ پتہ نہیں کس پہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں اپنے پاؤں چھپانے لگی۔ میں نے جب بھی کسی کو گھر آتے دیکھنا تو جوتوں میں پاؤں چھپانے شروع کر دینے۔ میں نے اوپن جوتے لینا چھوڑ دیے۔ اور ضد کر کے بند شوز لینا شروع کر دیے۔ امی نے سینڈل لینے تو میں نے پہننے سے انکار کر دینا۔ امی سے پوچھنے پہ پتہ چلا کہ میری دادی کے پاؤں میرے جیسے تھے۔ مگر ان پڑھ لوگوں کو جینز کے بارے میں سمجھانا بھینس کے آگے بین بجانے جیسا تھا۔ اور تب میرا ننھا ذہن جینز بارے کیا جانتا ہو گا۔

یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ شادی ہو گئی۔ شادی کے بعد ہاتھ پاؤں گدگدے ہونے کی وجہ یہ نکالی جاتی کہ بٹوں کی لڑکیوں کے ہاتھ پاؤں نازک نہیں ہوتے۔ حتی کہ میں نے یہ کہیں نہ دیکھا۔ لیکن چونکہ میرے ساتھ مسئلہ تھا تو میں خود میں ایک شرمندگی محسوس کرتی۔

شادی کے بعد ایک اور مسئلے کا سامنا کرنا پڑا۔ شادی کے بعد مجھے علم ہوا کہ میری ہائیٹ چھوٹی ہے۔ اس سے پہلے مجھے کبھی کسی نے یہ بات نہ کہی تھی۔ میرے حساب سے تو میں ٹھیک تھی۔ لیکن چونکہ اپنے سسرال میں میں لمبی نہ تھی تو اس پہ بھی مجھے کہا جاتا نوشی کی ہائیٹ چھوٹی ہے۔ پانچ فٹ ڈھائی تین انچ چھوٹے ہوتے ہوں گے مگر کسی کا دماغ کیسے اتنا چھوٹا سوچ سکتا ہے، یہ میری سمجھ سے تو باہر تھا۔ سب سے زیادہ تکلیف اس بات پہ ہوتی کہ نوشی تمہاری شکل تو بہت پیاری ہے لیکن بس پاؤں سے مار کھاتی ہو۔ تمہارا حال مور کی طرح ہے جیسے مور خوبصورت ہے لیکن وہ اپنے پاؤں دیکھ کے روتا ہے۔ تمہیں بھی تکلیف تو ہوتی ہو گی ناں۔ نوشی بے چاری سر کو ہاں میں ہلانے کے سوا کیا کرتی۔

ہر بچے کی پیدائش کے بعد باقاعدہ اس کے پاؤں چیک کیے جاتے کہ کہیں مجھ پہ تو نہیں گئے۔ ہر خوبصورت نقش سسرال پہ ہوتا اور بقول ان کے برا یا ناپسندیدہ مجھ پہ۔ تیسرے بچے کی مرتبہ خدشہ سچ ہوا اور اس کے پاؤں کی شیپ مجھ جیسی ہو گئی۔ افسوس کہ پڑھے لکھوں کے ساتھ بھی جینز کے بارے بات کرنا بھینس کے آگے بین بجانا ہی ٹھہرا۔

بات بس اتنی سی ہے کہ کوئی موٹا ہے یا پتلا، چھوٹا ہے یا لمبا خوبصورت ہے یا کم صورت ہے (بدصورت لکھنا میرے لیے ممکن نہیں کیونکہ میں کسی کو بدصورت نہیں سمجھ سکتی) ۔ غرض یہ کہ کسی کی کوئی بھی جسمانی کمی اس کی ذہنی سطح پہ اثر انداز نہیں ہوتی۔ کسی کے ساتھ بھی آپ کے تعلقات پہ اس لیے اثر نہیں پڑنا چاہیے کہ وہ کسی جسمانی عذر کا شکار ہے۔ کسی کی نظر کمزور ہے یا بولنے میں ہکلاہٹ کا شکار ہے ہمارے یہاں ان کے نام کی بجائے ان کو انا یا ہکلا کہہ کے بلایا جائے گا۔

کائنات میں موجود ہر جاندار خوبصورت ہے۔ انسان خوبصورت ہے۔ اسے شکل اور جسمانی ساخت کی بنا پہ برتنا چھوڑ دینا چاہیے۔ اپنے بچوں کی تربیت کریں ان کو سکھائیں کہ کوئی کالا گورا نہیں ہوتا۔ ہر انسان اپنی شخصیت کی خوبصورتی کی وجہ سے اہم ہے۔ جن سے اختلاف ہے ان سے خاموشی سے الگ ہو جائیے۔ جن سے محبت ہے ان کے قریب ہو جائیے۔ بچوں کو محبت کرنا سکھائیے۔ یقین کریں یہی چیز اگلی آنے والی نسل کو بہتر کرے گی اور یقینا ایسے ہی آنے والی نسلیں باشعور اور انسان دوست پیدا ہوں گی۔ معاشرے کو خراب بھی ہم جیسے لوگوں نے کیا ہے تو اس کے سدھار میں بھی ہمارا حصہ ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).