ایک پیج والی حکومت کے وزیر اعظم دراصل کیا کہہ رہے ہیں؟


وزیر اعظم عمران خان نے ہنگامہ خیز بجٹ اجلاس کے اختتام پر اپنی کامیابی کا پھریرا لہرانے کے لئے اپوزیشن کے لتے لئے۔ انہوں نے بجا طور سے جنرل قمر جاوید باجوہ کی وسیع الظرفی اور بلند نگاہی کی تعریف کی کہ انہوں نے مشکل وقت میں دفاعی بجٹ میں اضافے کا تقاضہ نہ کر کے ملک و قوم یعنی وزیر اعظم اور حکومت پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔

یہ شکریہ دفاعی بجٹ کے معاملہ پر تعاون سے کہیں زیادہ اس تائید و حمایت کے لئے واجب تھا جو جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں فوج نے موجودہ حکومت کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال کر فراہم کی ہے۔ یہ شکریہ عمران خان نے پوری دیانت داری کے ساتھ ادا کیا کیوں کہ وہ سپریم کورٹ کے مصدقہ ’صادق و امین ‘ ہیں اور کسی کا ’حق‘ رکھنے کے قائل نہیں ہیں۔ حق بہ حق دار رسید کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے بلاول بھٹو زرادری اور شہباز شریف کو ان کا ماضی یاد دلوانے میں کوئی کسر بھی اٹھا نہیں رکھی۔ بجا طور سے وزیر اعظم کا استفسار تھا کہ فوج کی نرسری میں پلے ہوئے مجھے کس منہ سے ’سلیکٹیڈ ‘ کہتے ہیں۔ بات تو ان کی درست تھی لیکن عمران خان چونکہ ہوش کی بجائے جوش سے بولنے کے قائل ہیں، اس لئے اپوزیشن لیڈروں کو نیچا دکھانے کے لئے کی گئی باتوں میں جنرل باجوہ کے لئے پیغام ہے۔

مسلم لیگ (ن) ہو یا پیپلز پارٹی، انہیں اس طعنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کی اٹھان فوجی جرنیلوں کی سرپرستی میں سیاسی سفر سے ہوئی تھی۔ ان دونوں پارٹیوں کے لیڈر وں نے اگر اس سرپرستی کا فائدہ اٹھا یا ہے تو اس کی بھاری قیمت بھی ادا کی ہے۔ اس وقت بھی دونوں پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت یا تو قید ہے یا گرفتار ہونے کا انتظار کر رہی ہے۔ درجنوں مقدمات قائم ہیں اور کئی درجن پائپ لائن میں ہیں۔ سیاست دانوں کے لئے فوج کی نرسری میں پلنے بڑھنے کا طعنہ اب پرانا ہو چکا ہے۔ پرانا تو یہ دعویٰ بھی ہو چکا کہ عسکری ادارے وسیع تر قومی مفاد میں سیاسی معاملات میں مدد و تعاون فراہم کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ بلکہ اگر کوئی جج اس حوالہ سے آئین و قانون کا حوالہ دیتے ہوئے حلف کی پاسداری کا تقاضہ کرنے کی کوشش کرے تو اسے حکومتی ریفرنس اور پروپیگنڈا کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس میں اس کی زندگی بھر کی کمائی ہوئی عزت خاک میں ملنے کا احتما ل ہوتا ہے۔

اس کے باوجود وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے جس انداز میں اپوزیشن کو للکارا اور بتایا کہ فوج کی سرپرستی میں سیاست سیکھنے والے انہیں کس منہ سے نامزد ہونے کا طعنہ دے سکتے ہیں، اس میں فوج کے لئے سوچنے کے کئی مقامات ہیں۔ یہ باتیں گو کہ ایک ایسے پسندیدہ وزیر اعظم نے کہی ہیں جس کی حکومت جنرل قمر جاوید باجوہ کے بقول ملکی معیشت کی بہتری کے لئے مشکل فیصلے کررہی ہے۔ اس لئے پوری قوم کو ان کی تائید کرنی چاہئے۔ جنرل صاحب نے دو روز پہلے ایک سیمینار میں کی گئی تقریر میں یہ بھی فرمایا تھا کہ ملک و قوم یا دوسرے لفظوں میں اس وقت نامزد شدہ حکومت کو موجودہ صورت حال کا سامنا ماضی میں معیشت کے بارے میں ’مشکل فیصلے‘ نہ کرنے کے نتیجے میں کرنا پڑ رہا ہے۔  پاک فوج کے مقدس تعاون سے معیشت اور سیاست کو درست کرتے ہوئے جو وزیر اعظم ماضی کی حکومتوں کے تباہ حال پاکستان کی تعمیر نو کرنا چاہتا ہے اور اسے مدینہ جیسی ریاست سے بدلنے کا عزم رکھتا ہے، اب اس نے اپوزیشن کو نیچا دکھانے کے لئے جو گفتگو کی، اس میں سیاست دانوں سے زیادہ عسکری قیادت کو آئینہ دکھایا گیا ہے۔

جنرل صاحب نوٹ کر لیں۔ عمران خان بھی دراصل اس کام کو برا سمجھتے ہیں اور اس کا طعنہ بھی دیتے ہیں جو آپ کے پیشرو کرتے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ بھی وہی ہتھکنڈے اختیار کریں گے جو جنرل ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک نے اختیار کئے تھے، تو آنے والے وقت میں کوئی ان پر بھی ویسے ہی انگلی اٹھائے گا جس طرح ایوب خان، ضیاالحق اور دیگر کی سیاسی کاریگری کا حوالہ دیتے ہوئے عمران خان نے اپوزیشن کا منہ بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ بات براہ راست آئین منسوخ کرنے یا معطل کرنے تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ جب فوج نے ملک میں براہ راست حکمرانی نہیں کی تو اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کوئی وزیراعظم قومی سلامتی کے لئے خطرہ نہ بن جائے۔ کسی کو ان حدود کو عبور کرنے کی اجازت نہ دی جائے جو قومی مفاد کے نام پر متعین کردی گئی ہیں اور جن کی حفاظت کی اضافی ذمہ داری فوجی اداروں نے اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھی ہے۔ حالانکہ قومی مفاد کا تعین کرنے اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری ملک کے آئین نے منتخب پارلیمنٹ کو عطا کی ہیں۔

یہ المناک کہانی ہے کہ اس ملک میں آئین اور اس کے تحت قائم ہونے والے ادارے جن میں پارلیمنٹ سر فہرست ہے، بے توقیر کئے گئے ہیں۔ کیوں کہ اگر پارلیمنٹ میں منتخب ہوکر آنے والے اراکین نے اپنے ذاتی مفاد کو قومی ضرورتوں اور خود کو ملنے والے ووٹوں کی حرمت پر مقدم رکھا ہے تو ریاست کے بعض دوسرے اداروں نے بھی ہر ممکن طریقے سے یہ بات یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ ایسے ’طالع آزماؤں‘ پر مشتمل اس نام نہاد منتخب پارلیمنٹ کو ایسا بااختیار نہ بننے دیا جائے کہ وہ ان امور کو بھی اپنا دائرہ کار سمجھنے لگیں جن کے بارے میں ان کی ’فہم‘ ناقص اور صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ مطالعہ پاکستان کے سلیبس میں ملک کے معماروں نے نسل در نسل یہ سبق ازبر کروادیا ہے کہ اس ملک کو ایک ہی طاقت بچا سکتی ہے اس لئے اس کے اختیار اور حق مداخلت پر انگلی اٹھانا ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

اسی کا نتیجہ ہے کہ جب کوئی جرنیل براہ راست قوم کو راہ راست پر گامزن کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا تو کوئی ’میمو گیٹ‘ یا کوئی ’ ڈان لیکس‘ منتخب حکومتوں کو ان کی اوقات میں رکھنے کے لئے ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ پھر نامزد کردہ منتخب رہنما خواہ کتنا ہی ٹاپیں، اٹھارویں ترمیم کی کیسی ہی دہائی دیں، ووٹ کو عزت دو کا کیسا ہی سہانا راگ الاپا جائے، پر کبھی صادق سنجرانی کی شکل میں اور کبھی مدینہ ریاست کے پیامبر کی صورت میں، قوم کی سلامتی کا فرشتہ رونما ہوتا ہے اور ’سب شانت ہے‘ کا بگل بجاتے ہوئے قومی مفاد کا راستہ ہموار کردیا جاتا ہے۔ قوم کی رہنمائی و رہبری کے اس عظیم کارنامہ کو چیلنج کرنے والا نہ سوشل میڈیا پر امان پا سکتا ہے اور نہ ہی قوم کا بیدار اور پر ہنگام الیکٹرانک میڈیا اور باخبر و باضمیر کالم نگار ایسے ملک دشمنوں کو معاف کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ یوں بھی میڈیا کی آزادی کے ڈھونگ میں قومی مفاد کو روندنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ جس طرح جرم چھپا نہیں رہ سکتا،اسی طرح خبر بھی اظہار کا کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کرلیتی ہے۔ پھر اس اظہار کو افواہوں اور الزامات کا نام دیا جاتا ہے اور قومی مفاد اور نظام کی حفاظت کے نام پر نفرت اور گروہ بندی کا ویسا ہی طوفان بپا ہوتا ہے جس کا مظاہرہ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی اور اپوزیشن لیڈروں کے علاوہ باتدبیر وزرا کے بیانات میں دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔ ایسے میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی اس دہائی کو کون سنے گا کہ ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لئے قومی اتحاد و اشتراک کی ضرورت ہے۔ جب تک اس اشتراک اور اتحاد پر ناقابل پہچان قومی مفاد سایہ فگن رہے گا، اس کی شکل پہچاننا اور خد و خال کا سراغ لگانا ممکن نہیں ہوسکتا۔

یہی وجہ ہے کہ سچ کی شکل کو جتنا بھی مسخ کردیا جائے، اس کی کوئی نہ کوئی کرن کسی نہ کسی طرح روشنی پھیلانے اور سبق سکھانے کا سبب بن ہی جاتی ہے۔ جیسا کہ گزشتہ روز وزیر اعظم کے اظہار تشکر والے خطاب میں نامزدگی کے حوالے سے بحث میں فوج کی نرسریوں کا ذکر آ نکلا۔ اب اس میں کسی کے لئے کوئی پیغام ہو یا نہ ہو البتہ جنرل باجوہ کے سمجھنے کے لئے یہ نکتہ ضرور موجود ہے کہ فوج جب بھی دفاع کی بجائے سیاست کرے گی، سرحدوں کی حفاظت کی بجائے معیشت تعمیر کرنے پر توجہ دے گی تو تاریخ ان کوششوں کو اپنے اوراق میں محفوظ کرلے گی۔ پھر کوئی عمران خان نامزد ہو کر انتخابی اعزاز کے ساتھ قوم سے خطاب کرے گا اور بتائے گا کہ جمہوریت کا شور مچانے والے دراصل عسکری طاقت کے پروردہ ہیں۔

آج یہ انگلی عمران خان نے گئے ہوئے جرنیلوں کے کارناموں کو غلط قرار دینے کے لئے اٹھائی ہے۔ آنے والے کل میں کوئی نیا لیڈر آج کی جانے والی سیاسی انجینئرنگ کی بات اتنی ہی بے باکی سے کرے گا اور کسی کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali