ہمارے شاہین طالب علموں کے پرلطف جوابات


انگریزی مضمون سے جان جاتی تھی۔ اللہ کی کرنی ایسی ہوئی کہ ایم اے انگلش ہو گیا اور یہی زبان پڑھانے بھی لگے۔ اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ کیسا پڑھاتے ہوں گے۔ جو چیز خود کو نہیں آتی وہ دوسروں کو خاک پڑھائیں گے۔

انٹرمیڈیٹ طلبا (بورڈ ) کے انگریزی پیپر مارک کر رہے ہیں۔ زبان و بیان کے ایسے شاہکار پرچے ہیں کہ دل گارڈن گارڈن ہو جاتا۔ تسلی ہو جاتی ہے کہ شاہین اساتذہ کے پڑھائے شاہین بچوں کے ہی پیپرز ہیں۔ اطمینان ہوتا ہے کہ جیسا پڑھایا ہے ویسا ہی پرفارم کر رہے ہیں۔

گرامر کا خیال نہیں رکھتے۔ (جسٹ لائک نیٹو سپیکرز) بس اپنے خیالات کا اظہار ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کرتے ہیں۔ ہمارا بھی یہی ماننا ہے کہ زبان کا بنیادی مقصد اپنی بات دوسروں تک پہنچانا ہے نا کہ مشکل الفاظ کو گرامر کی پیچیدہ ڈوری میں باندھنا۔ جب کوئی ہم سے گرامر کا کوئی مشکل اصول پوچھتا ہے تو ہم یہی کہہ کر کے اسے ٹرخا دیتے ہیں۔ طلبا کے نادر بیانات کا نمونہ ملاحظہ ہو۔ (ان کے خیالات کا اردو ترجمہ) ۔

سوال: مسٹر چپس اور کیتھرین پہلی بار کہاں ملے؟
جواب: مسٹر چپس اور کیتھرین پہلی بار عید کی نماز پڑھنے کے بعد ملے تھے۔ (ما شا اللہ کیا ایمان افروز جواب ہے۔ مارکس کاٹنے کو جی نہیں کرتا)

سوال: مسٹر چپس نے اپنی زندگی میں کون سے دو کام کبھی نہیں کیے تھے؟
جواب: مسٹر چپس نے زندگی بھر شادی نہیں کی تھی۔ اور دوسرا یہ کہ وہ کبھی اپنے بیٹے کو مووی دکھانے سینما نہیں لے گیا تھا۔ (اس کے پورے نمبر بنتے ہیں۔ اس جواب میں تخلیقی سوچ نقطہ عروج پہ ہے ) ۔

گڈ بائے مسٹر چپس کو اسی لیے شاید ہمارے دانشور و علما سلیبس سے نکال رہے کہ بچوں کے خیالات کو پر لگ جاتے ہیں۔ پھر وہ ہتھوں نکل جاتے۔

محاروں کے استعمال میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔ ایسے ایسے جملے لکھتے ہیں کہ ٹھنڈ پڑ جاتی۔ لفظی معنوں پہ یقین رکھتے ہیں۔ جیسے اردو میں بغلیں بجانا کا جملہ یوں بنا دیں۔ اصغر کی بغلوں میں بھڑوں نے جب ڈنگ مارا تو وہ اچھل اچھل کر بغلیں بجانے لگا تا کہ بھڑوں کا دم گھٹ جائے۔

اسی طرح ’ٹوتھ اینڈ نیل‘ کو ہونہار طلبا یوں استعمال کرتے ہیں۔
جبین کے ٹوتھ صاف ہیں اور نیلز پہ نیل پالش لگی ہے۔

To bury the hatchet
کلہاڑی دفن کرنے کا جملہ اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا۔
اسد نے کلہاڑی کو اپنے دادا کی قبر کے پاس ہی دفن کر دیا۔

Wolf in sheep ’s clothing
اس محاورے کو ایک طالب علم نے یوں استعمال کیا۔
جنگل میں ایک بھیڑیا تھا اور ایک بھیڑ۔ دونوں نے کپڑے نہیں پہنے تھے۔

ترجمہ کرنا ایک مشکل کام ہے۔ اردو سے انگریزی میں ترجمہ تو خیر اوکھا ہے ہی ہم انگریزی سے اردو ترجمہ کرتے بھی لفظوں میں الجھ سے جاتے ہیں۔

پڑھانے والے اساتذہ جب ہمارے ایسے افلاطون ہوں تو پھر سٹوڈنٹس لا محالہ ارسطو ہوں گے۔ فرسٹ ائیر کے بورڈ کے پرچے میں ایک طالب علم کا درج ذیل پیرا گراف کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔

“Twenty times in my life”, he said, “a doctor has told me to go home and be with my family as long as i could. Told me not to work. Not to do anything but live and enjoy the few days i had left with me. If the doctors had been right”, he said, winking at me, “I have cheated death many times! Now I’ve reached the years the Good Book allows to man in his lifetime upon this earth!

”زندگی میں جب بیس بجے کا ٹائم ہو تو ڈاکٹر نے مجھے کہا کہ گھر جاؤ اور اتنا لمبا خاندان بناؤ جتنا بنا سکتے ہو۔ مجھے کہا اور کوئی بھی کام نہ کرو۔ کچھ نہ کرو بس یہی انجوائے کرتے رہو۔

چند دن بائیں ہاتھ سے بھی کام کرو۔ ڈاکٹر دائیں طرف بیٹھا تھا پھر بھی آنکھ مچولی کرتے ہوئے کہا۔ میں مرتے دم تک چیٹنگ کرتا رہوں گا۔ میں اب گھر پہنچ گیا ہوں۔ اب میں اپنی زندگی میں زمین پر رہ کر ایک اچھی سی کتاب لکھنا چاہتا ہوں۔ جس کا نام ہو گا گڈ بک۔ ”

جیسے استاد ویسے شاگرد۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہم بھی تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ انگریزی لکھنا پڑھنا سمجھنا بولنا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اور ہمارے سٹوڈنٹس کی قابلیت آپ نے ابھی ملاحظہ فرمائی ہے۔
روح کو سکون ملتا ہے کہ ہم معاشرے کی بہت خدمت کر رہے ہیں۔

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 77 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti