سراب کا مستقبل – سگمنڈ فرائیڈ


تخلیق: سگمنڈ فرائیڈ
ترجمہ و تلخیص۔ خالد سہیل

تیسرا باب۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی معاشرے میں مذہبی نظریات کواتنی اہمیت کیوں حاصل ہے؟

ہم اپنی گفتگو کے دوران دیکھ چکے ہیں کہ ہر معاشرے میں تہذیبی اور قانونی پابندیوں کے خلاف لوگوں میں غصے، نفرت اور بغاوت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے فرض کرلیں کہ معاشرے سے پابندیاں اٹھا دی گئی ہیں اور ہر مرد کو کھلی اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ جس عورت سے چاہے مباشرت کرے اور جس رقیب کو چاہے قتل کرے اورہر شخص کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے کہ وہ جس شخص کی جو چیز پسند کرے، لے لے تو بظاہر تو یہ صورت حال بہت دلکش نظر آتی ہے لیکن ہر شخص کو ہر دوسرے شخص کی چیزیں بے دریغ حاصل کرنے کی اجازت ہو تو حقیقت میں سوائے ایک شخص کے باقی سب لوگ پریشان ہوں گے اور وہ ایک شخص ؛ایک ڈکٹیڑ، ایک ظالم اور ایک جابر انسان ہوگا۔ جس کی نہ تو کوئی عزت کرے گا اور نہ ہی معاشرے کو اس سے فائد ہ ہوگا۔

ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے مذہب نے ہمیں قانون دیا کہ :

”کسی انسان کو دوسرے انسان کو قتل کرنے کی اجازت نہیں۔ “ اس گفتگو سے یہ واضح ہے کہ اگر کوئی شخص تہذیب و ثقافت سے نجات حاصل کرنا چاہتاہے تو وہ کوئی دانشمندانہ انداز میں نہیں سوچتا۔ اگر تہذیب ختم ہو جائے گی تو ہم فطرت کے ساتھ حیوانی سطح پر زندگی گزاریں گے اور ایسی زندگی مسائل اور مصائب سے پر ہوگی۔ ایسی صورت میں اگرچہ ہماری خواہشات پر کوئی پابندی تو نہ ہوگی لیکن ہمیں اپنی خواہشات کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ فطرت ایک حوالے سے بڑی ظالم ہے اور انسانوں پر بڑے ظلم کرتی ہے۔ انسانی تہذیب کے ارتقا کا ایک مقصد فطرت کے مظالم سے بچنا ہی تو ہے۔ ہم جس قدر مہذب ہو رہے ہیں، اسی قدر ہم فطرت پر قابو پا رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم کبھی بھی پوری طرح فطرت پر قابو نہ پاسکیں گے۔

زلزلے، سیلاب، آندھیاں اور طوفان آتے رہیں گے اور انسانی جانوں کو ضائع کرتے رہیں گے۔ انسان بیماریوں کے زیر عتاب بھی آتے رہیں گے اور اگر ان سب سے بچ بھی گئے تو انہیں موت سے نبرد آزما ہونا پڑے گا جس کا نہ تو ہمیں کوئی علاج مل سکا ہے اور نہ ہی مل پائے گا۔ فطرت کے یہ طاقتور ہتھیار ہمیں بے بس محسوس کرواتے ہیں۔ اسی بے بسی سے نجات حاصل کرنے اور اپنے تئیں طاقتور محسوس کرنے کے لیے انسانوں نے تہذیب کو فروغ دیا ہے۔ جب انسانوں کا فطرت کے جبر سے مقابلہ ہوتاہے تو وہ اپنے مسائل اور تضادات کو ایک طرف رکھ کر فطرت کے خلاف متحد ہوجاتے ہیں کیونکہ انہیں زندگی عزیز ہے۔

جہاں انسان اجتماعی طور پر فطرت سے مقابلہ کرتے ہیں وہیں انسان اپنی انفرادی زندگی میں بھی فطرت سے نبرد آزما رہتے ہیں اور اسے قسمت (Fate) کا نام دیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ وہ انسان جو خارجی پابندیوں کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے اور ان کے خلاف غصے اور نفرت کے جذبات رکھتا ہے وہ قسمت کا کیسے مقابلہ کر تاہے۔ اس سلسلے میں بھی تہذیب انسان کی مدد کرتی ہے تاکہ وہ اپنے محدود وسائل سے ایسا ماحول اور طرز زندگی اختیار کرسکے جس سے فطرت اور قسمت اس پر کم از کم اثر انداز ہوں۔

اس عمل کی ابتدا بچپن سے ہوتی ہے۔ بچہ اپنے آپ کو بالکل بے بس اور مجبور محسوس کرتا ہے اور اپنے والدین سے خوف کھاتا ہے۔ لیکن وہ باپ جس سے وہ ڈرتا ہے وہ باپ اسے باقی دنیا کے مصائب اور مسائل سے بچاتا ہے اور نوجوانی تک پہنچتے پہنچتے انسان اپنے خوابوں میں فطرت اور دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے باپوں اور خداؤں کے ہیولے بناتاہے اور ان سے مدد مانگتا ہے تاکہ وہ اسے دشمنوں سے بچاتے رہیں۔

اس طرح خداؤں کا تصور انسانی زندگی میں کئی حوالوں سے اہم ہے۔
خدا انسان کو فطرت کے مظالم سے بچاتے ہیں، خدا انسان کو قسمت کے جبر سے محفوظ رکھتے ہیں اور خدا انسان کو ان قربانیوں کا انعام دیتے ہیں جو وہ تہذیب کے ارتقا کے سلسلے میں دیتا ہے۔

دلچسپی کی با ت یہ ہے کہ وہی خدا جنہوں نے فطرت کو جنم دیا ہے، وہ عام حالات میں فطرت کے قوانین میں دخل اندازی نہیں کرتے اور اگر مذہبی کتابوں میں دخل اندازی کا ذکر آتا بھی ہے تو ہم انہیں معجزے (Miracles) کہتے ہیں۔

انسانی ارتقاء کے سفر میں انسان اپنی فطرت کی تکمیل کرنا چاہتاہے اور جسم کی ضروریات سے زیادہ اپنے ذہن اور شخصیت کی تسکین اور نشوونما چاہتاہے۔ آہستہ آہستہ انسان ایسی خصوصیات کا حامل بن جاتاہے کہ جو اسے زندگی اور موت کے مسائل سے نبرد آزما ہونے میں مدد دیتی ہیں۔ اسے احساس ہوتاہے کہ انسانی زندگی کی طرح کائنات میں جمادات اور نبادات کی زندگیاں قوانینِ فطرت کے تابع ہیں اور جب قوانین شکنی ہوتی ہے۔ چاہے وہ حیوانوں سے ہو یا انسانوں سے تو ان کے نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ انسانوں نے یہ باور کرلیا کہ اگر انسانی نتائج مرتب ہونے سے پہلے مرجائیں تو وہ اعمال ان کی حیات بعدالموت کو متاثر کرتے ہیں۔ اگر انسان دوسرے انسانوں پر ظلم کرتے ہیں تو انہیں ان کی سزا مرنے کے بعد ملتی ہے۔

انسانوں نے ایسے مذہبی نظریات وضع کیے جس کے تحت انسانی زندگی کا ایک مقصد قرار پا یا اور انہیں بتایا گیا کہ روزِ محشر تمام نیکیوں کا انعام اور سب بدیوں کی سزا ملے گی کیونکہ یہی انصاف کاتقاضا ہے۔ اس طرح سب ظالموں کو سزا ملے گی اور سب مظلوم اپنی دنیاوی زندگی کی تکالیف کا اجر اخروی زندگی میں پائیں گے۔ انسانوں نے نیکی بدی کے اس حساب کے لیے آسمانی اور روحانی طاقتوں کو تخلیق کیا جن کا کام دنیا میں عدل و انصاف قائم کرنا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ تما م روحانی اور آسمانی طاقتیں ایک طاقت میں جمع ہوگئیں، جسے ہم نے خد ا کا نام دے دیا۔ اس طرح انسان اور خدا کے رشتے میں بچے اور باپ کے رشتے کی قربت اور گہرائی پیدا ہوگئی اور خدا کے ماننے والے انسانوں نے خدا کے ساتھ ایک خاص رشتہ قائم کرلیا اور اپنے آپ کو اس کے چہیتے لوگوں (Chosen People) میں شامل کرلیا۔

میں نے جن مذہبی تصورات کا اختصار سے ذکر کیا ہے۔ ان کے ارتقا ء میں کئی قوموں اور کئی تہذیبوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ میں نے یہاں صرف عیسائی نظریات کی طرف اشارہ کیاہے۔

عیسائی معاشروں میں مذہبی نظریات کو بہت اہم اور مقدس سمجھا جاتا ہے۔ لوگ ان کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ ہمارے لیے سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ان نظریات کی نفسیاتی اہمیت کیا ہے اور انسانوں کے لیے یہ نظریات اتنے مقدس کیوں کر بن گئے ہیں۔
۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail