کاسا بلانکا کی چند ساعتیں


طنجہ میں ہونے والا عرب ممالک کے نمائندوں کا اجتماع ختم ہوا تو ہم کاران میں سے کچھ واپس اپنے اپنے ٹھکانوں کی جانب لوٹ گئے تو کچھ نے ایک دو روز مراکش کو کھنگالنے کی ٹھانی۔ اس خادم کی اس اجتماع میں بطور قائم مقام سربراہ شرکت کا فیصلہ ذرا دیر سے ہوا تھا سو جاتے وقت تو کسی طرح بر وقت ٹکٹ کا انتظام ہوگیا تھا لیکن واپسی پر دو روز اضافی رکنا پڑا۔ پرواز سنیچر کی شام کو کاسا بلانکا سے بیروت آنی تھی سو سوچا کہ جا کر جبل الطارق کا قریب سے مشاہدہ کیا جائے۔

ایک نیک دل ٹیکسی والے سے کہا تو اس نے بتایا کہ قریب ترین کھاڑی اگرچہ پندرہ منٹ کے فاصلے پر ہے لیکن وہ وہیں سے آرہا ہے اور دھند کے سبب کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ سو ارادہ بدل دیا۔ اس علاقے کے سیاسی جغرافیہ پر صدیوں کی ملک گیری کی تاریخ نے عجب لکیریں کھینچی ہیں۔ اب یہی دیکھ لیجیے کہ جغرافیائی طور پر تو جبل الطارق یا یورپی لہجے میں جبرالٹر۔ ہائے کیسی کیسی تاریخی حماقتیں اس نام کے ساتھ ذہن میں آ گئیں۔ ہسپانیہ کے ساتھ سرحد لگتی ہے مگر ہے برطانوی مقبوضہ۔ دوسری جانب جبل الطارق کے بالمقابل مراکش کی شمالی نوک پر دو چھوٹے چھوٹے قطعہ ہائے زمیں، سیوطہ اور میلیلا، ہسپانوی تسلط میں ہیں۔

اگرچہ اس خادم کا اپنے نیلے پاسپورٹ کے سبب ان علاقوں میں جانے کا امکان تھا مگر بتایا گیا کہ اگر کڑے پہرے والے علاقے میں قدرے ذلیل ہو کر جانے کا اتنا ہی شوق ہے تو اپنے آبائی شہر کوئٹہ کی چلتن مارکیٹ کا ہی چکر لگا لو۔ سو فیصلہ کیا کہ ایک آخری ٹھیکی مدینہ اور قصبہ ہی پر لگائی جائے۔ سو ساحل پر دھوپ سہتے اس جانب کا قصد کیا۔ پہنچا تو پتا چلا کہ وقفہ پرائے نماز جمعہ کے سبب عجائب گھر بند ہے۔ اس کے کھلنے کا انتظار کرتا تو دارالبیضاء یعنی کاسا بلانکا کی ریل چھوٹ جاتی۔

سو کوچہ یار سے بے نیلِ مرام واپس قیام گاہ لوٹ آیا۔ کچھ دیر البتہ عجائب گھر کے برابر واقع تحائف کی دکان میں گزارا۔ وہاں دیکھا کہ مقامی طرز کا ایک لمبا زنانہ چوغہ بِک رہا ہے جس کا کپڑا ہماری سندھی اجرک کا ہے۔ دکان دار خاتون سے پوچھا تو وہ بس یہی بتا سکیں کہ کپڑا کہیں سے درآمد شدہ ہے البتہ چوغہ طنجہ میں ہی سلا ہے۔ انہیں سندھ اور اجرک کے بارے میں بتایا تو بہت خوش ہوئیں۔

طنجہ، رباط، مراکش [جی ہاں ملک کا سرکاری عربی نام ”مغرب“ اور انگریزی میں مراکو ہے اور مراکش ایک شہر کا نام ہے ]، قنیطرہ اور دارالبیضاء کے درمیان دوقسم کی برقی ریل گاڑیاں چلتی ہیں۔ ایک نسبتا پرانی طرز کی جو جگہ جگہ مسافروں کو چڑھاتے اتارتے طنجہ سے دارالبیضاء ساڑھے چار گھنٹے میں پہنچتی ہے۔ دوسری جدید ترین تیز رفتار ”بلٹ ٹرین“ ہے جس کا نام ”بُرّاق“ ہے۔ ہوائی جہاز جیسی نشستوں سے مزیّن ہے اور دو چار جگہوں پر مختصر وقفوں کے لیے رُک کر سوا دو گھنٹوں میں منزل مقصود تک پہنچاتی ہے۔ اس خادم کو مدّت سے ”لائٹ آف سپیڈ“ کی طرز کے تجربے کا اشتیاق تھا سو اپنے منتہا کی جانب برّاق پر روانہ ہوا۔ ریلوے سٹیشن کسی جدید ہوائی اڈے جیسا آراستہ پیراستہ تھا اور خود کار مشین یا کاونٹر سے ٹکٹ لینے کی سہولت موجود تھی۔

گاڑی عین اپنے مقررہ وقت پر روانہ ہوئی۔ راستے میں قنیطرہ نام کا جنکشن آیا جہاں سے مراکش کے لیے گاڑی بدلنے کا کانٹا ہے۔ بچپن میں دیکھے گئے سمہ سٹہ، خانیوال اور ملتان جیسے جنکشنوں کے برعکس، یہ مقام بالکل ویران تھے۔ نہ ”چائے گرم“ کی آوازیں، نہ مسجد کے چندے کی لاوڈ سپیکر پر اپیلیں، نہ حافظ کا ملتانی سوہن حلوہ، نہ دھکم پیل۔ گاڑی کے ڈبے آپس میں منسلک تھے اور بیچ کا ایک ڈبہ جدید سنیک بار کی طرز کی طعام گاہ پر مشتمل تھا۔ گاڑی ہر سٹیشن پر بہ مشکل تین منٹ رکی اور دو وقفوں کے بعد عین ٹکٹ پر لکھے وقت کے مطابق ”کاسا بلانکا مسافرون“ نام کے سٹیشن پر لا پہنچایا۔

سٹیشن سے باہر نکل کر کوئی بیس قدم کے فاصلے پر شہر کے اندر چلنے والی ٹرام کا مستقر تھا جہاں سے لسیسفہ کی سمت جانے والی ٹرام کا ٹکٹ ایک خود کار مشین سے ہاتھ آیا۔ لاگت کوئی ایک یورو۔ ہماری جائے قیام ”زینت“ نامی سٹیشن کے بالکل قریب تھی۔ وہاں جا کر سامان پٹکا تو مارے تھکن کے کھانا کھا کر پڑ جانے کے سوا اور کسی کام کی ہمت نہ بچی تھی۔ طنجہ کچھ بحرِ روم کا سا یک گونہ خنک موسم رکھتا ہے اور بنیادی طور پر سیاحت پر اس کی معاش کا دارومدار ہے۔ دارالبیضاء یا کاسا بلانکا البتہ وسیع و عریض اور کاروباری شہر ہے۔ آب و ہوا کچھ کراچی کی طرز کی ہے۔ ٹریفک کا اژدحام ہے اور ہمہ وقت جاری نسیم بحری کے باوجود فضائی آلودگی بہت ہے۔

طنجہ میں ہماری ایک مراکشی دوست نے کہ آوریلی بو خبزہ نام ہے اور پیدائشی یہودی لیکن عقیدتاً لا مذہب ہیں، تلقین کی تھی کہ ”باب مراکش“ نامی محلہ ضرور دیکھنا اور کچھ مقامی دست کاری خریدنا ہو تو ”حبوس“ چلے جانا۔ اگلے روز صبح اپنی قیام گاہ کی منتظم خاتون سے ”باب مراکش“ کا راستہ پوچھا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ ٹرام پر سوار ہو جاؤ اور ”ساحۃ الامم متحدہ“ یا ”یونائیٹڈ نیشنز پلیس“ پر اتر کر کسی سے راستہ پوچھ لینا۔

لے بھئی ”ہر کجا رفتم غبارِ زندگی درپیش بود“ ۔ خیر کل کے سیکھے ہوئے طریقے کو آزماتے ہوئے یہ خادم اپنے ادارے سے موسوم سٹیشن پر اترا تو ٹرام کمپنی کے نوجوان نے ایک جانب ایک اونچی سنگی محراب کی سمت اشارہ کیا کہ وہ رہا بابِ مراکش۔ یہ کاسا بلانکا کے پرانے شہر کی فصیل کا مرکزی دروازہ ہے۔ اندر شروع میں تو گِزری کی طرز کا خوانچوں پر مشتمل بازار لگا ہوا تھا جہاں سستی بنیانیں، ریفریجریٹر پر لگانے کے لئے مراکش کے مختلف مقامات کی نمائندگی کرتے مقناطیسی طغروں، سستی ٹی شرٹس وغیرہ کے کھوکھے سے تھے۔

آگے وہی الف لیلوی پُر پیچ گلیوں، محرابی دروازوں، اور روایتی ملبوسات پہنے، تھڑوں پر براجمان مردوزن کی بھول بھلیاں تھیں۔ نقشہ کچھ کچھ پرانے لاہور، دہلی، دمشق کا سا ہی ہے لیکن صفائی ستھرائی وہی کمال کی، جس کی اب ہمیں ان ممالک میں عادت سی ہونے لگی ہے۔ اس دوران پھل، سبزی، گوشت، طعام کی دکانوں سے بھی گزر ہوا مگر اس مخصوص سڑاند اور چراہند سے واسطہ نہ پڑا جو ہمارے ہاں ایسے محلّوں کا دور سے پتا دیتی ہیں۔

مراکش کا روایتی کھانا ”تعجین“ کہلاتا ہے۔ اسے مٹی کی ایک گہری پلیٹ میں گوشت سبزی، پھل، کُٹی ہوئی گندم اور جو ڈال کر، اوپر سے گھنٹی نما مخروطی مٹی کے سرپوش تلے ڈھانک کر، لکڑی کے کوئلے کی ہلکی آنچ پر پکایا جاتا ہے۔ ”تعجین“ اسی جذر ”عجن“ سے بنا ہے جس کا ایک مشتق ہمارے ہاں ”معجون مرکّب“ کے نام سے مستعمل ہے۔ گویا ”تعجین“ مجاز مرسل ہے جس میں فعل بول کر نتیجہ مراد لیا جاتا ہے۔ یہ خادم ان گلیوں میں قصداً بھٹکتا، مخلوقِ خدا کی سیر دیکھتا ایک اور دروازے پر آ پہنچا جو ایک چوڑی، پُر ہجوم چیختی چنگھاڑتی سڑک پر کُھل رہا تھا۔ وہیں ایک چائے خانے پر ذرا دم لیا اور یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ یہاں پودینہ ملی سبز چائے، ہمارے بچپن کے کوئٹہ کے رواج کی طرح، چینک کے حساب سے ملتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).