تعلیم اور صنفی مسائل


\"maعام طور پر تعلیم کو معاشرے میں صنف سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک مؤثر طریقہ قرار دیا جاتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ تعلیم خواتین کی صلاحیت کو بروئے کار لاکر ان کو سماجی اور معاشی سرگرمیوں میں شمولیت کے لیے با اختیار بنا دیتی ہے۔

تعلیمی ادارے خلا میں کام نہیں کرتے بلکہ یہ دوسرے سماجی اداروں جیسے خاندان، ریاست، میڈیا، مذہب سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ لہٰذا پاکستان جیسے معاشروں میں بعض اوقات تعلیمی ادارے دیگر سماجی اداروں کے اثر میں آکر خواتین سے متعلق دقیانوسی خیالات اور امتیازی سلوک کو چلنچ کرنے کی بجائے ارادی یا غیر ارادی طور پر انہیں دوام دینے میں مدد دیتے ہیں۔

پاکستان میں زندگی کے مختلف شعبوں بشمول تعلیم میں صنفی تفاوت اور مسائل نمایاں طور پر پائے جاتے ہیں۔ مثلاً یونیسکو کے ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پرائمری سے لے کر اعلیٰ سطح تک کی تعلیم میں ایک وسیع صنفی فرق موجود ہے۔ اسی طرح، پاکستان کی قومی تعلیمی پالیسی 2009 میں خواتین کی کم شرح خواندگی اور انرولمنٹ کو ایک اہم مسئلہ قرار دیا ہے۔

ایک کمزور نظام تعلیم میں یہ صلاحیت کم ہوتی ہے کہ وہ معاشرے میں خواتین سے متعلق تعصب اورفرسودہ خیالات کو چیلنج کرے اور خواتین کو اس قابل بنا سکے کہ وہ امتیازی سلوک، جنسی ہراسانی اور تعصب جسے دشواریوں سے بخوبی نمٹ سکے۔ لہٰذا تعلیمی اداروں ایسا تعلیمی ماحول پیدا کرنے کی ضرورت جو صنفی تفاوت اور صنفی تعصب جیسے مسائل کو کم کرنے میں مدد دے سکے۔ اس سلسلے میں ہمارے نظام تعلیم کے مختلف پہلوؤں۔ جیسے پالیسی، نصاب اور درسی کتابیں، سکول کے ماحول، اساتذہ کی تربیت۔ پر صنفی نقطہ نظر سے غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

تعلیم میں پالیسی سازی اور اس کے نفاذ کا عمل خواتین کی تعلیم تک رسائی اور شمولیت کے لئے بہت اہم مانا جاتا ہے۔ لیکن ایک ایسی تعلیمی پالیسی جو صنفی حساسیت سے محروم ہو، جنسی مساوات اور برابری کو یقینی نہیں بنا سکتی۔ پاکستان کی قومی تعلیمی پالیسی 2009 میں یہ واضح طور پر اجاگر کیا گیا ہے کہ سابقہ تعلیمی پالیسیز تعلیم سے صنفی عدم مساوات کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

مشہور سماجی محقیق نائیلہ کبیر کے مطابق تعلیمی اداروں میں پالیسی اور قواعد لوگوں کے درمیان اختیارات اور وسائل کی تقسیم میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پالیسی اور قواعد بعض اوقات جنسی طور پر امتیازی ہونے کہ وجہ سے خواتین کو اختیار اور وسائل تک رسائی کے لیے کم مواقع فراہم کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیمی اداروں میں صنفی تفاوت کی وجہ سے بہت کم خواتین اعلیٰ عہدوں تک پہنچ سکتی ہیں اور جو کامیاب ہوتی ہیں ان کو مردوں کے مقابلے میں بہت ساری رکاوٹوں کا سامنا پڑتا ہے۔

مزید برآں، یہ بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ لڑکوں کے سکولوں کے مقابلے میں لڑکیوں کے اسکولوں کو کھیلوں، معاون نصابی سرگرمیاں، پانی، بجلی، صفائی اور دیگر سہولیات کے لئے کم بجٹ ملتا ہے۔ لہٰذا، تعلیم میں صنفی فرق کو کم کرنے کے لیے ہماری تعلیمی پالیسیوں کو صنفی لحاظ سے مزید حساس اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

ہمارے تعلیمی اداروں میں، خاص طور پر سکولوں میں درسی کتب کو اساتذہ اور طالب علموں کے لئے معلومات کے بڑا ذریعے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تاہم بہت ساری تحقییق نے یہ واضح کیا ہے پاکستان میں درسی کتب صنفی طور پر متوازن نہیں ہیں۔ درسی کتابوں میں موجود زیادہ تر مواد (جیسے تصویریں اور متن) مردوں سے متعلق کردار پر مرکوز ہیں۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین کو صرف چند مخصوص کردار جیسے دوسروں کی دیکھ بھال یا دوسروں کی خدمت کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ جس سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ عورت کمزور ہے اس لیے مشکل کام نہیں کرسکتی۔

نتیجتاً ایسے مواد طالب علموں کے ذہنوں میں عورتوں کے کردار سے متعلق ایک خاص تصور پیدا کرتے ہے اور وہ معاشرہ میں ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہٰذا نصابی کتابوں پر صنفی نقطہ نگاہ سے نظر ثانی کرنے کی اشد ضرروت ہے تاکہ کہ بچوں کو ایک متوازن تعلیم دے سکے۔ اس سلسلے میں درسی کتب کے مصنفین کو تربیت دینے کی ضرورت کہ کیسے درسی کتابوں کو صنفی لحاظ سے متوازن بنایا جاسکے۔

درس و تدریس کے عمل بھی طالب علموں کی جنس تصورات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اساتذہ صنف اور جنس سے متعلق ایک خاص تصور معاشرہ سے لے کر کلاس روم میں آتے ہیں۔ لیٹریچر سے یہ بات واضح ہوتا ہے کہ اساتذہ عوماً لڑکوں اور لڑکیوں سے مختلف رویے کی توقع رکھتے ہیں اوران کے ساتھ برتاؤ بھی مختلف انداز میں کرتے ہیں۔ مزید برآں، لڑکوں اور لڑکیوں کی کلاس میں مختلف کردار دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر لڑکوں کو قائدانہ کردار دیا جاتا ہے جبکہ لڑکیوں کو آسان کام دیا جاتا ہے۔

اساتذہ کے لڑکوں اور لڑکیوں سے مختلف توقعات اور برتاؤ بچوں کی صنفی تصورات کو تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور یوں یہ تصورات ان کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں۔ لہٰذا، صنفی مسائل کو ٹیچر ایچوکیش کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ایجوکیڑز اور اساتذہ کو آگاہ کیا جاسکے کہ کلاس روم میں صنفی مسائل کو کیسے نمٹا جا سکے۔

تعلیمی اداروں کا ماحول بھی صنفی تعلیم میں اہم پہلو قرار دیا جاتا ہے۔ کسی تعلیمی ادارہ کا ماحول وہاں رائج قوانین، اصولوں، اقدار اور دیگر عوامل سے تشکیل پاتا ہے۔ ادارے میں موجود قوانین اور اقدار اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ ادارے میں مردوں اور عورتوں کے ساتھ یکسان برتاؤ اور سلوک کیا جاتا ہے یا نہیں۔ ادارے کی ثقافت سے یہ بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کی مرد اور عورت کو وسائل اور اختیار تک رسائی کس حد تک برابری کی بنیاد پر ہوتی ہے۔

پاکستان کے تعلیمی اداروں پر کی گئیں مختلف تحقیقات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عام طور پر خواتین اساتذہ کو پیشہ ورانہ ترقی کے لئےکم مواقع ملتے ہیں اور خواتین کو تعلیمی داروں میں اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ان مسائل کو دیکھتے ہوئے تعلیم اور دوسرے شعبوں میں خواتین کی شرکت اور رسائی بڑھانے اور صنفی تفاوت کو کم کرنے کے لیے مختلف سطح پر دو اہم اقدام اٹھانے کی اشد ضروت ہے۔

اول یہ کہ تعلیمی اداروں میں ایسا انسان دوست ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے جہان خواتین اور مرد اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں کم سے کم دشواری کا سامنا کرسکے۔ اس سلسلے میں تعلیمی اداروں کو صنفی نقطہ نگاہ سے اپنے پالیسیوں، نصاب اور درسی کتب، درس و تدریس کے عمل اور تعلیمی ثقافت کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں ایک ایسا مضبوط تعلیمی ماحول پیدا کیا جائے کہ جہاں معاشرہ میں خواتین سے متعلق دقیانوسی خیالات کو تعلیمی انداز میں چیلنج کیا جا سکے۔ ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کو ایسی تعلیمی صلاحیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ معاشرہ پر مثبت طور پر اثر انداز ہو نہ کہ معاشرہ کی دقیانوسی تصورات سے متاثر ہو کر ان کو دوام بخشے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments