یہ دلوں کے سلسلے ہیں


زندگی میں کئی موڑ آتے ہیں۔ زندگی کی تلخیوں اور شیرینی کا ذمہ دار جہاں ایک طرف خود ہر شخص ہوتا ہے وہاں مقدر کا بھی ہاتھ ہوتا ہے جو مقدر نہیں مانتے، اونچ نیچ سے واسطہ ان کا بھی پڑتا ہے۔

تو ایسا ہی ایک موڑ بارہ برس پہلے میری زندگی میں آیا تھا جس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ میں آپ بیتی نہیں لکھ رہا۔ خیر میری زندگی میں ایک اور لڑکی در آئی تھی۔ میں اگرچہ ایک اچھی روسی خاتون کا شوہر تھا جو اپنے طور پر ایک مکمل بیوی ہے بلکہ اپنی سرشت میں ایک مہربان ماں۔

البتہ اس خاتون کا پہلے شوہر سے جوان بیٹا ایک ایسی لڑکی کو لے کر اس ایک کمرے کے گھر میں رہنے آ گیا تھا جہاں ہم دونوں پرسکون زندگی بتا رہے تھے۔ اس نابکار لڑکی نے، جو بالآخر میری بیوی کے بیٹے سے پانچ برس بعد جدا بھی ہو گئی، اپنے رویوں سے نہ صرف یہ کہ گھر میں عذاب برپا کر دیا تھا بلکہ ہم دونوں کی باہمی زندگی کو بھی بری طرح متاثر کیا تھا۔

میں اگرچہ سمجھتا تھا کہ وہ ماں ہے، بیٹے کی مخالفت نہیں کر سکتی مگر وہ اپنے دبو مزاج کے سبب میرا ساتھ بھی نہیں دیتی تھی۔ یوں جب ہمارے بیچ ذہنی دوری ہونا شروع ہوئی تو کسی اور کا میری زندگی میں داخل ہو جانا اگرچہ ضروری نہیں تھا مگر اس سے بچنا بھی شاید ممکن نہ تھا۔

سچی بات یہ کہ سب کچھ ایسے آنا ”فانا“ ہوا کہ خبر تک نہ ہوئی۔ یہ نئی لڑکی بہت زیادہ مذہبی تھی اور میں ایک عرصہ کے بعد مذہب سے قریب تر ہو رہا تھا۔ اس لڑکی کا زور مناکحت پر تھا اور میں باوجود مذہب کے قریب تر ہونے کی سعی میں ”وقت گذاری“ کی جانب مائل، آپ اسے عیش کوشی نہیں کہہ سکتے۔

ہوا یہ کہ ہم مناکحت کے بندھن میں بندھ گئے۔ ایک ڈیڑھ ماہ بعد ہی میری روسی بیوی کو چھاتی کا سرطان تشخیص ہو گیا۔ میں نے جہاں ایک جانب زندگی میں پہلی مرتبہ سوچا تھا کہ اس نئی بیوی کے ساتھ پاکستان منتقل ہو جاوں کا اور بڑھاپا سکون سے گذاروں گا وہاں اس کو اس کی نکاح کی ضد پوری کرنے سے پہلے بہت سمجھایا تھا کہ میں تم سے دوگنا بڑا ہوں اور یہ سب بے جوڑ ہوگا مگر اس کا موقف تھا کہ نوجوان شوہر بھی تو چند ماہ یا ایک دو سال کے بعد کسی حادثے یا مرض کے باعث یہ جہان چھوڑ سکتا ہے۔ سب اللہ کی رضا پر منحصر ہے۔

اب جب جس کے ساتھ سولہ برس بتا چکا تھا کو یہ عارضہ لاحق ہوا تو میں نے نوبیاہتا سے کہا کہ میری پہلی اہلیہ سے متعلق کوئی بات نہیں ہوگی اور اس اللہ کی بندی نے بھی میرا مان رکھا۔ پہلی اہلیہ کی چھاتی جراحی کرکے اتار دی گئی۔ یہ ایسا صدمہ ہوتا ہے جو کسی بھی عمر کی عورت کے لیے بے حد دلدوز ہوتا ہے۔ یوں پہلے اس کے ساتھ ہمدردی ہوئی مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ تعلق محبت اور حق سچ کہوں تو عشق میں بدل گیا۔

ادھر نئی اہلیہ کے بچہ پیدا ہو گیا۔ یہ خوشخبری پاکستان میں رشتہ داروں تک بھی پہنچائی گئی۔ بیٹے کی ماں نے چونکہ اردو میں ماسٹرز کیا ہوا ہے اس لیے اس کے میرے تمام رشتہ داروں سے تعلقات استوار ہو گئے۔ یوں جانیے کہ پاکستان میں سبھی کو ہم میاں بیوی سے متعلق معلوم تھا مگر ماسکو میں میرے قریب ترین دوست امتیاز تک کو معلوم نہ تھا، جسے میں نے کل جب بتایا تو استعجاب اور دوست کو راز نہ بتانے کے دکھ سے وہ کئی لمحے خاموش رہا۔ وجہ وہی تھی کہ کسی کے منہ سے نکل گیا تو پہلی اہلیہ کو درد ہوگا اور میں اسے کوئی آزار نہیں دے سکتا تھا۔

دوسری بیوی سے ان بارہ برسوں میں تین بچے ہو گئے جن کی اب عمریں بتدریج دس، سات اور تین سال ہیں۔ پہلی بیوی سے میری ازحد ہم ٓہنگی، باوجود اس کے کہ مجھے روسی اچھی طرح بولنا نہیں آتی اور وہ اردو سے نابلد ہے۔ پکوان پاکستانی ہوں یا روسی بہترین پکانے والی، ہر چیز کپڑا ہو یا کتاب نک سک سے درست مقام پر مناسب انداز میں رکھے ہوئے۔

آنکھ کا اشارہ سمجھنے والی، خیال اس قدر رکھنے والی کہ کیا کوئی ماں، بہن یا بیٹی رکھ سکتی ہو۔ پھول اور پودے اس کے ہاتھ سے یوں بڑھیں جیسے انسان کا ہاتھ نہ ہو کسی الوہی شخصیت کا ہاتھ ہو، غرض جتنی بھی تعریفیں ممکن ہیں وہ اس سے وابستہ مگر حسد کا جذبہ مرض کی حد تک۔

دوسری جانب بچوں کی ماں اردو جاننے کے باوجود میری کہی بات کو کچھ اور سمجھنے والی، کھانا بس جو آگ پکا دے وہی مگر بلا کی صابر، پیسے دھیلے سے متعلق تنگ نہ کرنے والی، بچوں کو شیر کی آنکھ سے تربیت دینے والی۔ گھرداری کے علاوہ وہ سارے کام جو شوہر کو کرنے چاہییں، خود تین بچوں کو ساتھ لٹکا کے کرتی پھرتی۔ مگر مجھے اس سے محبت نہیں بس ایک تعلق ہے۔ بچے بہت پیارے اور مہذب و مودب ہونے کے علاوہ کسی بھی قسم کا تقاضا کرنے سے پاک۔

میں اس خاتون سے بہت الجھتا رہا مگر بچوں سے ملنا مسلسل جاری رکھا۔ میری عمر میں شہر کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک سفر کرنا، پھر پہلی بیوی کے سامنے تکان کا اظہار بھی نہ کرنا۔ یہ سب جاری رکھا مگر پہلی بیوی پر کچھ عیاں نہ ہونے دیا۔ اس کی محبت بھی سوا ہوتی گئی۔ اس کی دل آزاری نہ ہو اس لیے میں نہ بچوں کے سکول کے داخلہ پر ان کے ساتھ گیا، نہ جب ان میں سے کوئی ہسپتال میں رہا میں مناسب تیمارداری کر پایا۔ بچے ضد کرتے کہ رات ان کے ساتھ گذاروں مگر میں ان کے سوتے ہی اٹھ کر گھر چلا جاتا۔ جی میں پہلی بیوی کے ساتھ ہی رہا۔

بچوں کی ماں کو سختی سے منع تھا کہ بچوں کے ساتھ میری کوئی تصویر سوشل میڈیا پر نہیں لگائی جائے گی۔ پھر فٹ بال ورلڈ کپ کے دن تھے، بچوں کی کچھ تصاویر مجھے اچھی لگیں اور میں نے وٹس ایپ کے ذریعے پاکستان میں اپنی مطلقہ پہلی بیوی کو جو ان بچوں کو اپنا ہی سمجھتی ہے تصاویر ارسال کرنا چاہیں تو ایک جیسی ڈی پی اور ناموں کے پہلے حروف کی مماثلت کے سبب روسی اہلیہ کو جو کنٹری ہوم میں تھی، ارسال کر دیں۔ اس سے پہلے کہ میں ڈیلیٹ کر سکتا، اس کا استفساری فون آ گیا۔ بات بنائی جو بن گئی لیکن کہیں گھر کر گئی۔

ابھی جب میں پاکستان میں تھا تو تین مارچ سے وہ سوشل میڈیا سے غائب ہو گئی۔ قصہ مختصر میری بیٹی کی سالگرہ تھی، ایک تصویر میں بھائی بہن کا ماتھا چوم رہا تھا، مجھے تصویر اچھی لگی تو میں نے لگا دی۔ چونکہ بیوی تصاویر تو پہلے ہی دیکھ چکی تھی اور ایک زمانے میں روس کی مشہور ایجنسی کے ساتھ بھی کام کر چکی تھی، اس نے نقطے ملا کر تصویر مکمل کر لی۔

پاکستان سے واپسی سے پہلے ماسکو میں اس فلیٹ کی چابیاں گم ہو گئیں جس میں میں روسی بیوی کے ساتھ رہتا رہا۔ آخری روز میرے رابطہ کرنے کے باوجود وہ گھر کھولنے نہ لوٹی، مجھے مجبوری میں اسی کرائے کے گھر میں آنا پڑا جس میں بچے رہتے ہیں۔

چونکہ بچوں کی ماں تاجک ہے جسے ابھی ریزیڈنٹ پرمٹ تک نہیں ملا، اس لیے ان کے رویے ہم لوگوں کے سے ایشیائی ہیں۔ بیوی اور تین بچوں کے علاوہ بیوی کی چھوٹی بہن اپنے شوہر سے روٹھ کر تین کم عمر بچوں کے ساتھ مقیم، جس کا ایک بچہ اس حد تک بدتمیز ہے کہ صحت مند شخص کا بھی فشار خون بڑھا دے اور میں تو ہوں ہی فشار خون کا مریض۔ علاوہ ازیں ایک اور مہمان خاتون بھی اسی ایک کمرے کے گھر میں ہے یعنی چھ بچے اور میرے سمیت چار بڑے۔

میرا بستر یہاں کی ریت کے مطابق باورچی خانے میں ہے اور وہ بھی محمدی بستر جبکہ میں اچھے فلیٹ میں مناسب بیڈ پر تنہا سونے کا عادی۔ چاہے بیوی گھر پر بھی ہوتی وہ باورچی خانے میں مصروف ہوتی یا اپنے کمپیوٹر میں مگن۔

پھر پاکستان میں پانچ ماہ کبھی اچھے ہوٹلوں میں، کبھی فوج یا پی اے ایف کے افسر میسز میں، کبھی متمول دوستوں کے مجہز بیڈ رومز میں تو کبھی بڑے بڑے گھروں کے علیحدہ کمروں میں پانچ ماہ سے زائد عرصہ بسر کرکے آتے ہی زمین پر۔ جب یہی بات بچوں کی ماں سے کہی تو بولی: ”کوئی بات نہیں زندگی ایسی ہی ہوتی ہے، خلا باز ہمیشہ تو خلا میں نہیں رہتا اسے آخرکار زمین پر اترنا ہی پڑتا ہے“۔

اور کیا حکومت روس سے 19000 روبل ماہوار جو پاکستانی روپوں میں شاید 45000 ہوں گے پانے والا خلا باز ہی ہوا جس کے اخراجات اگر حکومت برداشت نہ کرے تو وہ کبھی خلا باز نہیں بن سکتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).