ملک میں سیاسی تصادم کی راہ ہموار ہو چکی ہے


ملک کی 9 اپوزیشن پارٹیوں کی رہبر کمیٹی کے اجلاس میں چئیر مین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی 25 جولائی کو یوم سیاہ منانے اور گزشتہ سال منعقد ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لئے حکومت کی طرف سے قائم پارلیمانی کمیٹی سے مشترکہ طور سے استعفے دینے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

 اپوزیشن کے خیال میں حکومت نے اس کمیٹی کو غیر فعال بنایا ہے تاکہ انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کا کام آگے نہ بڑھ سکے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیشن کے جمہوریت دشمن اقدامات کے خلاف ملک گیر عوامی رابطہ مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت  ملک کی جمہوری روایات کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ اس طرح لگتا ہے کہ ملک میں ایک نئے سیاسی تصادم کا آغاز ہونے والا ہے جس کے نتائج کے بارے میں پیش گوئی کرنا آسان نہیں ہوگا۔

چئیرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا اصولی فیصلہ گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں ہونے والی ملٹی پارٹی کانفرنس میں کیا گیا تھا ۔ تاہم اس سلسلہ میں عملی اقدام کرنے کا اختیار گیارہ رکنی رہبر کمیٹی کو سونپا گیا تھا۔ اس کمیٹی کا اجلاس آج اسلام آباد میں منعقد ہؤا جس میں جمیعت علمائے اسلام (ف) کے اکرم درانی کو دو ماہ کے لئے کمیٹی کا کنوینر مقرر کیا گیا ہے۔ رہبر کمیٹی کے اجلاس کے بعد اکرم دارنی نے کنوینر کے طور پر ہی میڈیا کو بتایا کہ ملک میں نیا سیاسی ڈھانچہ تشکیل دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ لیکن اپوزیشن اس کی مزاحمت کرے گی۔ اپوزیشن نے آئیندہ ہفتے کے دوران چئیر مین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا ہے اور کہا گیا ہے کہ 11 جولائی تک اپوزیشن اپنے متفقہ امید وار کا نام سامنے لائے گی ۔ رہبر کمیٹی کے اجلاس کے دوران اسی معاملہ پر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے اپوزیشن کی کوئی واضح حکمت عملی سامنے نہیں آسکی ۔

رہبر کمیٹی کے اجلاس میں 9 جولائی کو چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا اعلان تو ہؤا ہے لیکن سب اپوزیشن جماعتیں اس انتہائی اقدام سے پہلے یہ امر یقینی بنانا چاہتی ہیں کہ انہیں اس مقصد میں کامیابی بھی حاصل ہوگی۔ اگرچہ اپوزیشن کو سینیٹ میں حکومتی اتحاد کی 41 نشستوں کے مقابلے میں 61 سینیٹرز کی حمایت حاصل ہے۔ تاہم اس راہ میں فی الوقت دو مشکلات حائل ہیں۔ ایک تو اس بات کا سو فیصد یقین نہیں ہے کہ مختلف پارٹیوں کے سب سینیٹرز قیادت کے فیصلہ کے مطابق چئیر مین سینیٹ کو ہٹانے کے لئے ووٹ دینے پر آمادہ ہوجائیں گے۔ کیوں کہ بعض سینیٹرز اس فیصلہ کے خلاف تحفظات کا اظہار کرچکےہیں ۔ سینیٹ کا چئیر مین ہٹانے یا منتخب کرنے کے لئے رائے شماری خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوتی ہے۔ اس لئے رہبر کمیٹی اس بات کا یقین حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ عدم اعتماد لانے کی صورت میں کوئی رکن اس سے خفیہ طور پر اختلاف کرکے اپوزیشن کی سیاسی پوزیشن کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔

اس حوالے سے دوسرا مسئلہ نئے چئیر مین کے نام پر اتفاق رائے سے متعلق ہے۔ گزشتہ سال کے شروع میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے پیپلز پارٹی کے رضا ربانی کا نام پیش کیا تھا لیکن آصف زرداری نے انہیں اپنا امید وار نامزد کرنے سے انکار کردیا تھا اور تحریک انصاف کے ساتھ مل کر آزاد امیدوار کے طور سینیٹر منتخب ہونے والے صادق سنجرانی کو چئیرمین سینیٹ منتخب کروالیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) 29 ارکان کے ساتھ سینیٹ کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود اس انتخاب کا راستہ نہیں روک سکی تھی۔ تاہم تحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اس تعاون کے باوجود آصف زرداری اس وقت زیر حراست ہیں اور حکومت نے پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں کی طرح چور لٹیرے قرار دیتے ہوئے اس کے ساتھ مفاہمت کے تمام راستے بند کر رکھے ہیں۔ آصف زرداری کے پاس موجودہ حالات میں مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں کے ساتھ تعاون کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا۔

رہبر کمیٹی کے پہلے اجلاس سے سامنے آنے والی خبروں میں یہ اشارہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی صورت میں سینیٹ کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کے ناطے اپنے کسی سینیٹر کو اس عہدے پر فائز دیکھنا چاہتی ہے۔ اب پیپلز پارٹی کے رضا ربانی کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ جبکہ پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ چئیر مین سینیٹ کو ہٹانے کا ڈرامائی فیصلہ ہونے کی صورت میں اسے چئیر مین کا عہدہ حاصل ہوجائے کیوں پرانے انتظام کے تحت ڈپٹی چئیرمین کا عہدہ تو اب بھی پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈی والا کے پاس ہی ہے۔ اس صورت میں صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد سے پیپلز پارٹی کو براہ راست کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

سینیٹ چئیرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تاریخ ساز تحریک لانے کی صورت میں اپوزیشن کو اس مسئلہ کا سامنا بھی ہو گا کہ صادق سنجرانی کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ ان کے خلاف عدم اعتماد کی صورت میں اپوزیشن اگر پنجاب یا سندھ سے کوئی امیدوار منتخب کرواتی ہے تو خواہ اس کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو لیکن اس پر بلوچستان دشمنی کی پھبتی کسی جائے گی۔ اس لئے اپوزیشن کے پیش نظر یہ بات بھی ہوگی کہ نئے متفقہ امیدوار کا تعلق بلوچستان سے ہی ہو۔ اس لئے اس بات کے اشارے بھی موصول ہوئے ہیں کہ اپوزیشن کسی چھوٹی پارٹی کے متفقہ امیدوار پر راضی ہوجائے۔ اس صورت میں جمیعت علمائے اسلام (ف) اور پختون خوا ملی عوامی پارٹی اپنے کسی امیدوار کو یہ عہدہ دلوانے کی کوشش کریں گی۔

ان سیاسی مشکلات کے باوجود اگر اپوزیشن چئیر مین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد لانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اسے حکومت کے خلاف باقاعدہ مہم جوئی کا نقطہ آغاز سمجھا جائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان اپوزیشن کی طرف سے چئیر مین سینیٹ کے خلاف تحریک لانے کی خبریں سامنے آنے کے بعد دو ٹوک الفاظ میں صادق سنجرانی کی حمایت کا اعلان کرچکے ہیں۔ اس طرح سینیٹ میں اپوزیشن کی کامیابی وزیر اعظم کی بالواسطہ شکست سمجھی جائے گی۔ سینیٹ میں پارٹی پوزیشن واضح ہونے کے باوجود اسے حکمران تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی جنگ کا اعلان بھی قرار دیاجائے گا۔ عمران خان تو بدعنوانی کے علاوہ ملک کو درپیش مالی مسائل کی تمام تر ذمہ داری نواز شریف اور آصف زرداری پر ڈالتے ہوئے یک طرفہ طور سے اعلان جنگ کرتے رہتے ہیں لیکن اپوزیشن نے ابھی تک حکومت کو براہ راست چیلنج کرنے کا اعلان نہیں کیا تھا ۔

البتہ آج رہبر کمیٹی کی طرف سے چئیر مین سینیٹ کو ہٹانے ، 25 جولائی کو یوم سیاہ منانے اور بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے ملک گیر احتجاجی مہم چلانے کے اعلانات کی روشنی میں ملک میں ایک بڑے سیاسی تصادم کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ تحریک انصاف اپنی اکثریت کے علاوہ اپوزیشن لیڈروں کی پے در پے گرفتاریوں کی وجہ سے خود کو طاقت ور محسوس کرتی ہے۔ اسے اس وقت اسٹبلشمنٹ کی مکمل تائید کا بھی گمان ہے۔ عمران خان کا خیال ہے کہ اگر نواز شریف کی طرح اپوزیشن پارٹیوں کے بعض دوسرے لیڈر بھی بدعنوانی کے مقدمات میں سزا پا کر جیل چلے جائیں تو ان کے ’چور لٹیروں والے‘ بیانیے کو طاقت حاصل ہوگی جس کے ذریعے ملک میں اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں کی سیاسی قوت ختم کرنے میں مدد مل سکے گی۔ اس ماحول میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان کو توڑنے اور فارورڈ بلاک بنوانے کی کوششیں بھی تیز کی جاسکتی ہیں۔

حکومت کا یہی رویہ دراصل اپوزیشن پارٹیوں کے لئے زندگی اور موت کا مرحلہ بن چکا ہے۔ عمران خان اپوزیشن سے کسی بھی قسم کی مفاہمت کو ’این آر او‘ مانگنے کا نام دیتے ہیں۔ وہ عوامی شعور میں یہ بات راسخ کروارہے ہیں کہ اپوزیشن ملک کی بھلائی یاتصادم سے گریز کے لئے میثاق معیشت یا سیاسی مفاہمت کی بات نہیں کرتی بلکہ اس کا اصل مقصد حکومت سے اپنے لیڈروں کے لئے مراعات حاصل کرنا ہے تاکہ وہ کرپشن کے الزامات سے نجات حاصل کرسکیں۔ یہ سیاسی بیانیہ اس قدر شدت سے سامنے لایا جاچکا ہے کہ اب حکومت نے اس میں کسی قسم کی نرمی دکھائی تو اسے بھی ’کرپٹ سیاست دانوں‘ کا ساتھی ہی قرار دیا جائے گا۔ عمران خان اس تصادم کو ایک ایسے موڑ تک لے آئے ہیں جہاں براہ راست سیاسی پنجہ آزمائی ہی واحد آپشن دکھائی دیتا ہے۔ یہ صورت حال البتہ ملک کی معیشت اور امن و امان کے لئے خیر کی خبر نہیں ہے۔

اپوزیشن لیڈروں نے آج نئے سیاسی ڈھانچے کی تشکیل اور بلاول بھٹو زرداری نے جمہوریت ریورس کرنے کی بات سے، ان شبہات کو تقویت دی ہے کہ ملک میں ایک پارٹی کانظام یا فرد واحد کو طاقت کا محور بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ عمران خان اور ان کے ساتھی اپنےبیانات سے ان قیاسات کو یقین میں بدل رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی میڈیا کے خلاف حکمران جماعت کی مہم جوئی اور ججوں کے خلاف ریفرنسز بھی حکومت کے جمہوری ارادوں کے بارے میں منفی اشارے ہیں۔

چئیر مین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد میں کامیابی اور 25 جولائی کے یوم سیاہ پر اپوزیشن جماعتوں کی طاقت کا مظاہرہ حکومت اور اپوزیشن قوتوں کے درمیان تصادم کی قوت اور نوعیت کا تعین کرے گا۔ اپوزیشن کے علاوہ حکومت کو بھی البتہ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہوگی کہ ایسا تصادم جمہوری جد و جہد کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali