یہ ”اعجاز“ ہے حسنِ آوارگی کا


پہلے صرف مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھنور کی زد میں تھی لیکن اب پوری مسلم لیگ (ن) ہی گرداب میں آچکی ہے۔ 2018 ء کے عام انتخابات سے کچھ دیر پہلے اور پھر بعد میں سیاسی حلقوں میں اس بات کو زور دے کر تسلیم کیا جارہا تھا کہ میاں نواز شریف کے تاحیات نا اہل ہونے اور مریم نواز کے سزا یافتہ ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے شیر ڈٹے ہوئے ہیں۔

میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کی گرفتاری کے باوجود بھی مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ بظاہر اپنی پارٹی میں چٹان کی طرح مضبوط نظر آرہے تھے لیکن گزشتہ چند دنوں سے مسلم لیگ (ن) کے درجنوں اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی بنی گالہ میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرکے اپنا سیاسی ایمان اور قبلہ تبدیل کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) میں حالیہ پڑنے والی دراڑوں کے پیچھے مختلف خبریں گردش کررہی ہیں۔ سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد کو یقین ہے کہ حالیہ کارروائی 2002 ء کے عام انتخابات کے بعد ”پیٹریاٹ“ بناؤ طرز کی ہے۔ 2002 ء میں ا یک موقع پر جنرل پرویز مشرف نے مرحوم مخدوم امین فہیم کو دامن کوہ پر بلا کر اپنے ”دامن“ میں سمانے اور انہیں وزارت عظمیٰ کے عہدے پر بٹھانے کا وعدہ کرلیا تھا اور دامن کوہ سے پیپلز سیکرٹریٹ تک کا سفر مخدوم امین فہیم نے وزیراعظم کے پروٹوکول کے ساتھ کیا تھا۔

لیکن محترمہ بے نظیر بھتو کی طرف سے یہ فرمولا ردکے جانے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے مخدوم امین فہیم کو دیا گیا پروٹوکول فوری واپس لے لیا اور اس کے بعد ملکی تاریخ میں پہلی بار محترمہ بے نظیر بھٹو کے قریبی دوستوں کو ”پٹریاٹ“ کا سرٹیفکیٹ دے کر جنرل پرویز مشرف نے انہیں اپنی حکومت میں شامل کرلیا۔ ٹھیک سترہ سال بعد پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس سادہ اکثریت موجود ہے لیکن اسے چھوٹے چھوٹے سیاسی گروہوں کی طرف سے ماہانہ سیاسی بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ”فیلڈنگ“ میں ردوبدل کرتے ہوئے اعجاز شاہ کو وزیر داخلہ بنایا تھا اور حال ہی میں جنرل فیض حمید کو ڈی جی آئی ایس آئی بنا دیا گیا۔

سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ حال ہی میں مسلم لیگ (ن) کے ”مہجور“ (بچھڑنے والے ) ہونے والے اراکین پارلیمنٹ دراصل مجبور ہوکر داغ مفارقت دینے پر تیار ہیں۔ ان اراکین پارلیمنٹ نے نوشتہء دیوار پڑھ کر اپنی پارٹی سے بغاوت کا فیصلہ کیا ہے۔ کیونکہ باغی ہونے والے اراکین اس بات کو سمجھ گئے ہیں کہ محترمہ مریم نواز کا اصل ہدف یا تو میاں نواز شریف کی جائز و ناجائز طریقے سے رہائی ہے اور یا پھر اسٹیبلشمنٹ پر دشنام طرازی ہے۔

جیسے میاں نواز شریف کی سزا طویل ہوتی جارہی ہے اور میڈیکل رپورٹس بھی ضمانت میں کارگر نہیں ہوئیں تو ان باغیوں نے اصول ”پٹریاٹس“ پر چلنے کا فیصلہ کیا۔ مسلم لیگی حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کی بغاوت کے پیچھے حکومتی ”اعجاز“ کی کارروائی ہے جس نے ”شاہ“ کا راستہ آسان کردیا ہے۔ اور بقول شاعر

”یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا

جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے ”

حسنِ آوارگی اور حسن کارکردگی میں تھوڑا ہی فرق ہے اور بعض اوقات تو دونوں صورتوں میں تغمہ ملنے کا قوی امکان ہوتا ہے۔ اگر واقعی وزیر داخلہ اعجازشاہ نے اس سیاسی جوڑ توڑ میں کمال دکھایا ہے تو پھر حکومت انہیں تمغہء حسنِ کارکردگی بھی عطا کر سکتی ہے۔ اور تمغہء حسنِ آوارگی بھی دے سکتی ہے کیونکہ کوئی تو ایسی ادا تھی جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کے اراکین ”آوارہ“ ہونے پر آمادہ ہوئے۔

کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ بنی گالہ میں ہونے والی ملاقاتیں ”فیض یاب“ ہونے کا سلسلہ ہے اور ان ملاقاتوں میں مزید شدت آئے گی اور ”فیض“ کی برکات مزید ظاہر ہوں گی اور مسلم لیگ (ن) کے اراکین پارلیمنٹ کے اندر سیاسی ”اوصاف حمیدہ“ مزید تیزی سے نظر آئیں گے۔ پی ٹی آئی کی حکومت جتنی زیادہ کمزور نظر آرہی تھی اب اس سے بھی زیادہ مضبوط نظر آرہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دس سال بعد اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حکومت ایک ہی پیج پر نظر آرہے ہیں گزشتہ دنوں جب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے معاشی صورتحال پر لیکچر دیتے ہوئے دو ٹوک پیغام دیا کہ حکومت نے معاشی بحران سے نکلنے کے لئے جو مشکل فیصلے کیے ہیں اس کی سب کو سپورٹ کرنا چاہیے۔

اہل عقل نے آرمی چیف کے اس پیغام میں اپنی نئی راہوں اور منزلوں کا تعین کرنا مناسب سمجھا ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ ملک و قوم کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر کئی چیلنجز درپیش ہیں اس لئے قومی سلامتی کے اداروں اور سول حکومت کا متحد ہونا ضروری ہے تاکہ عوام کے اندر یہ احساس تحفظ مزید مضبوط ہوکہ ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ وگرنہ گزشتہ دس برس میں کبھی میمو گیٹ سکینڈل نے ملک کی بدنامی کی اور کبھی ڈان لیکس نے دشمن کے کام کو سہل کیا۔

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر بھی پنجہ آزمائی ہوسکتی ہے۔ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ اپوزیشن حکومت کی طاقت کا اندازہ کرتے ہوئے خاموشی سے پیچھے ہٹ جائے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سینیٹ میں ”پٹریاٹس“ پیدا ہوجائیں۔ اس طرح گھر بیٹھے بٹھائے کام ہوجائے گا۔ موجودہ سیاسی صورتحال بتاتی ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ جس کے ساتھ ہوتی ہے اس کے پاس بھاری مینڈیٹ نہیں ہوتا اور جس کے پاس بھاری مینڈیٹ ہوتا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نہیں ہوتا۔

ہماری اسٹیبلشمنٹ کی بہت ساری توانائیاں بھاری مینڈیٹ کے قہر سے بچنے پر صرف ہوجاتی ہیں اور جو توانائی بچ جاتی ہے وہ کمزور مینڈیٹ والوں کے تحفظ پر صرف ہوجاتی ہے۔ ہمارے اداروں کو قومی دولت کے صحیح اصراف کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی اہتمام کرنا چاہیے کہ ہماری توانائیاں صحیح جگہ پر صرف ہوں۔ یہ کام بھی بہت ضروری ہے۔

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat