کیا کسی نئے نظام کی ضرورت ہے


جب سے ہوش سنبھالا ہے جمہوریت اور آمریت کے قصے سب سے زیادہ سننے کو ملے ہیں۔ حتی کہ اپنے گھر میں بھی انہیں دو الفاظ کی گونج اکثر سنائی دی۔ شاید پاکستان کے زیادہ تر گھرانوں میں ایسا ہی ہوتا ہو گا اسی لیے ہمارے ملک میں آج بھی پسند یدہ تفریح سیاست ہے۔ اسی بناء پر نیوز چینل دیکھنے والوں کی تعداد تفریحی چینل دیکھنے والوں کی بہ نسبت زیادہ ہے۔

ویسے یہ کوئی بری بات نہیں ہے۔ سیاسی معاملات کی آگاہی قوموں کا شعور بیدار کرتی ہے۔ ہمارا تعلق چونکہ بنگلہ دیش بننے کے بعد والی نسل سے ہے۔ اس لیے بنگلہ دیش کیوں، کیسے، کس وجہ سے بنا ہم نے بھی صرف کتابوں سے استفادہ حاصل کر کے ہی جانا۔ ہاں بچپن میں والدین کی بلاجواز بحثیں ضرور سنیں۔ والدہ بھٹو صاحب کے پرستاروں میں سے تھیں۔ والد صاحب پروفیسر غفور احمد کے قریبی رفقاء میں سے تھے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ناچیز کے چھوٹے سے ذہن نے کیسی کیسی قلابازیاں لگائی ہوں گی ۔

سیاسی وابستگیاں مجموعی معاشرے پر ہی نہیں انفرادی طور پر گھرانوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ کون صحیح ہے کون غلط کس کی بات میں سچائی ہے کس کے بیان میں مبالغہ ان گتھیوں کو سلجھانے میں اتنے برس گزر گئے۔ مگر معمہ آج بھی حل طلب ہے۔

ہم جہاں سے چلے تھے پھر آ کر وہیں کھڑے ہیں۔ پاکستان کے لیے کون سا طرزِ حکمرانی بہتر ہے؟ اگر بن یہ سوال ہم خود سے بھی کریں تو جواب یہی ہوگا۔ کہ جس نظام کو پاکستان کے عوام قبول کریں۔ اور ظاہر ہے جمہوریت سے بہتر طرزِ حکمرانی اور کون سا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ طرزِ جمہوریت کیا ہونا چاہیے۔ صدارتی یا پارلیمانی دراصل یہی وہ گتھی ہے جو ستر برسوں سے سلجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ دونوں تجربات کا بار بار اعادہ کیا جاتا ہے۔ مگر ہر بار مثبت کے بجائے منفی اثرات مرتب ہونے کے بعد معاملات لپیٹ دیے جاتے ہیں۔ اور نئے سرے سے غورو فکر شروع کر دیا جاتاہے۔

فوجی حکمران آتے تو مارشل لاء کا سہارا لے کر ہیں۔ اور کچھ دنوں بعد بیرونی دباؤ سے بچنے کے لیے صدارتی نظام حکومت نافذ کر دیا جاتاہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ تمام صدور طویل عرصے اطمینان سے حکومت کرتے ہیں۔ اور چند سر پھروں کے علاوہ تمام خاص و عام مطمئن بھی رہتے ہیں۔ ہمارے مشاہدے میں تو یہی رویہ دیکھنے میں آیا ہے۔ آپ اس رائے سے اختلاف کا پورا حق رکھتے ہیں۔ معاشی صورتحال بھی بہتر رہتی ہے اور سیاسی لوگ تو جونیجو، چوہدری شجاعت، شیخ رشید اور اسی طرح کے سینکڑوں نام ہیں۔ لاجسٹک سپورٹ کے لیے موجود ہوتے ہی ہیں۔

لیکن جمہوری نظام میں معاملات کچھ عرصہ تو بہتر رہتے ہیں۔ مگر بس یہ چاندنی چار دن کی ہی ہوتی ہے۔ پھر وہی اقربا پروری، کرپشن، لوٹ مار پارلیمنٹ میں تو تو میں میں اور کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے والا ماحول محض عوام کی تفریح طبع کا باعث بن کر رہ جاتا ہے۔ اور یہی پارلیمانی نظام کی اصل ٹریجڈی ہے۔

پارلیمانی نظام میں عوام کے منتخب کردہ نمائندے آ خر ناکام کیوں ہو جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو کسی فوجی صدر کے ساتھ دس سال، آٹھ سال شرافت سے گزار لیتے ہیں۔ وہ منتخب وزیراعظم کے ساتھ انتہائی کم عرصے میں بھی بے چینی کا شکار کیوں ہو جاتے ہیں۔

بہت غور کرنے کے بعد ہم چند ہی وجوہات تلاش کر پائے ہیں۔ صدارتی طرز حکومت اگرچہ فسطائیت کا شکار ہوتا ہے لیکن اپنی انتہائی ڈسپلن ٹریننگ کے باعث لوگوں سے کام کروانے کے ماہر ہوتے بن ہیں۔ اب کوئی اس ڈسپلن کو ڈنڈے کا نام دے تو اس کی مرضی لیکن جو اچھی بات ان ادوار کی ہے اس میں سب سے بہتر عمل مقامی یا بلدیاتی نظام کی مکمل بحالی ہوتا ہے۔ بلدیاتی نظام عام افراد پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ ان کے مسائل تیزی سے حل ہوتے ہیں اور اسی بناء پر لوگ مطمئن بھی رہتے ہیں کہ وہ اپنی پریشانیوں کا تیز ترین حل چاہتے ہیں۔ پھر کونسلر، یوسی ناظم میئر عام عوام کی دسترس میں ہوتے ہیں۔ ان کی گو شمالی نسبتاً آسان ہوتی ہے۔

جبکہ پارلیمانی نظام میں حکومت کا انحصار منتخب نمائندوں پر ہوتا ہے۔ انتخابی حلقے غیر ضروری وسیع ہونے کی بناء پر ممبر صوبائی و قومی اسمبلی عوام کی پہنچ سے دور ہوتے ہیں۔ کچھ پروٹوکول کے نخرے اور منتخب نمائندوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے عام لوگ جلد بددلی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

پارلیمانی حکومت عام طور پر بلدیاتی انتخابات سے اس لیے بھی گریزاں رہتی ہے کہ اس صورتحال میں انھیں اپنا اثرورسوخ کم ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ اور وہ غیر محسوس طریقے سے عوام سے دور ہو جاتے ہیں۔ اس پر ستم وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم صوبوں کے اپنے پنے مفادات، لسانی تقسیم، برادری سسٹم، وڈیرہ شاہی یہ سارے عوامل ایسے ہیں جن کی وجہ سے جمہوری حکومت کمپرومائز ہوتی ہے۔ اکثریت قائم رکھنے کے لیے ناجائز سمجھوتے کرنے پڑ جاتے ہیں۔ اور اس پر سونے پر سہاگہ کے منتخب ہونے والوں کی اہلیت کہ آیا جو ذمہ داری انہیں تفویض کی گئی ہے۔ وہ اسے ادا کرنے کے لائق بھی ہیں یا نہیں۔ سوال چنا جواب گندم والا حال ہے جیسا کہ آ ج کل ہے۔

یہ سارے عوامل یکجا ہو کر پارلیمانی نظام کی درگت بنا دیتے ہیں۔ اور حسب معمول لوگ فوج کے آ نے پر مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں اور ہر بار نئے سرے سے سسٹم پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔

لہذا کیا اس ب بحثیت قوم ہم ایک نئے نظام کے بارے میں سوچیں جس میں ہر طرح کی عصبیتوں سے پاک ایک متحدہ پاکستان دیکھنے کو ملے۔ جس میں ہر فرد کی پہچان صرف پاکستان ہو۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان جدت کو اپناتا ہے۔ تو یہ اصول طرز حکمرانی میں کیوں نہ آزمایا جائے۔ ہو سکتا ہے ہمیں واقعی ایک نئے نظام کی ضرورت ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).