کیوں نہ سب عوام بھی پاکستان سے محبت کا حلف اٹھائیں


آئینِ پاکستان میں موجود نہایت ہی خوبصورت ”تھرڈ شیڈول“ موجود ہے جس میں اعلیٰ و سرکاری منصب پر فائز ہونے والے تمام افراد کے لئے ایمان افروز حلف نامے درج ہیں۔ قانون کی روح سے اس امر کو واضح کر دیا گیا کہ وزیرِ اعظم و صدر سے لے کر وزرا اور قاضی تک، ممبرانِ اسمبلی سے لے کر ایک فوجی تک۔ ہر فرد جو کہ سرکار کی ملازمت میں ہو، لازم ہے کے اپنے فرائض کو انجام دینے سے قبل اپنا اپنا حلف اٹھائے جس کا بنیادی نقطہ یہ عہد ہے کہ وہ ریاستِ پاکستان کا وفادار رہے گا۔ عام فہم میں یوں سمجھ لیں کے تھرڈ شیڈول، آرٹیکل 5 کی عکاسی کرتے ہوئے آرٹیکل 6 کا عین تضاد ہے۔ بلکہ ہر اُس عمل اور فعل کا جس کا متحمل نہ ہمارا معاشرہ ہوسکتا ہے نہ ہی معیشت۔

کمال بات لگتی ہے کہ بائیس کروڑ آبادی والے ملک میں تقریباً 10 سے 15 لاکھ تو ”تھرڈ شیڈول“ کے تحت حلفِ وفا لے لیتے ہیں پھر ہم کثیر عوام سے حلف کیوں نہیں لیا جاتا؟ مانتا ہوں کہ حب الوطنی صرف ایک حلف کی مرہون منت نہیں پر ایمان کی ابتدا اقرار سے ہی ہوتی ہے۔ ہم ہی لوگ باہر کے ممالک کی شہریت حاصل کرتے وقت حلف تو اٹھاتے ہی ہیں، بالکل ویسے ہی، اپنے وطن کا شناختی کارڈ حاصل کرنے والے فارم میں ایک حلف نامے کا خانہ کیوں نہ متعارف کرایا جائے جس پر ہم دستخط کر سکیں؟

پاکستانیوں کے لئے مجوزہ سیونتھ یعنی نیا شیڈول پیش کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے؟ چلیں اور کچھ نہ سہی ایک مستقل احساس ہی سہی۔ وفا کے عہد میں سرکاری افسران اور عہدیداران کے ساتھ عوام کی شراکت ہی سہی۔

یہاں اوروں کی بات چھوڑیں، میں اپنی بات کرتا ہوں۔ جب سے میں نے آنکھ کھولی اور ہوش سنبھالا تو میں ایک آزاد ملک کا آزاد شہری ہی تھا۔ نہ افغانیوں والی خانہ بدوشی تھی، نہ فلسطینیوں کی طرح درپیش ظلم کے پہاڑ۔ نہ کبھی کشمیریوں کی طرح جبر سہا اور نہ ہی شام، لبنان، عراق اور لیبیا کے باسیوں والی دربدری اور نقل مکانی کی کسی صورتِ حال سے دو چار ہوا۔ الحمدللہ۔

نیز یہ کہ جو چاہا، جیسا چاہا۔ کیا، پایا اور ایک آزاد فضا میں سانس لیا۔ پر شاید ایک عرصے تک میں اس احساس کو شکر کم اور حق زیادہ سمجھاتا رہا۔ حق بجانب ہونے کوئی عار نہیں لیکن میرے مطابق اس میں نور بھی چھپا ہے اور نار بھی۔ حق بجانب ہونے کے زعم میں ہم سے کبھی نا انصافی ہو جاتی ہے اور کبھی حق تلفی بھی۔ اسی لئے اس میں احتیاط برتنی چاہیے۔

بے خبری اور بے نیازی کے 17 برس پورے ہوئے تو اٹھارویں سال با آسانی مجھے ایک عدد ”قومی“ شنخاتی کارڈ جاری کر دیا گیا۔ یعنی ریاستِ پاکستان اور میرے درمیان سماجی معاہدہ۔ ہم دونوں یعنی ریاست اور میں، آئین میں موجود شق 4 سے لے کر 28 تک اپنے اپنے فرائض اور ذمے داری قبول کرتے ہیں اور اس کے پابند ہیں۔

یہ بنیادی آزادی بے شک مجھے ورثے میں ملی، سچ کہوں تو ہمیں پلیٹ میں رکھی ملی۔ نہ تو ہم اس عظیم جدوجہد کا حصہ تھے نہ ہی ہمارا وہ جذبہ ہے۔ مگر حق بات یہ ہے کہ اس کی خاطر دس لاکھ سے زائد افراد نے قربانی دی۔ وہ جن کے نام کوئی مورخ بتا سکتا ہے اور نہ ہی کسی کتاب میں درج ہیں۔ بس یادوں اور قصوں میں محفوظ یہ سب ان لوگوں میں زندہ ہیں جن کے آبا و اجداد نے ہجرت کی۔ اُنکے علاوہ، نہایت ادب اور معذرت کے ساتھ، آج ایک کثیر تعداد کے لئے اب یہ سب باتیں محض تاریخ میں رقم شدہ وہ عداد و شمار ہیں یا پھر وہ بنیادی حقائق ہیں جن کی افادیت یا تو آٹھویں جماعت کے امتحان یا پھر 14 اگست اور 23 مارچ کے دن کام آنے والی معلومات سے زیادہ نہیں۔

سیاسی بحث اور تبصرے یا تاریخی پیچ و خم اور غلط فیصلوں کی کہانیاں ایک طرف، میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر واقعی کوئی ایسا حلف ہوتا جو ترانے کی طرح بچپن ہی سے ہم سب کو پڑھایا اور سکھایا جاتا تو کیا پتہ کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد سے آج تک مزید جتنی قربانیاں ہم نے لسانی، مذہبی، علاقائی اور فرقہ وارانہ جھگڑوں کی وجہ سے دی ہیں، شاید اس کی تعداد آج قریب لاکھ ڈیر لاکھ نہ ہوتی؟

اگر نسل در نسل، پاکستان کے طول و عرض میں ہر ایک شہری حلف لیتا تو ہو ہی سکتا تھا کے سب اپنے فرائض اور ذمے داریوں سے باخبر ہوتے؟ اور شاید اس طرح مساوات، عدل، برداشت اور شراکت کے اصولوں پر قائم تمام اکایاں یکساں ملک کی ترقی اور خوشحالی کی جانب ہمقدم ہوتیں؟ صوبوں میں نہ کوئی بڑا بھائی ہوتا نہ ہی کوئی چھوٹا! جہاں صوبہ اور زبان کی آڑ میں تعصب اور احساسِ محرومی کے فریب پر مشتمل سیاست نہ کی جا سکتی؟ حلفِ وفا کے پیکر، سب ایک ہوتے اور جان لیتے کے ہماری اندرونی سرحدیں محض انتظامی نوعیت سے زیادہ کچھ نہیں۔

سب پاکستان کا ہے، اور پاکستان سب کا ہے۔

کل YLC۔ ینگ لیڈرز کانفرنس میں بولنے کا موقع ملا۔ اور یوں باوجود اِس کے کہ پاکستان میں صرف میں نہیں بستا۔ وہ بھی تو میرے دل میں بستا ہے۔ میں نے زندگی میں پہلی بار چار سو افراد کے ساتھ مل کر حلف اٹھایا۔ ہو سکے اور چاہیں تو آپ بھی حلف اٹھائیں اور جہاں جہاں تک آپ کی دسترس ہو، آپ کی آواز پہنچتی یا سنی جاتی ہو، ضرور بتائیں۔ اب بھی دیر نہیں ہوئی۔

اقبال کے اس خوبصورت شعر سے اختتام کروں گا:
تیری نگاہ میں ہے معجزات کی دنیا
میری نگاہ میں ہے حادثات کی دنیا

عجب نہیں کہ بدل دے اسے نگاہ تری
بُلا رہی ہے تجھے مُمکنات کی دنیا
پاکستان زندہ باد!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).