شاہ سائیں پر حملہ کرنے والی کی گرفتاری


غلاموں نے شعر پڑھا۔ ”اماموں نے سرقربان کیا۔ خون دیا۔ ہم بے سمجھ لوگوں کے لئے۔ دامن سیدوں کا پکڑکر جنت کے لئے چلنا چاہے ے۔ “ چو طرف واہ واہ پھیل گئی۔ مریم نے گانا شروع کیا۔ جب تیر چلے معصوموں پر، بلند ہوئیں چیخیں اوپر آسمانوں پر۔ نیر بہائے ان آنکھوں نے، زمینوں پر چیخ و پکار پھیکار گئی۔ ”واہ واہ، واہ۔ کیا سنایا ہے پگلی۔ دل جبر دیا ہے۔ “ پیٹیوالے نے کہا۔

مریم کے گھنگھرو بے سرے، ڈانس بے سرا۔ نہ جھومنا نہ ہاتھ ہلانا۔ سب بے دلی کے انداز، پھیکا پھیکا، زوری زبردستی۔ منہ اترا ہوا۔ آنکھوں میں آنسو چھپے ہوئے۔ نیچے اوپر الفاظ۔ جسم میں ہلکی تپش، جمائیاں۔ جبل شاہ نے مریم کو روپیا دیتے ہوئے خوامخواہ اس کی کلائی کو زور سے پکڑا۔ مریم نے جھٹکے سے کلائی چھڑوائی۔ باجے پر پیسے رکھتے ہوئے وہ آہستہ سے بھنبھنائی ”کمینے اب جا بھی نہیں رہے۔ ایک روپیا، دو، تین، چار، پانچ روپے۔

 آخر محفل کی رونق بڑھتی چلی گئی۔ کچھ تماش بین اور کچھ راگ کے شوقین بھی آگئے۔ شاہ صاحب کے مذاق اور گفتگو پر ہر کوئی گول دائرے میں ہنس رہا تھا۔ شاہ صاحب اپنی طرف سب کو متوجہ پاکر اور آپے سے باہر ہو گئے اور گالی گند میں پڑ گئے۔ چاروں طرف ہنسی، مذاق، ذومعنی گالیاں، قہقہے مگر پھر بھی مریم کا دل ارشو میں اٹکا ہوا تھا۔ کبھی کبھی زبردستی ہونٹوں پر پھیکی مسکراہٹ۔ دھندے کے تقاضے کے مطابق صرف وقت پاس کرنے کی خاطر آنکھوں کی حرکتیں۔ اور یہ نفرت انگیز حرکتیں بڑھتی گئیں۔ بڑھتی گئیں۔ جبل شاہ نے روپے دینے کے بہانے مریم کو چھاتی سے پکڑ لیا۔ وہیں نہ چاہتے ہوئے بھی ایک لمحے کے لئے مریم کی آنکھوں کے آگے ستارے ناچنے لگے۔ سارے میلے میں اندھیرا چھا گیا۔

کسی کو پتا ہی نہ چلا کہ اس نے کیا کیا ہے۔ اس نے تھوڑے ہی وقت میں بہت کچھ کر لیا تھا۔ اس نے واقعی کچھ نہیں کیا تھا، یہ سب اس کے اندر چھپے ہوئے کسی اور نے کیا تھا۔ مریم نے ہتھیلی سے جبل شاہ کے منہ کو اتنی زور سے دھکا دیا کہ وہ نشے میں دھت لڑکھڑاتا ہوا پیچھے کچی قبر پر جاکر گرا اور ناک میں سے رینٹھ بہنے لگی۔ اور اس کا بوسکی کا پٹکا پیچھے جاگرا۔ مگر پیٹی والے نے وہ جھپٹ لیا۔ پھر تو ظلم ہو گیا۔ آسمان ٹوٹ پڑا۔

 ہنگامہ ہو گیا۔ جبل شاہ سے ایسی حرکت، وہ بھی ایک دو ٹکے کی کنجری کے ہاتھوں۔ اتنے لوگوں کے بیچ میں۔ مریم کو ایک چانٹا، دوسرا چاٹنا، لاتیں، گھونسے، منہ پر تھوکنا، بید کی لکڑی سے مارنا۔ سر پر، جسم پر، بال نوچنا، پیٹ میں لاتیں۔ کمر پر لاتیں۔ ”ڈالو بلیاں اس کی شلوار میں۔ کرو ننگا“ شاہ صاحب کے منہ سے رال بہنے لگی۔ سارے بال مٹی میں جسم مٹی میں۔ منہ سفید مٹی میں۔ کسی نے جو چٹیا سے پکڑ کر کھینچا تو لڑکھڑاتی جا کر گری۔ چودہ طبق روشن ہو گئے۔

غلاموں اور واحد و بے بس ولا چار، مریم کو پٹتے دیکھتے رہے۔ اور صرف لاشعوری طور پر اتنا کہتے رہے ”سائیں بس، رحم کرو۔ چھوڑو اس گندی عورت، معاف کو کردو۔ اب بہت ہو چکی۔ اللہ رے اب بس کرو۔ مر نہ جائے۔ ارے دیکھ رہے ہو، بیٹھے بیٹھے! کس بے دردی سے بے زبان کو مار رہے ہیں“ یہ کہتے کہتے غلاموں کی التجا کے ساتھ ہی چیخ نکل گئی۔ اور زار و قطار رونے لگا ”ارے چھاتیاں بھی ہماری عورتوں کی پکڑو اور مارو بھی ہماری عورتوں کو۔ ارے کوئی ہے فریاد سننے والا۔ اللہ رے، یہ تو ظلم ہو گیا ہے۔ دیکھنا ابھی یہ مرجاتی ہے۔ ارے ذلیل! کیوں ہاتھ اٹھاتی ہے وڈیروں پر۔ “

 ”مارو جوتے کنجری کو“ جبل شاہ ہانپتا بھی رہا اور مریم کو مارتا بھی رہا۔ زور زور سے جوتوں سے۔ مریم زمین پر بیٹھی بازو سر کے گرد گول گھما کر سمٹی یہ سب ظلم برداشت کرتی رہی اور کانپتی رہی۔ اس وقت اسے کوئی ہوش نہیں تھا، منہ میں مٹی چلی گئی تھی۔ ہونٹ اور دانتوں میں سے خون بہہ رہا تھا۔ بال مٹی میں اٹے ہوئے، پر وہ ہر بات سے بے نیاز صرف اپنے منہ سے یہ الفاظ کہنے لگی ”سائیں چھوڑدو۔ سائیں اللہ رے۔ ارے چھوڑدو۔

 اب تو۔ دل ڈوب رہا ہے۔ سائیں چھوڑ دو۔ ارے مر جاؤں گی۔ ارے نہ مارو مجھے۔ اماموں کے صدقے چھوڑ دو۔ ارے خدا رسول کا واسطہ چھوڑ دو۔ پنجتن کا واسطہ۔ ارے، میراکوئی والی وارث نہیں ہے تبھی مار رہے ہو۔ میں نے توبہ کی۔ “ اور جبل شاہ کے بازو میں کتنے لوگوں کے ہاتھ تھے۔ کچھ لوگ پیچھے سے لپٹے ہوئے تھے۔ کتنے ہی لوگوں کی آوازیں ایک ساتھ آ رہی تھیں۔ سائیں بس کریں۔ بس سائیں اب چھوڑ دو۔ ارے، یہ سب لوگ دیکھ رہے ہو، چھڑوا دو سائیں سے ورنہ پرائی عورت کا خون ہو جائے گا۔

 سائیں جلالی ہے جلالی۔ غلاموں اور واحدو کے ہاتھ شاہ سائیں کی ٹانگوں اور پاؤں پر تھے۔ غلاموں تو شاہ سائیں کے جوتوں کو چوم رہا تھا اور منتیں بھی کر رہا تھا۔ اتنی چیخ وپکار سے چھوٹا ارشو بھی جاگ اٹھا تھا۔ شاید مریم کے جسم پر پڑنے والے گھاؤ نے ارشو کو جگا دیا ہو۔ ارشو کا رونا چیخوں اور جوتوں کی مار کھاتی ماں کی چیخ و کار کے ساتھ مل کر ایک ہو گیا تھا۔ ٹھیک اسی وقت عشاءکی اذان کی گونج فضا میں بلند ہوئی۔ لوگوں نے جیسے تیسے کرکے جبل شاہ کی گرفت سے مریم کو چھڑایا۔

جبل شاہ نے اپنی کمر سے پستول ٹٹول کر نکالنے کی کوشش کی مگر بازو لوگوں نے قابو میں کر رکھے تھے۔ جاتے جاتے وہ زور زور سے کہنے لگا ”ذلیل۔ دو ٹکے کی رنڈی۔ تجھے ایسے نہیں چھوڑوں گا۔ تیار رہنا۔ “

مریم ایسے ہی گھٹنوں میں منہ چھپائے روتی رہی۔ لوگ آہستہ آہستہ جانے لگے۔ مریم نے اُٹھنے کی کوشش کی مگر پھر کمر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی۔ آنکھیں بند تھیں۔ ارشو روتے روتے چپ ہو گیا تھا۔ آخر مریم نے مجبوری اور بے بسی سے غلاموں کو دیکھا۔

 ”لو، یہ چائے پی لو“ غلاموں نے چھوٹا سا گلاس مریم کی طرف بڑھایا۔ مریم نے صرف اس کو دیکھا اور ارشو کو دودھ پلانے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ہی اس کی چیخ بلند ہوئی۔

 ”اللہ رے، مولا رے، غلاموں! ارشو دودھ نہیں لے رہا۔ منہ نہیں کھول رہا۔ ٹھنڈا ہو گیا ہے۔ لے لے بیٹا۔ لے بیٹا“ مگر ارشو کی آنکھیں ایک طرف لگی رہیں۔ مریم اب سمجھ گئی تھی اور اس کی آنکھیں قبر کی کھدائی محسوس کر رہی تھیں۔ اس نے زور سے اپنی چھاتی سے لگا کر ارشو کو بھینچا جیسے کوئی اس سے ارشو کو چھین نہ لے۔ وہ زاروقطار رونے لگی اور بلند آواز میں بین کرنے لگی۔

غلاموں اور واحدو کی آنکھوں میں آنسو تھے جو ان کی مونچھوں میں بہہ کر اٹک گئے تھے۔ ”تسلی کرو، چھوٹو! ہم سے آخر جدا ہو گیا۔ “ غلاموں کرتے کے دامن سے اپنے آنسو پونچھتا رہا۔ مریم ایک دم چپ ہو گئی۔ اس پر سکتے کی کیفیت طاری تھی۔ دل زور زور سے دھک دھک کرنے لگا۔ دل میں گھبراہٹ ہونے لگی۔ پھر بھی اس نے ہمت کرکے جھک کر ارشو کی سرد پیشانی پر آخری بار بوسہ دیا۔ پھر وہ اپنی جھکی ہوئی گردن اوپر نہ کرسکی۔ آخری ہچکی آئی اور بس۔ غلاموں نے جیسے ہی مریم کو جھنجھوڑا، مریم ویسے ہی ایک طرف لڑھک گئی۔

ایک مردہ جسم، دوسرے مردہ جسم کی پیشانی پر ہونٹ پیوست کیے تھا۔ غلاموں اپنے سر میں مٹی ڈال رہا تھا اور بال نوچ رہا تھا۔ اس کے قریب ایک صوبے دار اور دو سپاہی کھڑے تھے۔ ”ارے، وہ کون سی عورت ہے جس نے شاہ سائیں پر قاتلانہ حملہ کیا اور لوٹ مار کی کوشش کی ہے؟ “

غلاموں نے مریم اور ارشو کی لاشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”سائیں، یہ ہیں۔ گرفتار کر لو۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2