عراقی تیل کو طوائفوں اور فاحشاؤں سے کیوں نہ بچایا جا سکا؟


یہ 2008 ہے۔ جنگ ختم ہونے کے باوجود امریکی افواج عراق کے چپے چپے پر بیٹھی اِسے خون میں نہلا رہی ہے۔ میرا جنون جیسے مجھے اڑا کر وہاں لے گیا تھا۔ دعاؤں کے پلندے ساتھ تھے۔ شاید اسی لیے افلاق جیسا کیمیکل انجنئیر جنگ کا زخم خوردہ ٹیکسی ڈرائیور کی صورت خدانے مجھے ٹکرا دیا تھا۔

گزشتہ رات جب ہم سعدون سٹریٹ سے گزرتے تھے۔ دفعتاً وہ سوال لبوں پر آیا کہ آخر عراقی فوج پیشہ ورانہ تربیت کے لحاظ سے اتنی ماٹھی نہ تھی اور جدید ہتھیاروں سے بھی لیس تھی تو پھر اتنی جلدی بغداد ڈھے کیسے گیا؟

افلاق میری طرف دیکھے بغیر بولا۔

پہلی بات امریکی ڈالروں میں بہت کشش ہے اگر ایمان کمزور ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ماشاء اللہ سے مسلمانوں میں غدّاروں کی کبھی کمی نہیں رہی۔ دوسرے حکمران بھی کچھ اتنا پسندیدہ نہ تھا۔ میرے خیال میں اہم بات ہمارے صحرائی کنوئیں بڑی کشش کے حامل تھے۔ انہیں فاحشاؤں اور طوائفوں سے سمجھداری اور دانائی سے بچایا جا سکتا تھا جس کی بہرحال ہمارے پاس اشد کمی تھی۔ یہ تو موٹی موٹی باتیں ہیں۔ تفصیلی اندرونی کہانیاں اگر سُننی ہیں تو ذرا دلیری اور جی داری کی ضرورت ہے جو میرے خیال میں آپ میں ہے۔ فوج کے ایک ریٹائرڈکرنل جو صدام کی خصوصی انٹیلی جنس سیل میں بڑا معتمد تھا سے مِل لیجئیے سوالوں کے جواب تفصیلات کے ساتھ مِل جائیں گے۔

”خطرے والا معاملہ ہے کیا؟ “ میں نے اندر کی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے کہا۔

”نہیں پر القاعدہ اور دیگر عسکری گروپوں کے ساتھ ہمدردیاں تو ہیں نا اُن کی۔ “

رات کو ہوٹل کے ریسپشنسٹ مروان سے صدر سٹی جانے کی بات ہوئی۔

”وہاں جانے کی غلطی مت کریں۔ بغداد کا خطرناک ترین علاقہ جہاں ہمہ وقت گیارہویں عراقی آرمی ڈویژن گردش میں رہتی ہے۔ کنکریٹ کی لمبیSeparation Walls نے اُسے بقیہ بغداد سے الگ کررکھا ہے۔ چیک پوسٹوں پر بخئیے اُدھڑتے ہیں۔ سب سے زیادہ جانی نقصان وہاں ہوتا ہے۔ آئے دن بم بلاسٹ ہوتے ہیں۔ “

ساری رات خدشات کی گھمن گھیریوں میں گزار کر بھی میں وہاں جانے سے باز نہ رہ سکی تھی۔

بغداد جنگ سے پہلے

علاقہ ملا جلا تھا۔ بہت خوبصورت گھروں اور پارکوں والا اور ماٹھا سا بھی۔ گرین زون پر زیادہ حملے یہاں سے ہوئے اور مزاحمت موثر ترین بھی اسی علاقے سے ہوئی۔ وجہ اتحادی افواج کا بصرہ پر قبضہ اور اس کی بربادی تھی۔ مقتدری الصدر گروپ کا ترجمان اخبارAl۔ Hawza  کا بند کرنا بھی تھا۔

پچاس پچپن کے ہیر پھیر میں جس نے استقبال کِیا تھا وہ بصیرالحانی پہلے آرمی میں کرنل تھا۔ وہاں سے صدام کی خفیہ ایجنسی میں بھیجا گیا۔ جنگ کے دنوں میں گرین زون میں تھا۔ سچا اور کھراعراقی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا انسان بھی تھا۔ کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا کرنے اور کوئی بڑا جھپا مارنے کی بجائے سادگی سے اپنی جگہ کھڑا گردش لیل و نہار دیکھتا اور صرف یہ سوچتا تھا کہ وہ جاہ جلال، وہ دبدبہ، وہ کروفّر سب کیسے خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے ہیں۔ یہاں پرندہ پَر نہیں مارسکتاتھا۔

اس عمرکے دوسرے بندے کا نام فارس مہدی تھا۔ امریکہ سے ایرو ناٹیکل انجنیرنگ میں تربیت یافتہ۔ پہلے جماعت الفاتحین میں شامل مزاحمت کی تاریخ مرتب کر رہا تھا۔ بعد میں القاعدہ میں شامل ہوگیا۔ روس امریکہ جنگ میں جہاد کے جذبوں سے لدا پھندا پاکستان پہنچا تھا۔ پشاور حیات آباد میں تین ماہ کے تربیتی کورس میں شامل ہوا۔ آئی ایس آئی کے چند افسروں کے نام بھی اُس نے لئے جن سے اُس کی دوستی تھی۔

عراقی فوج کے بارے میں جو میری معلومات تھیں اُن ہی کی روشنی میں میرا سوال ہوا۔ بصیر الحانی نے میرے تاثرات اور اندازوں کی نفی کی۔

”سیٹلائٹ ٹیکنالوجی اور انتہائی جدید ہتھیاروں سے لیس عراق میں داخل ہونے والی فوج تقریباً پونے تین لاکھ تھی۔ اس کا بھلا ایک ایسی فوج سے مقابلہ کیونکر ممکن تھا جو اسلحے اور تربیت کے لحاظ سے بہت کمتر تھی۔ خلیجی جنگ نے بھی خاصا نقصان پہنچایا تھا۔ تاہم پھر بھی اگر غدارّی جیسا اہم عنصر نہ ہوتا تو یقیناً آنے والوں کوفوری سبق مِل سکتا تھا۔

میں آج تک اِس بات کا تجزیہ نہیں کر سکا کہ صدام کو آخر اپنی کِس فوجی قوت پر نازتھا؟ جنگ سے کافی پہلے عراق کے فوجی تجزیہ نگاروں نے اپنی رپورٹوں میں بھی یہ واضح کر دیا تھا۔

مجھے وہ میٹنگز یاد ہیں۔ سینئر عراقی فوجی افسروں کے ایک جنرل نے کہا ”سر! سی آئی اے کے پاس ہماری فوج کے بارے میں بہت اہم معلومات ہیں۔ فوج میں خریدو فروخت ہو رہی ہے۔ ہماری منصوبہ بندیاں، تیاریاں، حفاظتی انتظامات اُس معیار کے نہیں ہیں جو ایک بڑے دشمن کا مقابلہ کرسکیں۔

ایک کرنل نے یہ اظہار بھی کردیا۔ ”آپ عراق سے محبت کرتے ہیں۔ اِس محبت کا تقاضا آپ کی حکومت سے علیحدگی ہے۔ “

عراق بچ سکتا تھاپر ہٹ دھرمی اور انا پرستی نچلا بیٹھنے ہی نہ دے رہی تھی۔ تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے جو ہمارے ساتھ ہوا۔

ڈھائی کروڑ آبادی والے مُلک کی باقاعدہ فوج کوئی چار لاکھ کے قریب ری پبلیکن گارڈز بھی، ریزرو فوج بھی۔ ہر شہری لازمی دو سالہ فوجی تربیت کا ٹرینڈ، ہر گھر میں چھوٹا موٹا اسلحہ موجود، تو مدافعت شاندار طریقے سے کیوں نہ ہوئی؟ ”

تومیں داستان سُنتی تھی اِس اتنی جلدی ڈھے جانے کی فارس مہدی سے۔

”بغداد نے کیا مزاحمت کرنی تھی۔ آپ کا دشمن عیار، ذہین، ہر کام کی وقت سے پہلے منصوبہ بندی کرنے والا۔ گلف وار میں اُس نے آئل ریفائنریوں، واٹر سپلائی پائپ لائنوں، بجلی گھروں اور مواصلات کو تباہ کردیا تھا۔ کیونکہ اس کے پروگرام میں قبضہ شامل نہیں تھا۔ گواس میں بھی کوئی شک نہیں کہ خلیجی جنگ کے بعد بحالی کا کام ہنگامی بنیادوں پر ہوا۔ بغداد کو دیکھ کر کوئی کہہ نہیں سکتا تھاکہ اس کی اینٹ سے اینٹ سے بجانے کی کوشش ہوئی تھی۔ اگر ڈیفنس منسٹری کی عمارت کو نہ دیکھا جاتا جو ابھی بھی اسی حالت میں ہے۔

لیکن جب وہ قبضے کی نیت سے آئے تو ایسی ہر چیز کو بچایا گیا جس کی انہیں ضرورت پڑنی تھی۔ بجلی پوری طرح موجود تھی۔ دجلہ کے کسی پل کو ٹارگٹ نہیں کیا گیا۔ ریڈیو اور ٹی وی ا سٹیشن کام کرتے تھے۔ کہیں ہلکا پھلکا سا چھینٹا لگایا گیا ہوگاوگرنہ احتیاط کی گئی۔

فوج کے سرکردہ لوگ بِکے۔ ری پبلیکن گارڈز بِکے۔

دفعتاً انہوں نے مجھ سے پوچھا ”آپ بغداد کے کِسی اسپتال میں گئیں۔

میں نے بتا یا کہ بغداد آتے ہی اسپتالوں میں جانے اور اُن زخموں کو دیکھنے کے لئے میں جتنی زیادہ پرجوش تھی۔ ایرموک اسپتال اور المنصورPediatric اسپتال میں ایک ایک بار کی وزٹ نے مجھے اِس درجہ مضطرب اور بے چین کیاکہ میں نے مزید اسپتالوں کا رُخ نہیں کیا۔ میں نے Lymphatic Cancer، ٹیڑ ہی میڑھی ٹانگوں، پھولے پیٹوں، مدقدق چہروں، بجھی آنکھوں اور ٹیڑھے میڑھے ہاتھوں والے بچوں کی اکثریت دیکھی تھی۔ میرے تو آنسو خشک نہ ہوتے تھے۔ نسلیں تباہ کردی ہیں بدبختوں نے۔

دُکھ سے لبالب بھرا بڑا لمبا سانس تھا جو اُس نے بھرتے ہوئے کہا تھا۔

”یورینیئمUranium شیلوں کی بھر مار نے ماحول کو، زمین کو اور پانیوں کو زہر آلود کردیا ہے۔ اب غریب لوگوں نے اُس زمین میں آلو، ٹماٹر پیاز تو اُگانے ہیں۔ کھانے بھی ہیں اور شکار بھی ہونا ہے۔ اب اِس صدر سٹی کا حال سُن لیجئیے جہاں بم شیلنگ نے بڑے بڑے گڑھے پیدا کردیے ہیں۔ پینے کے پانی اور سیوریج کے پائپوں میں سوراخ ہوجانے سے دونوں کے پانی مل گئے ہیں۔ اب زہر پیا جارہا ہے۔ کرفیو لگتا ہے تو کھانے پینے کی چیزیں مارکیٹ سے غائب اور اگر کچھ ملتا ہے تو دس گنا زیادہ قیمتوں پر۔

ایسے میں عراق کی ماہر سائنس دان مائیکرو بائیولوجی میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہدا مہدی اماش جب اس پر آواز اٹھاتی تھی اِس ثبوت کے ساتھ کہ عراقی فصلوں اور بچوں میں یہ بیماریاں کبھی پہلے نہیں تھیں جتنی خلیج کی جنگ کے بعد ہوئی ہیں تو اسے گرفتار کرلیا جاتا ہے اِس الزام کے ساتھ کہ وہ صدام کے Biological Weapons Program کے سر کردہ لوگوں میں سے ہے۔ یہی سلوک ہماری دوسری سائنس دان ڈاکٹر رہاب طہٰ Rihab Taha کے ساتھ ہوا۔

اُن کی گھناؤنی حرکتیں دیکھیں تو ہم بیچارے بڑے معصوم نظر آتے ہیں۔ سوال تو بہت سارے پوچھے جا سکتے ہیں۔ جائز اعتراضات کی بھی ایک لام ڈور ہے کہ آخر یہ کیمیائی مواد صدام کے ہاتھ بیچا کیوں گیا؟ اُسے گیس بنانے کی اجازت کیوں دی گئی؟ کردوں اور ایرانیوں کا تخم مارنے کے لئے کہ شاہ ایران کے بعد انہیں مشرق وسطیٰ میں اپنے مطلب کا بندہ چاہیے تھا۔

دسمبر 1998 میں امریکہ اور برطانیہ کے فائٹر جہازوں کے پورے پورے

سکورڈن شمالی اور جنوبی عراق کے نوفلائی زون پر کثرت سے پروازیں کرتے تھے۔ جوابی عذر میں اِن علاقوں کے کُرداور شیعوں کی صدام سے مخالفت اور عتاب سے محفوظ رکھنے کا بہانہ تھا۔ لیکن اقوام متحدہ آفس کی عراق کے لئے نامزد Humanitarian coordinator کی رپورٹ تھی کہ گائیڈڈ میزائل گرنے سے بصرے میں بیسوؤں لوگ مرے اور زخمی ہوئے۔ اب پنٹاگون بکواس کرے کہ ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی تو بندہ اِن جھوٹوں کے لئے کیا کہے۔ تُرکی عراق کے شمالی کُردوں پر اسی نوفلائی زون سے بمباری کرتا ہے تو خاموشی۔ ترکی امریکہ کاحلیف ہے نا۔

کتنے دہرے تہرے معیار ہیں اِن بڑی طاقتوں کے۔

”موجودہ حالات کو کِس تناظر میں دیکھتے ہیں۔ “

”بہت بکھیڑا ہے یہاں۔ نہ شیعہ متحد ہیں، نہ سُنّی اور نہ کُرد۔ گروپوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے۔

اب ان اختلافات سے وہ فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ سیاسی تنظیموں کو استعمال کِیا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).