چٹنی، لسی اور تندور کی روٹی


خیر ہم مربعے ( پچیس ایکڑ اراضی کو مربع کہا جاتا ہے اور ایکڑ میں 8 کنال زمین ہوتی ہے ) پہنچے مجھے نظر تو کچھ آنہیں رہا تھا سو تائی نے ہی ہاتھ پکڑ کر ٹانگے سے اتارا۔ اس وقت خالہ نے میری آنکھوں پہ دھوپ والی عینک لگادی اور ہنستے ہوئے بولیں۔ ”توبہ ہے تم تو بالکل اندھی ہی ہوگئی دھوپ سے۔ میں نے دیکھ لیا تھا کہ تم گھر کے صحن میں بھی ادھر ادھر ٹکریں مار رہی تھی۔ ماسی یہ دھوپ۔ میں آنکھیں بند کیے چل رہی تھی گھر میں تو میں نے اس کی عینک اٹھالی کہ اسے تو دھوپ۔ میں نظر ہی کچھ نہیں آتا“ خالہ نے چلتے چلتے تائی سے باتیں شروع کردیں۔ تائی نے پلٹ کر مجھے دیکھا اور ایک دم سے رک۔ گئیں۔ ”ہائے کہیں یہ بھوری بچی تو نہیں وہ ولیت ( ولایت) سے جو گوگا آتا ہے نا اس کے بچے ایسے ہی ککے ککے سے ہیں۔“ خالہ زور زور سے ہنسنے لگیں۔ مجھے سمجھ نہ آئی کہ یہ ککے بچے کون سے ہوتے ہیں لیکن خالہ کی بے اختیار ہنسی سے اتنا تو اندازہ ہوگیا کہ تائی کو میری بینائی کی فکر پڑگئی تھی۔

دھوپ والی عینک لگانے کے بعد ارد گرد جائزہ لیا تو کھیتوں میں ابھی گندم ہری تھی اور دور دور تک سبز رنگ کے مکس شیڈز والی فصلیں لہرا رہی تھیں۔ کھالوں ( پانی کی نالیاں ) کے ساتھ ٹالی اور کیکر کے درختوں کی قطار ٹاری ( کچا عارضی مکان) تک جارہی تھی۔ ہم چلتے چلتے جب ٹاری کے پاس پہنچے تو خالو اور تایا جی کدال بیلچے سے کھالے کی صفائی میں مصروف تھے۔ وہ یہیں ٹاری پہ رہا کرتے تھے کیونکہ یہ دن ان کی باری تھی پانی لگانے کی۔ میری صرف اسی روز ملاقات ہوئی تھی جس روز آئی تھی اس لیے آج جب دیکھا تو میں زور زور سے ہاتھ ہلانے لگی اور خوشی میں پگڈنڈی پہ بیلنس نہ رکھ سکی اور تھڑپ سے کچے کھالے میں جاگری۔ خالو بھاگے اور مجھے مزید گارے سے لت پت ہونے سے بچانے کے لئے تقریبا اٹھا کر باہر لے آئے۔ تائی تھوڑی پہ انگلی رکھے حیران سی کھڑی تھیں اور بے اختیار ان کے منہ سے نکلا ”ہائے نی فریال! اے کڑی تے ککی اے“ خالہ اس وقت تک سر سے سامان اتار چکی تھیں۔ تائی کی اس بات پر وہ اور تایا ہنسنے لگے۔ خالو بچارے میرے گرد لپٹی چادر الٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے جو پوری کیچڑ سے لت پت تھی البتہ میرے کپڑے بچ گئے صرف ہاتھ کیچڑ سے بھرے ہوئے تھے۔ تھوڑے فاصلے پر ٹاری اور اس کے ساتھ ٹیوب ویل تھا۔ خالہ نے کہا کہ منہ ہاتھ دھو لو تو پھر درختوں کے نیچے بچھی چارپائیوں پہ آجانا تاکہ اکٹھے کھانا کھائیں۔

خالہ اور خالو باتیں کرتے گھر میں چلے گئے جبکہ تایا جی ہاتھ منہ دھو کر چارپائی پہ بیٹھ گئے۔ مجھے ٹیوب ویل کا ٹھنڈا پانی دعوت دینے لگا اور دل چاہا کہ اس حوض میں چھلانگ لگا دوں۔ اور پھر کچھ دیر کی کشمکش کے بعد میں نے اس چار فٹ گہرے حوض میں چھلانگ لگا دی۔

تائی چلاتی ہوئی بھاگیں۔ اندر سے خالہ اور خالو بھی بھاگتے ہوئے پہنچے کہ شاید میں پھر پانی میں گر گئی لیکن جب مجھے ٹھنڈے ٹھنڈے پانی میں اچھلتا کھودتا دیکھا تو تائی نے ماتھے پہ ہاتھ مارا۔ ”پتر تونے تو میری جان نکال دی سوچا فیر گر گئی“ خالو مسکراتے ہوئے پلٹ گئے اور خالہ میرے پاس آکر بولیں۔ ”اب یہ جو کپڑے گیلے کرلئے نا۔ ان کو سکھاؤ گی کیسے؟“ اس لمحے مجھے احساس ہوا کہ میں تو کپڑے جوتے پہنے کود گئی پانی میں۔ کوئی بات نہیں خالہ میں یہاں بیٹھ کر سکھالوں گی سب۔ خالہ کو تسلی دی لیکن پھر کچھ دیر بعد اپنی غلطی کا احساس ہوگیا جب پانی سے باہر نکلی اور تایا جی کے سامنے جانے سے پہلے خود کو سکھانا پڑا۔ خالہ نے مجھے بھیگی بلی کی طرح حوض کی دیوار پہ بیٹھے دیکھا تو میرے پاس آکر بیٹھ گئیں۔ ہم باتیں کرتے رہے ہوا۔ تیز دھوپ نے چند منٹوں میں کپڑے سکھادیے تو ہم کھانے کے لئے چارپائی پہ جابیٹھے۔

پہلی بار میں نے تندور کی روٹی چٹنی اور لسی کے ساتھ کھانے کا تجربہ کیا۔ ایسا لذیذ کھانا پہلے کبھی نہ کھایا تھا۔ تایا جی نے بتایا کہ گاؤں میں گرمی کی شدت کے سبب لوگ تیل میں پکے کھانوں سے اجتناب کرتے ہیں کیونکہ ایسے مرغن کھانوں سے بدن کو گرمی آتی ہے۔ خالو بولے کہ ایک تو ہم جیسے ہیں جو سالن روٹی کھا سکتے ہیں اور جان بوجھ کر چٹنی لسی کو اہمیت دیتے ہیں لیکن یہاں ایسے بہت سے ہیں جن کے وسائل چٹنی لسی کے بھی نہیں۔ خالو کی باتیں سن کر پھر دکھ ہونے لگا کہ آخر ہم اپنے ملک کے دشمن کیوں بنے ہیں؟ کیوں ہنر مندوں کے لئے ایسے مواقع پیدا نہیں کرتے جن سے ان کی کارکردگی بڑھے اور ملک کو بھی ترقی ملے۔

خالہ نے برتن اٹھا کر دھونے شروع کردئے اور تائی جی نے اچار (گھر میں تیار کیا گیا) اور گھر کا مکھن اٹھا کر پانی پہ رکھے مٹی کے برتن میں رکھ دیا جو قدرتی طور پر فریج کا کام کرتا ہے گرمیوں کے موسم میں۔

وہاں شام تک رکنے کے بعد جب ہم گھر واپس آئے تو خالہ کے بچے جو صبح شہر گئے تھے واپس آچکے تھے اور اب تائی جی سے میری داستان ککا پن سن کر لوٹ پوٹ ہورہے تھے۔

مجھے لگتا ہے کہ گاؤں میں گزارے ایک دن کو آج تک بھول نہ پائی تو جو ہمارے بزرگ شہروں میں آگئے وہ کیسے ان بند گھروں میں سانس لیتے ہوں گے؟ جو محض اس لئے اپنا ٹھکانہ چھوڑ آئے کہ ان کے بچے اب گاؤں میں رہنا نہیں چاہتے اور بچے رہیں بھی کیوں؟ ستر سال گزر گئے پاکستان میں ماسوائے بڑے شہروں کے ان چھوٹے گاؤں قصبوں کو بنیادی سہولیات کسی نے فراہم نہ کیں۔ ہسپتال نہ بنائے گئے کالج اور یونیورسٹیوں کے لئے طلبہ کو دوسرے شہروں کی طرف جانا پڑتا ہے۔ سڑکیں اس قابل نہیں کہ ایمرجنسی میں کسی کو بروقت ہسپتال لے جایا جاسکے تو کیوں نہ دیہات ویران ہوں اور لوگ شہروں کا رخ کریں۔

میں سالوں بعد۔ جب پھر گاؤں گئی تو وہاں کوئی نہ تھا۔ سب شہروں کو جا بسے۔ جو رہ گئے انہوں نے زمینیں ٹھیکے پر دوسروں کو دے دیں کہ بس ہمیں لم سم رقم دے دیا کرو۔ وہ لوگ خود بھی شہروں کو جاکر اناج خریدتے ہیں۔ مجھے دکھ ہے کہ گاؤں کے وہ دن لوٹ نہیں سکتے میں چاہوں بھی تو میرا گاؤں مجھے واپس نہیں مل سکتا۔

کسی نے خوب کہا تھا کہ
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کشتی وہ بارش کا پانی۔
بس۔ مجھے بھی وہ لسی وہ چٹنی وہ تندور کی روٹی وہیں ٹالی کے نیچے ٹیوب ویل کے پاس اپنوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2