کیا سپریم کورٹ کے ججوں کو 2007 ء میں غیراخلاقی وڈیوز سے بلیک میل کیا گیا تھا؟


برطانوی جریدے ”دی ٹائمز“ نے 2007 ء میں ایک خبر شائع کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان کی کچھ ایجنسیوں نے گھناؤنی چالیں چلتے ہوئے پاکستان کی سپریم کورٹ کے کچھ جج صاحبان اور ان کے بچوں کی خفیہ ویڈیو ریکارڈ کیں جس میں انہیں عاشقوں اور طوائفوں کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دیکھا جا سکتا تھا۔ خبر میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ ویڈیوز 11 میں سے 3 ججوں کو ستمبر 2007ء میں بھیجی گئیں کیونکہ وہ اس بات کا فیصلہ کرنے والے تھے کہ آیا جنرل پرویز مشرف آرمی چیف کی حیثیت سے صدر مملکت کا انتخاب لڑنے کے قابل تھے۔

ایک ویڈیو میں دکھایا گیا تھا کہ ایک جج اپنی نوجوان داشتہ کے ساتھ ہیں جبکہ دوسری ویڈیو میں ایک جج صاحب کی بیٹی اپنے عاشق کے ساتھ جنسی عمل میں مصروف تھی۔ جریدے نے ایک برطانوی بیرسٹر کے حوالے سے بتایا کہ ”یہ واضح پیغام تھا“۔ اس بیرسٹر کو پاکستانی ہم منصب نے ویڈیو ٹیپ کے بارے میں بتایا تھا۔ ”اگر آپ نے غلط فیصلہ دیا تو یہ ویڈیو ٹیپس جاری کر دی جائیں گی اور آپ کا خاندان تباہ ہو جائے گا۔

”ناپسندیدہ فیصلہ آنے کے ڈر سے پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی جس کی وجہ سے ملک بحران کا شکار ہوگیا۔ اخبار نے بتایا کہ اگرچہ پرویز مشرف نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ملک پر انتہا پسندوں کے قبضے کو روکنے کے لئے یہ اقدام کیا، لیکن ان کا بنیادی ہدف عدلیہ تھی۔ خبر میں مزید بتایا گیا تھا کہ کوئی جہادی لیڈر گرفتار نہیں ہوا بلکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور 11 میں سے 8 دیگر ججوں کو عہدے سے برطرف کر دیا گیا اور آئین کو معطل کر دیا گیا۔

خبر میں مزید بتایا گیا تھا کہ گزشتہ ہفتے ایمرجنسی نافذ کیے جانے کے بعد سے، پرویز مشرف نے ملک کے سینئر ترین جج اور حقوق انسانی کے سرگرم کارکنوں کو نظر بند کر رکھا ہے۔ وکلاء احتجاج کر رہے ہیں اور ریلیاں نکال رہے ہیں اور سیکڑوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ معزول ججوں کی جگہ دوسرے جج لگا دیے گئے ہیں جنہوں نے پرویز مشرف کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھایا ہے۔ مغربی سفارت کاروں کا کہنا تھا کہ یہ پرویز مشرف کے انٹیلی جنس چیفس تھے جنہوں نے مایوس کن حالات میں مشورے دے کر انہیں یہ ماننے پر مجبور کیا کہ سپریم کورٹ انہیں صدر بننے سے روکنے والی ہے۔

 لیکن ممکن ہے کہ یہ غلط معلومات ہو۔ اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی ججز کالونی میں اپنے گھر میں نظربند سپریم کورٹ کے جج جسٹس رانا بھگوان داس کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھی کسی فیصلے پر نہیں پہنچے۔ دیگر کا دعویٰ تھا کہ ججز انتہائی سخت مارجن کے تحت پرویز مشرف کے حق میں فیصلے دینے والے تھے، جس سے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ ان کے خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں کہیں عدم استحکام نہ آ جائے۔ ایک ریٹائرڈ جرنیل کا کہنا تھا کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ 5 کے مقابلے میں 6 ججز کا فیصلہ آئے گا جس میں مشرف کے دوبارہ الیکشن کی حمایت کی جائے گی۔

 اخبار نے نامعلوم سرکاری اور سپریم کورٹ کے عدالتی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ ایمرجنسی کے نفاذ سے چند ہفتے قبل ججوں کے خلاف قابل اعتراض مواد اکٹھا کر نے کے لئے خفیہ کیمرے استعمال کیے جا رہے تھے۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ جس خاتون کا سپریم کورٹ کے جج کے ساتھ افیئر چل رہا تھا؛ اس کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ ہم یہ جان کر برباد ہو گئے ہیں کہ خاتون کی خلوت میں کی گئی حرکات کی ویڈیو ریکارڈنگ کی گئی۔

 خبر میں بتایا گیا تھا کہ، عدالتی ذرائع کے مطابق، کئی ججز ایسے تھے جنہوں نے لوگوں کو قانونی مشاورت فراہم کی تھی جس کے عوض ان ججوں کو ان نجی کلائنٹس کی طرف سے ادائیگی کی صورت میں طوائفیں پیش کی گئیں۔ اخبار میں بتایا گیا تھا کہ ایک مخصوص انٹیلی جنس ایجنسی ججوں کے پاس لڑکیاں بھجواتی تھی جن سے ججز لطف اندوز ہوتے تھے اور انہیں یہ علم ہی نہیں ہوتا تھا کہ ان کی ویڈیو ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ اخبار کے مطابق، اب ان کے پاس کئی ججوں کی ایسی ویڈیوز موجود ہیں۔

 دی ٹائمز میں بتایا گیا تھا کہ چیف جسٹس خود بھی بدنام کیے جانے کی ایسی ہی ایک علیحدہ مہم کا نشانہ اس وقت بنے جب حکومت نے مارچ 2007ء میں انہیں برطرف کرنے کی کوشش کی تھی۔ ایسے حلف نامے تھے جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو بہترین سرکاری ملازمت دلوانے کے لئے اپنا اثر رسوخ استعمال کیا۔ ان میں ایک ایسا خط بھی شامل تھا جس سے جنسی  کجروی کا اشارہ ملتا تھا۔ جولائی میں افتخار چوہدری کی بحالی اور مشرف کی پسپائی سے کچھ وقت قبل اس خط کو “اسکینڈل زدہ” قرار دے کر مسترد کیا گیا تھا۔

 پرویز مشرف کے زمانے میں ان سے قربت رکھنے والے ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر سے بات کی گئی تو اس نے کہا کہ یہ سب غلط اور بہتان ہے۔ مغربی میڈیا اس وقت پرویز مشرف کے خلاف ہوگیا تھا اس لئے اس نے اس قسم کی جھوٹی باتیں کیں۔ پرویز مشرف نے کبھی اس قسم کے غیر اخلاقی کام نہیں کیے۔ اس طرح کی باتیں کرنے کا مقصد قابل احترام ججوں کو بدنام کرنا اور پاکستان کے اداروں کو کمزور کرنا ہے۔

 انگلینڈ کے اتنے بڑے اخبار اور مقامی میڈیا میں بھی ایسی باتیں آئی تھیں تو انہیں چیلنج کیوں نہیں کیا گیا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ غیر ملکی میڈیا ہمارے اختیار میں نہیں، ویسے میڈیا کا حق ہے کہ وہ لکھے لیکن ہر بات کو چیلنج نہیں کیا جاتا۔

 (بشکریہ روز نامہ جنگ : انصار عباسی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).