آئم ناٹ سپوزڈ ٹو ٹیل یو دِس


اس نے ماتھے سے پسینہ پونچھا اور بولا!

جناب مہنگائی بہت ہو گئی ہے منڈی سے جب ملتا ہی مہنگا ہے تو ہم دیہاڑی دار کس طرح سستا بیچ سکتے ہیں؟

میں کچھ بولنے ہی لگا تھا کہ بات کاٹی اور بولا!

سر ملکی معیشت میں جب تک استحکام نہیں آتا چیزیں مسلسل مہنگی ہوتی رہیں گی یہاں تک کہ قوتِ خرید اس حد تک متاثر ہو گی

دو وقت روٹی کمانی بھی مشکل ہو جائے گی۔ اور اگر اس روٹی کی دوڑ میں کسی کے گھر بیماری آ گئی تو یہ صورتحال اس کے لئے قیامت سے کم نہیں ہو گی۔

ڈالر کو بھی وقفے وقفے کے جھٹکے سے پَر لگتے رہیں گے۔

اب کی بار اس کے لہجے میں کچھ تُرشی تھی۔

لمبی بین الاقوامی تبدیلیوں کی تمہیدباندھ کر ریڑھی بان نے اپنی آسان زبان میں مجھے افراطِ زر سمجھانے کی کوشش کی۔

اور سوالیہ انداز میں کندھے اچکائے۔

گویا پوچھ رہا تھا کہ کچھ بات پلّے پڑھ رہی ہے کہ نہیں؟

وہ بولا

صاحب سادہ سا نسخہ ہے صنعت کا پہیہ چلے گا تو روزگار پیدا ہوگا۔ بے روزگار محنت کرے گا تو ہم سینکڑوں چھوٹی چھوٹی اشیاء کی درآمدگی بند کر سکیں گے تب ہماری ایکسپورٹ بھی امپورٹ سے نظریں ملا سکے گی۔

ہم کماتے کم ہیں لگاتے زیادہ۔

ہم جو ریونیو سال بھر میں اکٹھا کرتے ہیں۔ پرانے قرضوں کا سود دے کر ہمارے کُل ریونیو میں سے نصف سے بھی کچھ کم ہمارے پاس بچتا ہے۔ بچی کھچی رقم میں سے اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو دے کر وفاق کے پاس ٹھینگا رہ جاتا ہے۔ اور پھر ہم سارا سال قرضے مانگ کر وفاق چلاتے ہیں۔

اب کی بار تُرشی کے ساتھ ساتھ اس کے لہجے سے پریشانی بھی نمایاں تھی۔ کچھ لمحے رُک کر اس نے ہوا کا گولا نِگلا اور پھر موضوع پر لوٹ آیا۔

یہی سائیکل ہم کئی عشروں سے چلا رہے ہیں اور ہر بار ہم خود کچھ نہیں کرتے بلکہ پیر سے بیٹا مانگنے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔

میں نے ہنسی دبا کر کچھ کہنا چاہا۔

مگر اس نے بات جاری رکھ کر گویا اشارہ دیا کہ اہم بات ابھی گوش گزار ہونا باقی ہے اس لیے اپنی توجہ تقسیم مت کرو اور دھیان سے سنو!

میں ہمہ تن گوش ہوا۔

وہ پھر گویا ہوا۔

ہم جب تک اچھی عوام نہیں بنتے اچھے حکمران بھی نہیں ملیں گے۔

ہم منزل چھوڑ کر رہبر کے پیچھے ہو جاتے ہیں۔

ہمیں مستقبل سے زیادہ ”ڈَنگ ٹپانے“ کی فکر رہتی ہے۔

ہمیں راتوں رات امیر ہونے کے خبط سے جان چھڑانی ہو گی۔

قومیں محنت سے اوپر جاتی ہیں جبکہ ہمیں ہمیشہ معجزوں کی تلاش رہتی ہے۔

ہمارے معاشی ماہرین پرائم ٹائم میں بیٹھ کر ”اگر سونا نکل آیا“ اگر تیل نکل آیا ”اگر گیس نکل آئی“ پر گھنٹوں معیشت خیالی طور پر مستحکم کرتے ہیں اور چند ماہ بعد مایوسی سے پھر نئے آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کے فوائد گنواتے ہیں۔

ریڑھی بان نے اپنی بات کی سند میں پانچ قوموں کی مثال دیتے (جو کئی دہائیوں سے ان مسائل سے جان چھڑا چکی ہیں )

ہوئے بات جاری رکھی۔

ہمیں ہر قسم کی سبسڈی ختم کردینی چاہیے۔

ہمیں بجلی اور گیس چوری سے بھی ہاتھ کھینچ لینے ہوں گے۔

ہم جب تک اعلی اخلاقی میعاروں کو ٹچ نہیں کرتے ہم کبھی ترقی نہیں کر سکیں گے۔

اور ہاں! ہمیں پورا ٹیکس دینا چاہیے۔ اور صرف یہی نہیں ہمیں اپنے اپنے شعبے میں دیانت دار بھی ہونا پڑے گا۔

ہمیں اپنی نئی نسل کو بہتر تعلیم دینا ہو گی، ہمیں تجربہ کار ریاستوں سے سیکھنا ہو گا۔

تب جا کر ہم ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑے ہوں گے۔

اب کی بار میں نے جرات کی اور بات کاٹ کے پوچھ ہی لیا۔

کیاہم ایسے حکمرانوں کے حوالے اپنے ٹکیس کردیں؟

جو ستر سال سے ہمارے بچوں پر لگنے والی رقم اپنے بچوں کی بیرون ملک جائیدادوں پر لگا رہے ہیں۔

گاہکوں کا کچھ رش ہو چکا تھا۔ ریڑھی بان نے ریڑھی کا سائبان سیدھا کرتے ہوئے جواب دیا۔

” اے تے پا جی مِگ 21 نال ایف 16 مارن والی گَل اے“

میری توجہ اب آلو بخارا خریدنے سے کہیں زیادہ اس کے زِیرک اقدامات پر تھی۔

میں نے پوچھا تو پھراس کاحل کیا ہے؟

ریڑھی بان پھیکا سا مسکرایا اور دوسرے گاہکوں کا سامان تولنے لگا۔

مجھے اس کی اس بے دل مسکراہٹ سے جواب مل چکا تھا کہ

”آئیم ناٹ سپوزڈ ٹو ٹیل یو دِس“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).