ون ڈے ٹیم کی ناقص کارکردگی کا جائزہ


\"mazhar

جہاں ایک طرف پاکستانی ٹیم ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی بار پہلے نمبر پر براجمان ہونے میں کامیاب ہوئی ہے وہیں تاریخ میں ایسا پہلی بارہوا ہے کہ ٹیم ون ڈے رینکنگ میں نویں پوزیشن پر چلی گئی ہے۔ انگلینڈ کے خلاف چار ایک سے شکست کے بعد پاکستانی ٹیم کے 2019ء میں ہونے والے ورلڈ کپ میں براہ راست رسائی کی امیدیں مزید موہوم ہو گئیں ہیں۔ 30 ستمبر2017ء تک کی کٹ آف ڈیٹ تک آئی سی سی کی رینکنگ میں ٹاپ آٹھ پوزیشن کی حامل ٹیمیں انگلینڈ میں ہونے والے بارہویں ورلڈ کپ کے لیے براہ راست کوالیفائی کر جائیں گی جبکہ بقیہ چار ٹیموں کو 2018ء میں کوالیفائنگ راونڈ کھیلنا پڑے گا جس میں ٹاپ کرنے والی دو ٹیمیں ورلڈ کپ میں شرکت کی اہل ہونگی۔ ورلڈ کپ میں براہ راست رسائی یقینی بنانے کے لیے پاکستان کو ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے خلاف اگلی دونوں سیریز میں کامیابی حاصل کرنا لازم ہو گی۔ کرس گیل کے بغیر یو اے ای کی سلو وکٹو ں پرکھیلنے والی ویسٹ انڈیز کو شکست دینا توشاید مشکل نہ ہو لیکن ہوم گراونڈ پر آسٹریلیا کو ہرانا قریب قریب ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ یاد رہے 6سال قبل کیے گئے آسٹریلیا کے دورہ میں پاکستان تینوں فارمیٹ میں ایک بھی گیم جیتنے میں کامیاب نہیں ہوا تھا ۔

ٹیسٹ رینکنگ میں نمبرون پوزیشن کی حامل پاکستانی ٹیم کا ون ڈے فارمیٹ میں نویں اور ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں ساتویں نمبر پر موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ پاکستانی ٹیم مختصر دورانیے کی کرکٹ میں ہونے والی بلے بازی کی جدید تکنیکوں کو اپنانے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ پاکستانی ٹیم میں اس وقت نہ تو تیز آغاز فراہم کرنے والے مستند کھلاڑی موجود ہیں اور نہ ہی میچ کے آخر میں جیت دلانے والیی \” فائر پاورز\”: ماضی میں پاکستانی ٹیم کو وسیم اکرم ، معین خان ، اظہر محمود ،عبدالرزاق اور آفریدی جیسے جارح مزاج پنچ ہٹرز کی خدمات حاصل رہی ہیں لیکن بدقسمتی سے موجودہ ٹیم میں ان جیسا کوئی فائر ہٹرز موجود نہیں۔ اظہر علی ،شعیب ملک اور محمد حٖفیظ جیسے کھلاڑی جس طرح کی کرکٹ کھیل رہے ہیں وہ ون ڈے فارمیٹ میں کم ازکم دو دہائیاں پرانی ہو چکی ہے۔

\"azhar-cricket\"

ون ڈے کرکٹ میں پاکستان کی ناقص کارکردگی کی ایک اہم وجہ ٹیم کے کپتان اظہر علی ہیں۔ اظہر علی کی کپتانی میں کھیلے جانے والے 24 میں سے 16میچز میں پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اظہر علی کی کپتانی میں پاکستان نے کل آٹھ ون ڈے سیریز کھیلی ہیں جن میں سے زمبابوے کے خلاف دو جبکہ سری لنکا اور آئر لینڈ کے خلاف ایک ایک سیریز میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ جیتی جانے والی چار سیریز میں سے صرف سری لنکا کے خلاف اسکے ہوم گراونڈ پر ہونے والی سیریز قابل ذکر ہے ۔ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے تو اظہر علی موجودہ طرز کی ون ڈے کرکٹ میں کپتان تو درکنار، بطور کھلاڑی کھیلنے کے اہل نہیں ہیں۔

طویل عرصے سے ملکی میدانوں پر کرکٹ کا نہ ہونا، ناقص ڈومیسٹک سسٹم، کھلاڑیوں کا میرٹ کی بجائے سفارش پر انتخاب،کھلاڑیوں میں گروہ بندی اور سیاست کے ساتھ ساتھ آئی پی ایل اور بی بی ایل جیسے عالمی اہمیت کے مقابلوں میں کھلاڑیوں کی عدم شرکت ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں پاکستانی کھلاڑیوں کے پیچھے رہ جانے کی اہم وجوہات ہیں۔ مختصر اوورز کی کرکٹ میں پاکستان کے پیچھے رہ جانے کی ایک اہم وجہ پاکستانی بولنگ میں وہ روایتی دم خم کا باقی نہ رہنا بھی ہے جو چند سال پہلے پاکستانی ٹیم کی سب سے بڑی طاقت ہوتا تھا۔ اب پاکستانی ٹیم میں نہ تو میچ کا پانسہ پلٹنے والے پیسرز ہیں اور نہ ہی میچ وننگ سپنر ہیں۔ وہاب ریاض اور عمر گل میں پہلے جیسا دم خم نہیں رہا جبکہ محمد عامر کا بہترین دور میچ فکسنگ کی نظر ہو چکا ہے۔

\"pak-england-cricket\"

کوالیفائنگ راونڈ کھیلنے کی ہزیمت سے بچنے کے لیے دورہ ویسٹ انڈیز سے پہلے کپتان سمیت ٹیم کے کئی کھلاڑیوں کے بارے سخت فیصلے کرنے ناگزیر ہیں۔ انگلینڈ کے خلاف سب سے زیادہ رنز اسکور کرنے والے سرفراز احمد کو ون ڈے کی کپتانی سونپ کر اظہر علی کو ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز میں بطور کھلاڑی کھلایا جائے ۔ شعیب ملک سے جتنی جلد جان چھڑا لی جائے بہتر ہے۔ عماد وسیم ، محمد نواز اور حسن علی پر خصوصی توجہ دی جائے تو یہ پاکستان کے لیے اثاثہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ عمر اکمل اور احمد شہزاد ڈسپلن اور نظم و ضبط بہتر کرنے کی ضمانت دیں تو انہیں ٹیم کا حصہ بنالینا چاہیے کہ یہ دونوں جدید طرز کی کرکٹ کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تیزی سے رنز بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عمر اکمل اور احمد شہزاد سمیت بیشتر پاکستانی کھلاڑیوں کی نفسیاتی و ذہنی رہنمائی کے لیے پیشہ ور سائیکاٹرسٹ کی خدمات ضرورحاصل کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments