کاش بہت برُا لفظ ہے


کالج کا پہلا دن تھا۔ سب طلبہ زندگی کے اس نئے سفر کے لیے پُرجوش تھے اور اس آغاز سے بہت سی اُمیدیں لیے کلاس روم میں بیٹھے تھے۔ کلاس انچارج کمرے میں داخل ہوئیں، اپنا تعارف کروایا، ہم سے تعارف لیا، اور پھر کچھ نصحیتیں کیں۔ اُنکی اِسی نصحیتی گفتگو کا ایک جملہ میرے ذہن پہ نقش ہوگیا۔

”کاش بہت برُا لفظ ہے، ہمیشہ اس کاش سے بچنا۔ اس کاش کو اپنی زندگی سے نکال پھینکو“

اُنکے اندازِ گفتار سے یوں معلوم ہوا جیسے کاش کوئی ایٹم بم ہو۔ یہ الفاظ اپنے اندر بہت گہرے معانٰی سمیٹے ہوئے تھے جن کو مکمل طور پر سمجھنا مجھ جیسے اوسط طالبِ علم کے بس کی بات نہ تھی پر مجھے اِسکی نویت کا اندازہ ضرور ہوچکا تھا۔ ہر گزرتے لمحہ اور تجرباتِ زندگی کے ساتھ میں اِن الفاظ کو سمجھنے کی کوشش کرتی رہی۔

بعض اوقات زندگی میں ایسے ناخوشگوار حالات کا سامنا ہوتا ہے کہ ہمارے دل سے ایک آہ نکلتی ہے، کاش! کاش ماضی میں یہ حماقت نہ کی ہوتی، کاش سنجیدگی سے کام کیا ہوتا، کاش ہمارا قسمت پہ کچھ اختیار ہوتا، کاش یہ نہ ہوا ہوتا، کاش وہ نہ ہوا ہوتا۔ پر یہ آہ صرف مشکل حالات میں ہی نہیں نکلتی بلکہ ناشکری، نا اُمیدی، احساسِ کمتری اور سب سے بڑھ کر آرزو کے پیدا ہونے پہ دل و دماغ کا رخ کرتی ہے۔

یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے ماضی کو کُریدتا ہے کیونکہ ماضی میں پیش آنے والے بعض واقعات اُس کے لیے بہت تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں۔ اور پھر کچھ غلطیاں بھی ہوتی ہیں جن پہ بار بار پچھتا کر ماتم کرنا بھی انسان کی فطرت ہی ہے کیونکہ وہ ماضی کی اُن تلخ یادوں کو مٹا نہیں سکتا۔ کسی اہم موقع سے مستفید نہ ہو پانا بھی ایک سبب ہے۔ اسی طرح اچھے مستقبل کی خواہش دل میں رکھنا بھی انسان کی فطرت ہے۔ مادی دنیا کی رنگینوں میں کھو کر بیشتر خواہشات پالنا بھی انسانی زندگی کا ایک پہلو ہے۔

انسان میں ہمیشہ ایک بھوک رہتی ہے۔ وہ ہر وقت زیادہ سے زیادہ کی چاہ میں رہتا ہے۔ جب وہ ایک چیز حاصل کرلیتا ہے تو اُسکی کوشش رہتی ہے کہ اب اُسے اس سے بہتر ملے۔ دوسروں کو خود سے بہتر معاشی اور معاشرتی مقام پر دیکھ کر بھی اُسکے دل میں بہت سی خواہشات جنم لیتی ہیں جن کا حصول بعض اوقات مشکل ہوتا ہے۔ در حقیقت انسان خطا کا پُتلا ہے جس کے دل و دماغ میں آرزوؤں کی بھرمار ہے۔ نہ ہی وہ غلطیاں کرنا چھوڑ سکتا ہے اور نہ ہی اُس کے دل سے خواہشات ختم ہو سکتی ہیں جو بعض اوقات محض خواہشات نہیں رہتیں بلکہ لالچ اور ہوس کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔

خُدا نے انسان کو پیدا کرتے ہوئے اُس کو خواہش کرنے کی صلاحیت دی، پر اُن خواہشات اور دینی اور اخلاقی پابندیوں کے درمیان اعتدال رکھنے کے لیے اُسے عقل و شعور سے بھی نوازا۔ اور پھر اُسے خیر و شر دونوں کی صلاحیت بخشی اور یہی دراصل اُس کا امتحان ہے کہ وہ کس خوبصورتی سے اپنے نفس پہ قابو پاتا ہے۔

اِن باتوں پہ غور و فکر کرکے یہ اندازہ ہوا کہ انسان مکمل طور پر اس ’کاش‘ کے جُز کو تو اپنی زندگی سے نہیں نکال سکتا۔ لیکن اگر ایک روحانی طور پر مضبوط شخص ماضی کی کوتاہیاں بھلا کر اور مستقبل کی فکر چھوڑ کر حال میں جینا سیکھ لے، تو وہی شخص صحیح معانی میں کامیاب ہے۔

بیشک احساسِ تشکر بھی ایک نعمت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).