جمہوریت اور آمریت کی کشمکش اور عوام


یوں تو وطن عزیز میں جمہوری اور غیر جمہوری طاقتوں کی باہمی آویزش اور رسہ کشی شروع دن ہی سے جاری ہے اور اس میں بھی دو آرا نہیں کہ غیر جمہوری طاقتوں نے ہمیشہ جمہوری قوتوں کو بری طرح پچھاڑا ہے مگر گذشہ چار پانچ سال سے یہ کشمکش اور رسہ کشی خاصی شدت اختیار کر چکی ہے۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ اس بار جمہوری طاقتوں کی قیادت اس شخصیت اور جماعت کے حصے میں آئی ہے جس پر مسلسل یہ الزام لگتا رہا کہ انہوں نے اپنا سیاسی سفر آمریت کی آغوش سے شروع کیا تھا۔

ایک عرصے سے دیدہ و نادیدہ غیر جمہوری طاقتوں کے خلاف ہر فورم سے کچھ دبی دبی آوازیں تو آ رہی تھیں مگر لب بام آکر انہیں للکارنے کی جرات سوائے ذوالفقار علی بھٹو کے کسی نے نہیں کی۔ بھٹو کے انجام نے سیاسی قبیلے کو خاصا محتاط کر دیا تھا اور وہ بہ امر مجبوری مقتدر قوتوں کا تعاون حاصل کر کے محدود اختیار کے ساتھ حکومت کرتے رہا۔ اس سفر میں اگرچہ سیاستدانوں کے لیے دو چار نہیں بلکہ سیکڑوں سخت مقامات آتے رہے تاہم انہوں نے اپنی کمزوریوں، مفادات اور سیاسی عدم بلوغت کی وجہ سے ذلت برداشت کر کے اور گردن جھکا کر گزارا کرنے کی کوشش کی۔

تاہم دو ڈھائی سال قبل جس طرح نواز شریف کے خلاف بھرپور پروپگنڈہ کر کے انہیں بصد ذلت و رسوائی اداروں کو استعمال کر کے حکومت سے فارغ کر کے ملک کو تنزل و ابتری کے حوالے کیا گیا اور جس طرح ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے سر براہ، اس کے خاندان، پارٹی قیادت اور حامیوں کی تذلیل و تحقیر کی گئی اس کے بعد گردن جھکا کر ملکی مفاد اور قومی وقار کے نام پر مزید مظالم برداشت کرنا کسی بھی شخص یا پارٹی کے لیے ناممکن تھا۔

سو کسی نہ کسی نے تو جرات رندانہ کا مظاہرہ کرنا تھا۔ کسی نے تو بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنا تھی۔ کسی نے تو خفیہ کاری گروں اور ماورائی مخلوق کو شٹ اپ کال دینا تھی۔ کسی نے تو اس ناروا جبر اورظلم کے خلاف آواز اٹھانا تھی۔ کسی نے تو اس کھلی بد معاشی اور داداگیری کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا تھا۔ محترمہ مریم نواز کی حالیہ پریس کانفرنس اسی جمہوری بغاوت اور سرکشی کا بلند و بانگ اعلان ہے۔ ان کی یہ پریس کانفرنس جرات کردار و عمل کے اظہار کے ساتھ ساتھ اس فرسودہ و سرانڈ زدہ ماحول اور اس ماحول کو ملک کے عوام پر مسلط کرنے والوں کے خلاف واضح اعلان جنگ ہے۔ جمہوریت پسند بھی زبان حال سے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ

مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے

میں سر بکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے

مریم نواز نے کمال ہمت کا مظاہرہ کر کے  ہمارے نظام عدل و انصاف کا پردہ چاک کیا ہے۔

دیدہ و نادیدہ مارشل لاؤں کی ماری اس مظلوم قوم کو آج حتمی فیصلہ کرنا ہو گا کہ اس نے مقبوضہ سیاست، سسٹم، صحافت، حکومت اور تمام ادادوں کو آزاد کرانا ہے یا تذلیل کے سفر کو اسی طرح برداشت کر کے جبر کے کوڑے کھاتے رہنا ہے؟ آج قوم کو یہ فیصلہ بھی کرنا ہو گا کہ ہم نے ووٹ کی حرمت اور تقدس کو بحال کرنا ہے یا اسی طور سلیکٹڈ اور اپاہچ وزیراعظم کے طور پر مقتدر طاقتوں کے سامنے جبہ سائی اور دریوزہ گری کرتے رہنا ہے؟ آج قدرت نے اگر موقع دیا ہے تو ہمیں ہمت و جرات سے کام لے کر ستر سال سے اپنی گردنوں میں پڑا ہوا غلامی طوق اتار پھینکنا ہو گا۔

آج مریم نواز، نواز شریف، زرداری اور بلاول جیسے جمہوریت پسندوں کو یہ فیصلہ بھی کرنا ہو گا کہ وہ جمہوریت کے نام پر صرف حصول اقتدار اور محدود اختیار کے لیے تو عوامی طاقت کو ایندھن کے طور پر استعمال نہیں کر رہے ہیں؟ انہیں یہ جدو جہد اس وقت تک جاری رکھنا ہو گی جب تک ملک غیر جمہوری طاقتوں کے شکنجے سے مکمل طور پر آزاد نہیں ہو جاتا۔ آج بھی لوگ اگر باہر نہ نکلے اور جمہوری قوتوں کے شانہ بشانہ کھڑے نہ ہوئے تو یاد رکھیں، جو قوتیں آج محترمہ مریم نواز کی ریلی دکھانے پر پہرے بٹھا چکی ہیں اور میڈیا کو مکمل طور پر یرغمال بنا چکی ہیں انہوں نے کبھی اس ملک کو ترقی کے راستے پر نہیں چلنے دینا۔

آج اگر ہم ووٹ کی عزت کے لیے باہر نہ نکلے تو ہماری آواز اسی طرح دبائی جاتی رہے گی، لوگ لاپتہ ہوتے رہیں گے، شہریوں کی مسخ شدہ لاشیں ملتی رہیں گی، غداری اور ملک دشمنی کے سرٹیفکیٹ بانٹے جاتے رہیں گے، سلیکٹڈ آتے رہیں گے اور ملک کا بیڑہ غرق کرتے رہیں گے۔ مریم نواز نے شیر کے گلے میں گھنٹی ہی نہیں باندھی بلکہ شیر کی کچھار میں جا کر اسے للکارا ہے۔ پنجاب کی خوش قسمتی ہے کہ اسے مریم نواز کی شکل میں ایک جی دار، نڈر، بے خوف اور جری لیڈر ملی ہے۔ تاریخ اپنا فیصلہ لکھ رہی ہے۔ ملکی تاریخ کے اس انتہا ئی نازک دور کے ہنگام ہر باشعور اور محب وطن شہری کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ تقسیم کی لکیر کے کس طرف کھڑا ہے، جمہوریت کی طرف یا آمریت کی جانب؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).