بس رنگ ایک ہی اصلی ، پیار کا


\"wisi-baba\"ان دنوں کی بات ہے جب ڈاکٹری پڑھ رہا  تھا، حکمت سیکھ رہا تھا۔ بات سمجھ نہیں آئی نہ آنی بھی کوئی نہیں۔ ایک دوست ہیں استاد ہیں مہربان ہیں۔ انہوں نے رنگوں سے علاج پر کتاب لکھی۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری تو انہیں گھر بیٹھے ہی دے دی۔ باہر کی ایک یونیورسٹی نے ان کی کتاب پڑھ کر ہی۔ پر تب بھی لوگ ایسے ہی تھے۔ قدرناشناس۔

وسی بابا ڈاکٹر صاحب کے ہتھے چڑھ گیا۔ وہ صاحب علم آدمی ہیں ہم ویلے تھے۔ بس ہمیں انہوں نے ایم بی بی ایس کرانا شروع کر دیا۔ کونسی بیماری کیسے ہوتی ہے اس کا علاج کس رنگ سے ہوتا ہے۔ جب آنکھ کھلتی اٹھ کر گھر آجاتے۔ ڈاکٹر صاحب محبت کرنے والے انسان ہیں۔ خدشہ ہی رہتا ہے کہ کہیں محبت کرتے پکڑے ہی نہ جائیں خیر۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ جملہ پڑھ لیا تواپنی خیر نہیں ۔ باذوق انسان ہیں انجوائے ہی کریں گے۔

ہمیں بس رنگ اچھے لگتے تھے۔ تب قیمتی پتھروں سے تعلق ایسے جاری تھا جیسے پہلی محبت ہو۔ قیمتی پتھروں سے تعلق کی شرط رنگ بھی ہیں روشنی (چمک) بھی۔ ایک ہم جماعت نے فائین آرٹس کا کالج کھولا تھا انہی دنوں۔ جان پہچان کے دوستوں رشتے داروں کے سب بچہ لوگ وہیں پڑھتے تھے۔ تو رنگوں سے تعلق کچھ زیادہ ہی ہو گیا تھا۔ اس دوست کا کالج تو بہت ہی برکت والا تھا۔ شائد ہی کوئی بندہ وہاں سے فارغ التحصیل ہوا ہو، اپنی زندگی کا ساتھی ملے بغیر۔

لوگ اس کالج میں ایک اکیلے داخل ہوتے تھے جوڑا بنا کر نکلتے تھے۔ کچھ جوڑے تو ہمارے اردگرد اب بال بچوں سمیت پھرتے ہیں۔ جب یہ کالج آباد تھا تو اپنا نام تو بنا ہی رہا تھا۔ جوانوں کے کام بھی بنا ہی تھا ۔ اس کے اردگرد ماحول میں ایک مستقل رنگ پیار کا رہتا تھا۔

کالج اب  بند ہو گیا ہے۔ دوست اس کی وجہ نقصان بتاتا ہے۔ ہم دوستوں کا خیال ہے کہ کالج کمائی کر رہا تھا۔ کم از کم اس کا نام بنا ہی رہا تھا رشتوں والی نانی کے طور پر۔ ہمارا یہ دوست دکھنے میں بہت سادہ سا ہے۔ پر اس بندے نے اپنے شہر پر بڑا احسان کیا۔ تعلیم بھی دی سوچ بھی بدلی نام بنایا عزت کمائی۔ اس پر سوا یہ  اس نے جتنا ٹیلنٹ اپنے شہر کو دیا کم وقت میں شائد ہی ممکن ہو۔ اس بندے کی بس تعریف ہی کرنی بنتی ہے۔ اس لئے بھی کہ اس کا کوئی سٹوڈنٹ بیروزگار نہیں ہے۔
\"colors\"

سائینس تحقیق تکنیک کی ہم سے زیادہ امید نہ رکھیں۔ یہ ماحول تھا جو ان دنوں ہمیں میسر تھا۔ اس ماحول نے رنگوں سے دوستی کرا دی تھی۔  اس ماحول سے یہ جانا تھا کہ طاقت کا رنگ نیلا ہوتا ہے۔ غصے کا رنگ لال ہوتا ہے۔ جوانی کا امنگوں کا جزبوں کا رنگ پرپل ہوتا تھا۔ گارنٹ ایک سستا سا پتھر تھا جس کا رنگ پرپل عام ملتا ہے۔ درجنوں کے حساب سے گارنٹ اکٹھے کئے۔ انہیں پتی ہونٹوں دل اور اوول شکل میں خوب کہانیاں سنا سنا کر بیچا۔

بات شروع ہوئی تھی ڈاکٹر صاحب سے حکمت سیکھنے سے۔ ایک دن ان سے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب یہ بتائیں مان لیا رنگوں سے علاج ہوتا ہے۔ یعنی ہم انسانوں میں رنگوں کی کمی ہوتی ہے۔ تب ہم بیمار پڑتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بولے بالکل۔ ان سے پوچھا کہ پھر پتہ کیسے لگے گا کہ کس رنگ کی کمی ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے کہا بھئی کوئی آلات تو ہیں نہیں جو کمی جانچ سکیں۔ سادہ سا اصول بنا لیا ہے۔ جس میں جس رنگ کی کمی ہو گی اسے وہی پسند ہو گا۔

جسے غصہ زیادہ آتا ہے اس میں سرخ رنگ زیادہ ہو گیا ہے۔ اس کا علاج ہے کہ اسے مدہم کرنے کے لئے سبز رنگ کا ماحول دیا جائے۔ یہ سکون کا رنگ ہے۔ ایسے مریض کو ضرورت ہوتی ہے کہ وہ سبزہ دیکھے۔ جنگلوں میں پھرے چمن میں چہل قدمی کرے۔ درختوں سے باتیں کرے۔ ان کی چھاؤں میں بیٹھے۔

تب یہ سب بس سنا تھا سمجھا نہیں تھا۔ اب بھی نہیں معلوم کہ علم سچا ہے یا نہیں۔

ڈاکٹر صاحب یاد آئے ان رنگوں کی باتیں یاد آئییں ۔ پھر اپنے جھنڈے کا سبز رنگ یاد آیا ہے۔ رنگ منتخب کرنے والے شاید ہمیں قدرتی ماحول دینا چاہتے تھے۔ وہ شائید وقت سے پہلے جان گئے تھے کہ ہم میں اسی رنگ کی کمی ہو گی۔ ہم نے جنگل کاٹے ہم سے بارشیں روٹھ گئیں۔ ہمارے دریاؤں سے پانی رخصت ہوا۔ ہمارے کئی کئی ضلعے ہیں جہاں اب دھول اڑنے لگی ہے۔

سبز رنگ سکون برداشت کا تھا۔ ہم میں انہیں دونوں کی کمی ہے۔ ہم میں غصہ بڑھ گیا ہے ہر کوئی دوسرے سے خفا رہتا ہے۔ ہم خانوں میں بٹ گئے۔ تقسیم در تقسی ہوتے چلے گئے۔ ایک دوسرے کو مارنے لگے۔ ہم اپنا جغرافیہ ہی دیکھتے۔ قدرت نے ہمیں بڑا کچھ بہت فیاضی سے دیا ہے۔ پہاڑ دریا سمندر جنگل صحرا اور کھلے میدان۔ پھر رنگ رنگ کے لوگ ۔ اتنا کچھ ہے کہ مایوسی کی کوئی بات ہی نہیں۔

ہم ایسی قوم ہیں جس میں یوتھ کا تناسب ساٹھ فیصد کے قریب ہے۔ یوتھ نام ہی جوانی امنگوں رنگوں خوابوں اور امیدوں کا ہے۔

غلطی ہم سے یہ ہوئی کہ پشاور جیسے شہروں میں فائین آرٹس کے کالج، کتابوں کی دکانیں بند ہو گئیں۔ شدت پسندی کی تجارت تو پھر ہونی ہی تھی کہ ہم نے ان سے حفاظت کرنے والے قلعے ہی گر جانے دیے۔ جب سب رنگوں کو ملا کر پیار کا رنگ بنتا ہے۔ یہ رنگ ہماری یوتھ ہے۔ اس یوتھ کو فوکس کر کے پیار سے پالیسی بنائیں۔ جیسے ہم اپنے بچوں کے لئے سوچتے ہیں ویسے ۔

بچوں کو اس یوتھ کو اپنی امیدوں کا مرکز بنائیں ۔ انہیں خوشیاں منانے کے مواقع دیں انہیں تعلیم دیں۔ ہمارا حال اور مستقبل دونوں بدل جائیں گے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments