کامیاب منجن فروش اور کمپنی کی مشہوری


\"zeffer2\"سفر سہانا نہیں تھا، لیکن منزل کی امید دِل کش تھی۔ راستے میں، چھوٹے چھوٹے اسٹیشن آئے، چھابڑی والوں نے اپنا اپنا مال بیچنے کے لیے صدا لگائی، اِکا دکا مسافروں نے ان سے کچھ نہ کچھ خرید لیا۔ چند سیانوں نے مشورہ دیا، کہ یہ مال ناقص ہے، اس سے نہ خریدا جائے، کچھ نے سنی، کچھ نے ان سنی کردی۔ ٹرین کے گارڈ اور دیگر عملے نے ایک منصوبہ بنایا کہ کیوں نہ مسافروں کے مال کو چرایا جائے۔ دھیرے دھیرے یہ عمل شروع ہوگیا، ایک بوگی کے مسافروں نے احتجاج کیا، انھیں زور زبردستی سے خاموش کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن اس دھینگا مشتی میں، ایگ بوگی، کہیں پیچھے رہ گئی۔ صبح ہوچکی تھی، اور دوسری بوگی کے مسافروں کو زرا زرا دکھائی دینے لگا تھا۔ ٹرین کے عملے نے خوانچہ فروشوں سے سازش کی، کہ وہ مسافروں کا دھیان، کسی اور طرف لگائیں، تا کہ وہ بچی کھچی بوگی کا مال چراتے رہیں۔ اس طرح خوانچہ فروشوں کی چاندی بھی ہوگی، اور انھیں لوٹ کے مال میں سے حصہ بھی ملے گا۔ خوانچہ فروش اپنا اپنا مال لے کر سر گرم ہوگئے، مشکل یہ تھی، کہ جو مسافر ان کا مال چکھ چکے تھے، وہ دوسروں کو ان سے ہشیار کر رہے تھے۔ منجن فروش نے اِس کا حل نکال لیا، ا±س نے منجن کے ساتھ، ایک مذہبی کتابچہ مفت دینے کی پکار لگائی۔بھائیو، بہنو، دوستو…. یہ منجن ہر بیماری کا علاج ہے۔ اگر آپ کے مسوڑھوں سے خون آتا ہو، دانتوں پہ میل جمی ہوئی ہو، پیٹ میں درد ہو، یا سر میں غبار بھرا رہتا ہو، لنگڑا کر چل رہے ہوں، یا گھبراہٹ ہوتی ہو، یہ منجن سب مرضوں کی دوا ہے۔ منجن فروش اپنی دوا کی تشہیر کرنے لگا۔ا ور بھائیو، بہنو۔ اس منجن کے ساتھ، یہ مذہبی کتابچہ، بالکل مفت ہے، اس کے کوئی دام نہیں۔ آپ یہ مقدس کلام پڑھیں گے، تو اس سفر میں بھی، اور سفرِ آخرت میں بھی کام آے گا۔

منجن فروش کا یہ داﺅ کام یاب رہا۔ مسافروں نے جھٹ پٹ، اس سے منجن خرید لیا۔ منجن بڑا خوش ذائقہ تھا۔ مسافروں میں موجود، ایک حکیم صورت نے لوگوں کو سمجھایا، کہ ایسا کوئی منجن نہیں، جو یہ سب خوبیاں لیے ہوے ہو۔ منجن فروش نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ، اور دعویٰ کیا، کہ یہ حکیم انھیں مذہب سے دور لے جارہا ہے، یہ اس کتابچے کو تقسیم کرنے سے روکنے کی سازش ہے، وہ کتابچہ، جو منجن کے ساتھ ہدیہ کِیا جارہا ہے۔ دیکھو بھائیو، بہنو، اور دوستو۔ میں اپنے لیے کچھ نہیں مانگتا، میرے جیون کا اکلوتا مقصد، مذہب کی حفاظت ہے، اور دیکھیے، اگر آپ لوگوں نے، اس حکیم کی بات سنی، تو جان لیجیے، آپ کی آخرت خراب ہوجائے گی۔ میرا منجن خریدیں، میرا منجن ہی آپ کا علاج ہے۔ ’مذہب خطرے میں ہے‘، کا سن کر، چند جوشیلوں نے حکیم کو غضب ناک نگاہوں سے گھورا۔ حکیم کو محسوس ہوا، کوئی اس کا حامی نہیں، سب منجن فروش کے ساتھ ہیں۔ منزل منزل ٹرین میں کئی خوانچہ فروشوں نے ڈیرا جمالیا تھا، ہر کوئی اپنے مال کے ساتھ مذہبی کتابچہ مفت بانٹتا تھا۔ خوب بِکری ہونے لگی۔ پھر وہ وقت آگیا، کہ مسافروں کو قے ہونے لگی؛ کچھ کے منہ سے خون رِسنے لگا، کچھ کے ہاتھ پاﺅں مفلوج ہوگئے، چند ایک اپنی جان سے گئے۔ مسافروں میں ہراس پھیلنے لگا۔ حکیم نے کہا، میں نے خبردار نہ کِیا تھا؟ اب مسافروں میں کھسر پھسر ہونے لگی، کہ یہ منجن کے اثرات ہیں۔ منجن فروش نے اپنی آواز میں مزید کرختی، اور رعب پیدا کرنے کی کوشش کی، مسافروں کو سمجھایا، کہ تمھارا دشمن یہ حکیم ہے، اسے پہچانو۔ اس حکیم کی باتوں میں مت آنا، یہ لو، ایک پڑیا اور لو، ساتھ میں، یہ مذہبی کتابچہ مفت ہے۔ چند مسافروں نے کہا، ہمیں یہ منجن نہیں چاہیے، تمھارا یہ منجن ہمیں کھوکھلا کر رہا ہے، ا±ٹھاﺅ اپنی یہ چھابڑی اور کہیں اور جا کر بیچو۔ جواب ملا۔ تم وگ مذہب کی توہین کر رہے ہو، تمھیں واصلِ جہنم کِیا جاے گا۔ اکثریت منجن فروش کا یہ فتویٰ سن کر گھبرا گئی، کہ دنیا میں ہم نے کون سا اچھا کام کیا ہے، جو جنت کے حق دار ہوں؟ ہوسکتا ہے، یہ منجن ہی ہمیں جنت کے دروازے تک لے جائے۔ حکیم نے بولنا چاہا، تو خوانچہ فروشوں نے، اس کی آواز دبادی۔ ایک بار پھر دھڑا دھڑ منجن بکنے لگا۔

مسافروں کی حالت غیر ہوتی چلی گئی، لیکن منجن فروش انھیں جنت کی بشارت دیتا رہا۔ ٹرین گھِسٹتے گھِسٹتے کئی اسٹیشن کراس کر گئی، اس دوران گارڈ اور عملہ، سارا مال لوٹ چکے تھے۔ اب انھیں خوانچہ فروشوں کی ضرورت نہ تھی، لیکن خوانچہ فروشوں کو مسافروں کی جیب سے بچا کھچا زر سمیٹنا تھا، وہ اپنے آپ کو اس ٹرین کا مختار سمجھنے لگے تھے، چناں چہ گارڈز اور خوانچہ فروشوں میں ٹھن گئی۔ انھوں نے مسافروں کو ڈھال بنا کر، ایک دوسرے پر، تابڑ توڑ حملے کیے، ان حملوں کی زد پر بھی مسافر ہی آئے۔ کسی کا ماتھا پھوٹا، کسی کا شیر خوار پیروں تلے کچلا گیا، کسی کی بہن گم ہوئی، کسی کا بھائی مارا گیا۔ یہ چیخ پکار قیامت کا منظر پیش کر رہی تھی۔ مسافروں کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے، کیوں ہورہا ہے؟ اس مار دھاڑ میں فریقین ایک دوسرے کو چور چور پکارتے رہے، یوں سب مسافروں پر عملے اور خوانچہ فروشوں کی چوری عیاں ہوگئی، لیکن اس وقت تک مسافر بے دست و پا ہوچکے تھے، منزل ا±نھیں خواب دکھائی دینے لگی۔ یہ ٹرین رواں ہے، لیکن منزل کی خبر نہیں۔، حکیم چِلا رہا ہے۔ مسافرو! ایک ہو جاﺅ، اپنے دشمنوں کو پہچانو۔ یہ ت±مھیں مار ڈالیں گے۔ کوئی اس کی آواز نہیں سن رہا، کیوں کہ منجن فروش، حکیم کی ہر صدا پر، اسے کافر کی سند دیتا ہے، اور مسافروں کو منجن کے ساتھ، مذہبی کتابچہ مفت دینے کی ضمانت، اور یہ نوید بھی، کہ وہ جیسا بھی عمل کریں، یہ کتابچہ انھیں جنت میں پہنچادے گا۔ کون ہوگا، جو یک جان ہو کے محض ذلیل دنیا کی خاطر ، جنت کا سودا کرے؟ صاحبو! منجن فروش کام یاب ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments