ڈاکٹر من موہن سنگھ، ایوب خان اور عمران خان


ڈاکٹر منموہن سنگھ جب وزیر اعظم تھے انہوں نے ایک دفعہ کسی اخبار کے افتتاح کے موقع پر ایوب خان کا ایک پرانا انٹرویو کوٹ کیا کہ حکومت گرنے کے بعد ایوب خان نے کہا ”میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور بیوروکریسی پر اعتماد کیا یوں میں حقائق سے دور ہوتا چلا گیا“۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کو اخبار کا فتتاح کرتے ہوئے اپنی جنم بھومی اور ایوب خان ہی کیوں یاد آئے اس کی ایک لمبی کہانی ہے۔

ایوب خان نے سنسر شپ کو باقاعدہ ایک آرٹ کی شکل دی۔ قدرت اللہ شہاب کی زیرنگرانی نامور ادیب ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے کرلیے گئے۔ اور اس پلیٹ فارم کو ذریعہ بناء کر مختلف نامور ادیبوں کے قلم کو لگامیں ڈال دی گئیں۔ ایک موقع پر کیسے کیسے لوگ اس گلڈ میں اکٹھے ہوگئے اور بہت سارے خود کو کیا کیا کہ کر بری الذمہ کرتے رہے یہ ایک علیحدہ کہانی ہے۔

بھٹو صاحب نے بھی ایک دفعہ اقتدار ہاتھ میں آنے کے بعد جمہوریت اور جمہوری اقدار کی مضبوطی کی بجائے اپنی ذات کو اختیار کا محور بنایا۔ اپنے ہی ساتھیوں کو الٹ پلٹ اور تلپٹ کرتے رہے۔ کچھ طالبعلم رہنماؤں کو جیلوں میں پھینکا۔ اور سب سے تگڑا وار کیا کہ پورے کے پورے ادارے ہتھیا لیے یعنی قومیا لیے۔ صدر جنرل ضیاء الحق تو ویسے ہی مرد مومن تھے۔ اس مرد مومن نے فطرت کے تقاضوں کی کچھ اس طرح نگہبانی کی کہ اخبارات کی کڑی نگرانی کی جانے لگی۔ نیا طریقہ یہ نکلا کہ اخبارات سنسرڈ خبروں کو یونہی خالی جانے دیتے۔ قارئین کو سمجھ آجاتی کہ یہاں کچھ ایسا تھا جو بالحق نہیں تھا اور اخبار کی یہ جگہ خالی کیوں ہے۔ یہ جدت تو چند دن ہی چلی۔ اخبارات پر سنسر شپ لگاتار چلی۔ حضرت صاحب سی 130 میں اڑے اور ہھر ایسا اڑے کہ واپس نہ آسکے۔

میاں محمد نواز شریف کو ستانوے میں دو تہائی اکثریت ملی۔ امیرالمومنین بننے سے بس چند ہی قدم پیچھے تھے۔ نجم سیٹھی صاحب کا قلم گستاخیاں کرنے لگا۔ غداری کا مقدمہ بنا ڈالا۔ امیر المومنین جدے گئے اور عوام۔ اچھا خیر کہیں نہیں گئے۔ امیر المومنین کے بعد روشن خیالی آئی۔ اور کھمبیوں کی طرح ٹی وی چینلز اگ آئے۔ شاید کاشتکار کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ کانٹے بو رہا ہے۔ ورنہ روشن خیالی مختار کل کے جذبے سے زیادہ بڑی نہیں ہوتی۔ وہی بوئے ہوئے کانٹے گلے آ پڑے۔ کالے کوٹ والوں کا ساتھ بیپر، ٹکر، بریکنگ نے دیا اور جمہوریت لوٹ آئی۔

پیپلزپارٹی دور میں موبائل اور موبائل پیکجز بہت سستے ہوچکے تھے۔ تاہم یہ انتہائی سستے پیکجز زرداری صاحب کی جان کے لیے وبال بننے لگے۔ ایسے تمام میسجز پر پابندی اور خلاف ورزی پر سزا کا غلغلہ بلند ہوا۔ عوام نے کیسا خوبصورت حل نکالا۔ کہ خالی ایک میسج آتا۔ ”پتھر کس جانور کو مارا جاتا ہے۔ اس میسج کا موجودہ حکومت سے کوئی تعلق نہیں“ پڑھنے والا یہ میسج دیکھتا اور مسکراتا۔ اگر پیکج ہوتا تو آگے بھیجنا فرض سمجھتا۔

زرادری صاحب کے آخری ایام میں سوشل میڈیا نامی بلا حکمرانوں کے خوابوں میں آنا شروع ہوچکی تھی۔ تاہم زرداری حکومت اس وقت اس کا ادراک نہ کرسکی۔ میاں صاحب کے دن شروع ہوئے تو یہ بلا بے قابو ہونے لگی۔ میاں صاحب اس کی قدر و قیمت جان گئے۔ خاصی زور آزمائی کی لیکن اس منہ زور گھوڑے کو قابو نہ کر پائے۔ کیونکہ اس کی زیادہ قوت عمران خان کے ہاتھ میں تھی۔ میاں صاحب نے مبینہ طور پر اس کا حل یہ نکالا کہ نیوز چینلز اور اخبارات کو اربوں روپے کے اشتہارات جاری کیے۔

مختلف صحافی بڑے عہدوں پر تعینات کیے۔ کچھ کو تعیناتی کا لارا لگایا۔ بعضے نظریاتی وغیرہ ہوگئے۔ یوں سوشل میڈیا بمقابلہ الیکٹرانک میڈیا جنگ شروع ہوگئی۔ پرنٹ میڈیا اپنی افادیت اور دائرہ اثر کھو رہا ہے۔ اور امکان ہے یہ تنزلی جاری رہے گی۔ بہرحال میاں صاحب کا یہ دور پابندیوں کے اعتبار سے خاصانرم ثابت ہوا۔ الیکٹرانک میڈیا کی چاندی رہی۔ سوشل میڈیا ریگولیشنز پاس کروانے کا عندیہ کبھی کبھار دیا جاتا۔ تاہم عملی طور پر کچھ خاص پیش رفت نہ ہوسکی۔

مزاجاً امیرالمومنین، عادتاً مسکین، نیم عوامی، نیم بدنامی لیڈر جناب عمران خان کا ذکر کرنے سے پہلے اس موسیقی کا ذکر جو مشرف حکومت کے جانے سے لے کر اب تک بجتی رہی ہے۔ یہ موسیقار کبھی کسی کا طبلہ بجا دیتے رہے اور کبھی کسی کا باجا۔ ایک آدھ دفعہ تو سالم کھڑکا دیا۔ یہ موسیقی کبھی ہلکے سروں میں اور کبھی بالکل پاپ کرتی رہی۔ لیکن یہ موسیقی چاہے پکے راگوں میں گائی گئی چاہے کسی نو آموز نے گایا۔ آواز ان لوگوں نے اپنے مطلب کی پیدا کی۔ اس جدید دور میں بھی ان کلاسیکل گھرانوں کے وارث موسیقی اور الیکٹرانک میڈیا کو بجاتے رہے ہیں۔

لیکن وہ منہ زور گھوڑا جس کی جوانی ایک دہائی قبل شروع ہوئی وہ ابھی بھی عمران خان کے ہاتھوں میں ہے۔ عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی الیکٹرانک میڈیا سے ایک جنگ چھیڑ لی۔ اور اس لڑائی کا انجام چند ہفتوں بعد بخیر یہ ہوا کہ میڈیا نے ٹون ہلکی کرلی اور عمران حکومت نے اشتہارات جاری کرنا شروع کردیے۔ کارکردگی، مستقبل سیاسی کشمکش اور احتساب ایک طرف اتنی لمبی تمہید محترم عمران خان کے لیے صرف اس لیے باندھی ہے کہ ایک دن آپ اقتدار میں نہیں ہوں گے۔

لیکن یہ کہانیاں ہم سب کو ازبر ہوں گی کہ جناب نے کیسے کیسے ان لوگوں کو دبایا۔ آپ کے سیاسی وارث شاید نہیں یقیناً ٹکڑیوں میں بٹ جائیں گے۔ لیکن صحافیوں کے وارث آپ کو اچھے لفظوں میں بالکل یاد نہیں کریں گے۔ آپ کو تاریخ سے بہت دلچسپی ہے اور آپ کا تاریخی تاثر ایک سخت گیر، خود غرض اور آمر کا ابھرے گا۔ اور بار بار دوہرایا جاتے رہے گا۔

آپ الیکٹرانک میڈیا پر پابندیاں لگا کر سوشل میڈیا پر اپنی جنگ لگا کر لڑنا اور جیتنا چاہتے ہیں۔ سوشل میڈیا میں بہت بڑا حصہ آپ سے کسی معجزے کی امید لگائے بیٹھا ہے۔ اگر مزید سال دو تک معجزہ نا ہوا تو آپ تو شاید ہوں یا نہ ہوں لیکن سوشل میڈیا آپ کے ساتھ نہیں ہوگا۔ آنکھیں کھول لیجیے۔ مشیران کی فوج کے مشورے آپ کو ڈبو دیں گے۔ میڈیا کو بولنے دیں اگر آپ کے مطابق یہ ضرورت سے زیادہ تنقید کرتے ہیں تو ضرورت سے زیادہ کارکردگی دکھا کر ان کے منہ بند کردیں۔

آخری پہلو یہ کہ اگر آپ جیسے نو آموز گلوکار نے کوئی بے موقع راگ گانا شروع کردیا تو پرانے موسیقار تو پھر اونچے سروں میں گائیں اور بجائیں گے۔ اسی طرح ایک دن آپ کی آواز دب جائے گی۔ اور پھر کسی روز ایک کمزور اور ہاری ہوئی آواز ابھرے گی ”میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور بیوروکریسی پر اعتماد کیا یوں میں حقائق سے دور ہوتا چلا گیا“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).