وہ جو اپنے ہی وطن میں پردیس کاٹ رہے ہیں


یہ اپنے، اپنے آبائی شہروں سے آنے والے چار لوگوں کا قافلہ ہے جن کی منزل ایک ہے۔ یہ سب لوگ روزگار کی تلاش میں اپنے آباد گھروں کو چھوڑ کر بظاہر دشت میں نکل آئے ہیں۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ سب کے سب گریجویٹس ہیں لیکن اپنے علاقوں میں نوکریاں نہ ملنے پر گھروں سے سینکڑوں میل دور روزی، روٹی کی تلاش میں سرکرداں ہیں۔

معیز 24 سالہ جواں، چاک و چوبند لڑکا ہے جو ننکانہ صاحب سے ہے۔ بظاہر مذہبی دکھتا ہے لیکن ملتے، جلتے خیالات کا مالک ہے۔ حال ہی میں اس کی نئی، نئی شادی ہوئی ہے۔ گھر میں سب سے بڑا ہے۔ تین چھوٹی بہنیں اور دو بھائی۔ باپ کسی زمانے میں ترکھان تھا لیکن اب بوڑھا ہو چکا ہے لہذا ترکھان نہیں بن سکتا۔ معیز کے سامنے زندگی نے ہمیشہ دو ہی آپشن رکھے۔ میٹرک پھر مزید پڑھائی یا کام، انٹرمیڈیٹ پھر مزید پڑھائی یا کام، گریجویشن پھر مزید پڑھائی یا کام، ماسٹر اور پھر مزید پڑھائی یا کام۔

بالاآخر اس دفعہ اچھی نوکری کی امید کے ساتھ اس نے ”کام“ کا انتخاب کیا لیکن یہ انتخاب اسے خاصا مہنگا پڑا۔ نوکریوں کے بنک چالان بڑھنے اور ٹیسٹ و انٹرویو دینے کے بعد اس کی جیب مزید خالی ہوگئی اور اب اگر کام ملا بھی تو اپنے شہر سے کوسوں دور۔ گھر کی ذمہ داری، شادی اور اس کے بعد اس کی نوکری آہستہ، آہستہ زندگی اس سے دو آپشن بھی چھینتی رہی اور اسے اپنا سرخم کرتے ہوئے زندگی کے بتائے رستوں پر چلنا پڑا۔

عثمان اپنے شہر قصور میں کرکٹ کا اچھا کھلاڑی تھا لیکن پھر گھر کی مار، ڈانٹ نے اس کا یہ کھیل ختم کر دیا۔ بڑے بھائی اور ابا کی سفارش پر شہر میں کئی کام ملے لیکن شاید وہ اسے راس نہ آئے۔ اب 7 لوگوں کے کنبے کو پالنے میں اسے بھی اپنا کردار ادا کرنا تھا لہذا اس کے لیے اسے گھر چھوڑنا پڑا۔ لنگڑی، لولی گریجویشن کے بعد اس کی قسمت بھی اپاہج رہی اور ہمیشہ سہارا ڈھونڈتی رہی۔ آج یہی سہارا اسے صحارا لے آیا۔

جنید خاں بالاکوٹ کے اس گاؤں سے ہے جہاں زندگی سادہ اور پرسکون تھی لیکن پھر ایک زلزلے نے زندگیاں بدل دیں۔ جنید کی بیگم اور ماں اس حادثے میں چل بسے جبکہ باپ کی دونوں ٹانگیں ضائع ہوگئیں۔ جنید خاں ان دنوں اپنے چھوٹے بیٹے کا چیچک کا علاج کروانے لوئر دیر گیا ہوا تھا جسے واپسی پر یہ خبر ملی۔ ہنستے، بستے گھر پر یوں قیامت ٹوٹی کہ جنید کی زباں کنگ ہوگئی۔ خاندان والوں نے معذور باپ اور چھوٹے بیٹے کو دیکھتے ہوئے جنید کی ایک اور شادی کر دی جس میں سے پلوشا اور شانزے پیدا ہوئیں۔

پہلے گھر بناتے اور پھر گھر والوں کی ذمہ داری پوری کرتے جنید عمر کے پچاسویں حصے کو ہاتھ لگا رہا تھا لیکن تبھی بیٹیوں کی شادی کی فکر اسے روزی کے بھنور میں گھر کے ساحل سے دور لے آئی۔

رمیض کا تعلق ایک کلاسیک موسیقی والے گھرانے سے ہے۔ اس کے باپ، داد نے اس فن میں بڑا نام کمایا۔ ہر سال بڑے، بڑے آرٹس کونسل میں اس کے باپ، دادا کے نام کی برسیاں منائی جاتی ہیں۔ خود رمیض بھی اس فن سے خوب واقف ہے۔ ہارمونیم پر خالی انگلیاں ہی رکھ لے تو ساز نکلنے لگتے ہیں لیکن اب شاید ان سازوں کی وہ وقعت نہیں رہی کیونکہ اب رمیض کو اس سے پیٹ بھر روٹی میسر نہیں ہوتی۔ کئی ٹی وی چینلز اور آرٹس کونسل کے ڈھکوسلوں کے بعد بہرحال اس نے یہ سوچ لیا تھا کہ اب وہ یہ کام چھوڑ دے گا۔ سو، ساز کو کفن نما کپڑوں میں لپیٹے کے بعد لکڑی کے پرانے صندوقوں میں بند کر کے رکھ دیا گیا اور رمیض یہاں چلا آیا۔

یہ بدین (سندھ) کا علاقہ ہے۔ یہاں جون، جولائی میں اکثر درجہ حرارت 45 سے 50 سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے۔ پینے کے صاف پانی کی شدید کمی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو اسہال اور پیٹ درد کی کئی بیماریاں لاحق ہیں۔ عالمی ادارے اس انسانی المیے کو سمجھتے ہیں کہ صاف پانی صحت کے لیے کتنا ضروری ہے۔ انہوں نے یہاں کی آبادی کے لیے دو ( 2 ) ہزار ہینڈ پمپس یعنی نلکے لگانے کا فلاحی منصوبہ تیار کیا ہے جس کے لیے ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ معیز، عثمان، جنید خاں اور رمیض اسی ٹیم کا حصہ ہیں۔ سب اپنے، اپنے گھروں سے کوسوں دور ہیں۔ بدین کی گرمی میں فیلڈ کا جائزہ لیتے ہیں، ہینڈ پمپ کی درست جگہ کا تعین کرتے ہیں، بقیہ ماندہ ٹیم کے ساتھ پمپ کی تنصیب کو یقینی بناتے ہیں اور رات ادارے کے دیے گئے کوارٹرز میں مچھر دانی لگا کر فرش پر سو جاتے ہیں۔

مہینے بعد صرف دو دن کے لیے انہیں اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت ہے لیکن کبھی، کبھی ہر ماہ ایسا بھی نہیں ہو پاتا کیونکہ کبھی کام کی زیادتی تو کبھی تنخواہ میں تاخیر آڑے آجاتی ہے۔ نئی دلہن، بوڑھے باپ اور بچوں سے باتیں صرف فون پر ہی ہوتی ہیں۔

یہاں رات کی محفل میں ایک بیٹھک لگتی ہے جس میں دل بہلاتے قہقہوں اور خوش گپیوں کے ساتھ ساتھ کئی سوال بھی سر اٹھاتے ہیں۔ وہ آپس میں کئی سوال الجھاتے ہیں کہ ان کے اپنے شہر میں ان کے لیے روزگار یا مواقع کیوں نہیں ہیں۔ وہ یہاں کب تک ہیں اور کیا اس روزگار سے ان کی زندگی میں کوئی بدلاؤ آئے گا۔ یا پھر یہ کہ وہ اپنے ہی وطن میں کب تک پردیس کاٹتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).