منیر مانک سندھ کا منٹو تھا


روزنامہ مساوات بند ہو چکا تھا، احفاظ بے روزگار تھے۔ آزادی صحافت کی جنگ لڑی جا چکی تھی، صحافیوں کو کوڑے لگ چکے تھے۔ ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی نے صرف ایک ہزار روپے کی تنخواہ پر ملازمت کی آفر کی تو احفاظ نے وہ بھی قبول کر لی تھی۔ میں تحریک استقلال کے ہفت روزہ پرچے ’محور‘ میں کام کر رہی تھی جسے شاہدہ اور نفیس احمد صدیقی نکالتے تھے جب انہیں سیاسی پرچے کی بجائے ’دھنک‘ اور ’تصویر ‘ جیسا پرچہ نکالنے کا شوق چرایا تو میں بھی بے روزگار ہو گئی۔

نظریاتی دوست ہمارے حالات کے بارے میں فکر مند رہتے تھے چنانچہ نجمہ بابر نے سوویت پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں ہماری نوکری کی بات کی لیکن مسئلہ نظریاتی تقسیم کا بھی تو تھا۔ احفاظ ٹھہرے بیجنگ نواز گروپ کے جانے مانے رہنما وہ سوویت یونین کی ملازمت کیسے کرتے۔ انہوں نے کہا”میں تو یہ نوکری نہیں کر سکتا۔ تم کر لو“ چنانچہ ہم نے کر لی کیونکہ گھر بھی چلانا تھا، بچے بھی پالنا تھے۔ اور پھر ہم لیڈر بھی نہیں تھے، اس لئے کہاں نوکری کرتے ہیں، اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا تھا۔

مجھے جس کمرے میں بٹھایا گیا، اس میں تین چار لوگ اپنی میزوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ نجمہ بابر نے سب سے ملوایا۔ کونے والی میز پر بیٹھے ہوئے منیر مانک سے تعارف ہوا تو اس کی آنکھوں میں زمرد روشنی لہرائی۔ اسی لمحے مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ کوئی معمولی شخص نہیں، یہ تو بعد میں پتا چلا کہ وہ کتنا بڑا ادیب ہے۔ آنے والے دنوں میں اس سے اور اس کے ساتھ والی میز پر بیٹھنے والے عنایت کاشمیری سے اچھی دوستی ہو گئی۔

ضیا الحق کی آمریت کا ابتدائی دور تھا۔ ابھی اس نے افغانستان میں امریکہ کی پراکسی وار لڑنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا یا کم از کم اس فیصلے کو پبلک نہیں کیا تھا۔ مگر ہمارے دفترکا ماحول تناؤ کا شکار تھا۔ عملے کے ٹیلی فون ٹیپ ہوتے تھے، ان کی نقل و حرکت کی نگرانی کی جاتی تھی۔ مختلف لوگوں پر مختلف مقدمے بنے ہوئے تھے اور وہ پیشیاں بھگتتے تھے۔ منیر مانک پر بھی ایک مقدمہ بنا ہوا تھا جو برسوں بعد عتیقہ اوڈھو پر بھی بنا۔ یہ پاکستان ہے، یہاں کسی پر کوئی بھی مقدمہ بن سکتا ہے۔

اعصابی تناؤ کے باوجود ہم اپنے کام اور ایک دوسرے کی کمپنی سے لطف اندوز بھی ہوتے تھے۔ روسی کولیگز ہمیں اچھے لگتے تھے۔ یہ ساتھ جلد ہی چھوٹ گیا کیونکہ چھ ماہ بعد ہی ضیاالحق نے سوویت پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ بند کر دیا اور ہم سب ایک مرتبہ پھر بے روزگار ہو گئے۔ منیر اور عنایت سے بعد میں بھی رابطہ رہا، منیر کراچی آتا تو گھر ملنے آتا۔ اور پھر چھبیس جنوری 1982 کوخبر ملی کہ وہ دنیا میں نہیں رہا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ اس نے خودکشی کی تھی۔ اس نے اپنے ایک طویل افسانے کا اردو میں لکھا ہوا مسودہ بھی مجھے دیا تھا جو میں سنبھال کر نہ رکھ پائی، جس کا مجھے آج بھی افسوس ہے۔

منیر مانک پانچ مارچ 1943 کو سندھ کے شہر نوشہرو فیروز میں پیدا ہوا۔ اس کا شمار سندھی زبان کے لبرل کہانی کاروں اور ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ مانک کے پاس بہت سی ڈگریاں تھیں اور اس نے مختلف ملازمتیں بھی کیں مگر ہمیشہ تنہائی اور اداسی کا شکار رہا۔ اس کے ادبی سفر کا آغاز نواب شاہ میں ادبی سنگت کی میٹنگوں میں شرکت سے ہوا۔ شروع میں وہ منیر سندھی کے نام سے لکھتا تھا پھر منیر مانک کے نام سے لکھنے لگا۔ اس نے کوئی سو سے زیادہ کہانیاں، ناول، ناولٹ اور ڈرامے وغیرہ لکھے۔

معاشرے کی سچی تصویر کشی کی بنا پر اسے بھی منٹو کی طرح مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور سماجی برائیوں کو بے نقاب کرنے کے جرم پر ایک مخصوص طبقہ فکر کی گالیاں بھی سننی پڑیں۔ ان کی کہانی ”حویلی کا راز“ خاص طور پر متنازع بنی۔ عام لوگوں نے اسے پسند کیا لیکن ایک مخصوص طبقہ برافروختہ ہوا۔ اس کہانی میں لڑکیوں کی قران سے شادی کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ مانک کے لئے قوم پرستی اہم تھی مگر جدیدیت کے تجسس نے اسے چیزوں کو مختلف زاویے سے دیکھنے پر مجبور کیا۔ مانک ایک بے مثال ادیب تھا مگر وہ ہمیشہ ذہنی دباؤ کا شکار رہا۔ خودکشی سے چند دن پہلے اس نے اپنے ایک دوست کو خط میں لکھا تھا:

’میں پہلے بھی اس طرح کے کئی خطوط لکھ چکا ہوں لیکن اس مرتبہ میں یقین دہانی چاہتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ نہ تو میں قانون کی پریکٹس کر سکتا ہوں، نہ ہی ڈرگ اسٹور چلا سکتا ہوں۔ میری تربیت اس طرح ہوئی ہے کہ میں فراڈ نہیں کر سکتا اور ان دونوں پیشوں میں یہی کرنا پڑتا ہے۔

میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا سندھی ادبی بورڈ میں کوئی اسامی خالی ہے؟ یہاں آپ کے چیئرمین شاہ صاحب کا ایک اچھا دوست رہتا ہے۔ اس نے مجھے یقین دلایا ہے اگر کوئی اسامی نکلی تو وہ شاہ صاحب سے میرے لئے بات کرے گا۔ ۔ ۔ ۔

خط کے آخر میں منیر نے لکھا تھا کہ ذہنی دباؤ کے باعث وہ لکھنا چھوڑ چکا ہے۔ اور چند دنوں بعد وہ دنیا ہی چھوڑ گیا۔

مانک اپنی تحریروں کے ذریعے ایک انقلابی تبدیلی لایا تھا لیکن اس کی تحریروں پر بھی منٹو کی طرح فحاشی کا الزام لگا اور انہیں ممنوع قرار دے دیا گیا۔ لیکن وہ نفسیاتی، سماجی اور سیاسی موضوعات پر لکھتا رہا۔ وہ عورتوں کے حقوق، آزادی اور خود مختاری کا علمبردار تھا۔ ’حویلی کا راز‘ اس کی ان کہانیوں میں سے ہے جن پر سب سے زیادہ تنقید ہوئی۔ اس میں اس نے سندھی معاشرے میں عورت اور مرد کی عدم مساوات پر بات کی ہے۔ سید خاندان سے تعلق رکھنے والی لڑکی کو قران سے شادی کے لئے کہا جاتا ہے تا کہ وہ خاندانی جائیداد میں سے اپنا حصہ نہ مانگ سکے۔ وہ جوان اور خوبصورت ہے لیکن اپنے سامنے کوئی راستا نہ پا کے وہ اپنے بھدے سیاہ فام نوکر کے ساتھ بھاگ جاتی ہے۔

اسی طرح ’بنا عنوان کہانی‘ میں وہ متوسط زمیندار طبقے کی نوجوان ذہنی مریضہ اور اس کے شادی شدہ فیملی ڈاکٹر کی کہانی سناتا ہے۔ ڈاکٹر کا خیال ہے کہ لڑکی ذہنی طور پر اس لئے ڈسٹرب ہے کیونک اس کی جنسی ضرورت پوری نہیں ہو رہی چنانچہ وہ اس کی ضرورت پوری کر دیتا ہے۔ مانک فرد کی آزادی اور انتخاب پر مسلط شدہ اقدار اور رسوم و رواج کا سماجی تجزیہ کرتا ہے۔ عورتوں کی مظلومیت کی تصویر کشی کرتے ہوئے وہ ان اقدار اور رسوم و رواج کے خلاف آواز اٹھاتا ہے۔ مانک نے اپنی تحریروں کے ذریعے عورت میں بغاوت کا جذبہ پیدا کیا۔

اس کا ناول ”ساہ مٹھ میں“ ایک سیاسی ناول ہے جو پاکستان کی تاریخ کے حساس ترین دور میں لکھا گیا۔ جب ضیا الحق معاشرے کو اسلامی سانچے میں ڈھال رہا تھا۔ مرکزی کردار کراچی کے ایک کالج میں سندھی پڑھاتا ہے۔ ایک روز گھر واپس آتے ہوئے اسے لگتا ہے کہ اس کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔ تب سے وہ مستقل خوف میں رہنے لگتا ہے کہ اسے اغوا کر کے تشدد کے بعد مار دیا جائے گا۔ مانک اس ناول میں پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے ابھرنے والے ایک لسانی گروپ کا ذکر کرتا ہے جو سندھ کے شہروں خاص طور پر کراچی سے سندھیوں کا صفایا کرنا چاہتا ہے۔ اور مصنف پوچھتا ہے: کیا اس لئے 1947 کے پارٹیشن میں ہم (سندھیوں) نے تمہاری (مہاجروں) کی مدد کی تھی؟ یہ ناول فرد کے تشخص کو بچانے کے بارے میں ہے، مرکزی کردار تنہا ہے اور کچھ کر نہیں پاتا۔

اپنے شاہکار ناول ”پچھتاوا“ میں وہ ایک زمیندار کی کہانی سناتا ہے جو اپنی بیوی کے قتل کے الزام میں سزا بھگت رہا ہے۔ ناول انسانی رویوں اور نفسیات کے بارے میں ہے۔ (وائز سند)

منیر جس عمر میں گیا وہ جانے کی عمر تو نہیں تھی، ہمیں بغاوت کا درس دینے والے نے خود اس معاشرے کے آگے ہتھیار ڈال دئیے، اپنی ہار مان لی مگر اس کی تحریریں اور اس کی آنکھوں کی زمردی روشنی ہمیں آگے بڑھنے کا راستا دکھاتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).