ایلیٹ فورس کے زندہ دل نمونے


مسمی اور جیدا سپاہی۔

ہم راولپنڈی تھانہ صادق آباد میں تعینات تھے۔ محرم کا جلوس نکلنے والا تھا۔ میں ایس ایچ او مرزا فضل صاحب کے ساتھ گاڑی میں گن مین تھا۔ ہم جلوس کی گزرگاہوں پر گاڑی سے جوان اتار رہے تھے۔ ڈھوک کالا خاں کے ایک با زار کے چوک پر جیدے کو اتارا۔ اس چوک میں مسمیوں کی بہت زیادہ ریڑھیاں لگی ہوئی تھیں مرزا صاحب نے جیدے کو اتارتے وقت کہا ”بیٹا جب جلوس گزرے تو ساری ریڑھیوں کو پیچھے گلی میں کردینا۔ جیدا یس سر کہہ کر چوک میں الرٹ کھڑا ہوگیا۔

جب ہم گاڑی میں جلوس کے تما م روٹ کا چکر لگا کر واپس اسی چوک میں پہنچے جہاں جیدے کو اتارا تھا۔ تو جیدا چوک میں کھڑا ہونے کی بجائے ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اور جیدے کے سامنے چھوٹا سا لوہے کا میز بھی رکھا تھا۔ چوک کی تمام ریڑھیاں جیدے نے پیچھے گلی میں بھیج دی تھیں مگر ایک ریڑھی بالکل چوک کے درمیان میں کھڑی تھی۔ مرزا صاحب گاڑی سے اترے اور جیدے کو بلا کر کہا بیٹا باقی گاڑیاں تو پیچھے گلی میں چلی گئی ہیں یہ ایک ریڑھی ابھی تک ادھر کیوں کھڑی ہے؟ تو جیدے نے بھولی سی شکل بنا کر سر کھجا تے ہوئے کہا سر جی ”ایہنے مینوں کرسی میز وی دتا اے تے مسمی وی کھوائے نیں“۔ (سر اس نے مجھے کرسی میز بھی دیا ہے اور مسمی بھی کھلائے ہیں۔ ) مرزا صاحب ہنسنے لگے اور کہا ”بے شرماں اب جلوس آئے تو اسے کہنا ریڑھی تھوڑی پیچھے گلی میں لے جائے“

کمیشن ایجنٹ۔

دوران گشت ہم جب بھی کچھ کھانے پینے کا پروگرام بناتے تو اسلم ہمیشہ ہی خزانچی بن جاتا۔ سب سے پیسے اکٹھے کرتا جو بھی چیز کھانے کے لیے منتخب ہوتی جاکر لے آتا ا ور ایلیٹ کی گاڑی میں ہی سب کو پیش کرتا۔ آج بھی صادق گارڈن کے باہر سکھ چین کے پودوں کے نیچے گاڑی کھڑی کرکے ہماری ایلیٹ ٹیم کا سموسے کھانے کا پروگرام بنا۔ سب نے اپنے اپنے دو دو سموسوں کے پیسے اسلم کوجمع کروادیے۔ اسلم سموسے لینے ریڑھی پر جاکر کھڑا ہوگیا۔

اتفاقاً مجھے پیاس لگ گئی میں بھی پانی پینے ریڑھی پر پہنچا تو مجھے حیرت ہوئی۔ اسلم اور ریڑھی والے کے درمیان بڑی عجیب گفتگو شروع تھی۔ اسلم کہہ رہا تھا دیکھو بھائی بارہ سموسے لوں گا لیکن پیسے دس سموسوں کے دوں گا۔ منظور ہے تو سموسے دے دو ورنہ کسی دوسری ریڑھی پہ چلا جاتا ہوں۔ میں نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی کو روکا۔ آج یہ انکشاف ہوا کہ اسلم ہی ہمیشہ خزانچی کے فرائض سرانجام کیوں دیتا ہے۔ میں پانی پیئے بغیر ہی واپس آگیا اور اپنی ٹیم کو اسلم کی کارستانی سنائی سب حیران پریشان اور حقے بقے میرا منہ دیکھنے لگے۔ اسلم سموسے لے کر واپس آیا تو سب نے اسلم کی خوب کلاس لی اسلم نے سینہ ٹھونک کر کہا دیکھو بھائی یہ میری محنت ہے آپ لوگوں کو تو جو چیز منگواتے ہو پوری ہی ملتی ہے ناں۔

اس طرح کے زندہ دل لوگ کسی بھی فورس کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں۔ ہنسنا ہنسانا ان کا شیوہ ہوتا ہے۔ ساتھیوں کو کبھی پریشان نہیں ہونے دیتے میں نے ایلیٹ فورس میں ایسے جوانوں کو بہت بہادر ملنسار اور معصوم پایا ہے جو ہر بات سچ اور فوراً کہہ دیتے ہیں ایسے لوگوں کے دل صاف ہوتے ہیں۔ حقیت میں ایسے جوان بہت شریف ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2