سانحہ بلدیہ: 2012 سے 2016 تک


عابدہ علی

\"aabida-ali2\" اکسویں صدی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں حضرت انسان کی حیرت انگیز ترقی کی صدی ہے۔ سرخ ستارے کی تسخیر بس دو گام ہے۔ خلاؤں میں نئے جہان دریافت ہو رہے ہیں۔ نت نئی ایجادات اور معلومات کا ایک سیلاب ہے جس نے عقل انسانی کو متحیر اور مبہوط کر رکھا ہے۔ بدقسمتی سے اس ترقی کے ثمرات سے تمام انسان برابری کی بنیاد پر مستفید نہیں ہو پاتے اور آج بھی خط غربت کے نیچے زندگی بسر کرنے والا محنت کش طبقہ چند سکوں کے عوض اپنی محنت بیچنے کے باوجود غربت، افلاس، تنگدستی سے نبرد آزما ہے۔ ایک طرف بے پناہ ترقی اور دولت کے انبار ہیں تو دوسری طرف باوقار روزگار اور کام کی محفوظ جگہ محنت کشوں کے لئے ہنوز ایک خواب ہیں۔

پاکستان کے محنت کش نامساعد حالات کا شکار ہیں، مزدور تحریک زوال پذیر ہے اور ایک فیصد مزدور ٹریڈ یونین سے منسلک ہیں جس کے نتیجے میں اجتماعی سودے کاری کے حق سے بھی محروم ہیں۔ طویل اوقات کار، ملازمتوں کا عدم تحفظ، لیبر قوانین پر غیر موثر عملدرآمد اور صحت و سلامتی کی ناقص سہولتیں بندہ مزدور کے حالات کو مزید تلخ بناتے ہیں۔

عالمی ادارہ محنت کے مطابق روزانہ 6300 محنت کش یعنی سالانہ 2.3 ملین مزدور کام کے دوران پیش آنے والے حادثات یا بیماری کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں۔ پاکستان کا شمار صنعتی حادثات کے حوالے سے بدترین ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے، محنت کش طبقے کے مسائل میں حکومتی اداروں کی دلچسپی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاتا ہے کہ حکومت پاکستان نے عالمی ادارہ محنت کے صحت و سلامتی سے متعلق کنونشن 155 اور لیبر انسپکشن سے متعلق کنونشن 81 کی اب تک توثیق نہیں کی۔ پاکستان میں لیبر انسپکٹرز کی کل تعداد 541 ہے جس میں صرف 17 خواتین شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صنعتی حادثات میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستان کی صنعتی حادثات کی تاریخ کا ذکر 11 ستمبر 2012 کے سیاہ اور المناک باب کے تذکرے کے بغیر نا مکمل ہے۔ اس دن کے سورج نے پاکستان کے محنت کشوں پر گزرنے والی قیامت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ کراچی میں واقع ایک فیکٹری علی انٹرپرائز میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں 259 محنت کش جل کر راہی عدم ہوئے اور 55 مزدور شدید زخمی ہوئے۔ فیکٹری میں حادثے کے وقت 650 کے قریب مزدور کام میں مصروف تھے اور دیگر اجرت کی وصولی کے لئے فیکٹری آئے تھے۔ علی انٹرپرائز گارمنٹ فیکٹری نہ تو فیکٹریز ایکٹ 1934 کے تحت محکمہ محنت میں رجسٹر تھی اور نہ ہی کبھی یہاں لیبر انسپکشن ہوا۔ 1500 میں سے صرف دو سو مزدور ای او بی آئی میں رجسٹرڈ تھے جبکہ 25 سوشل سکیورٹی میں رجسٹرڈ تھے۔ فیکٹری سول ڈفینس میں رجسٹرڈ تھی اور نہ ہی بجلی اور وائرنگ کے مجوزہ قوانین پر عملدرآمد ہو رہا تھا۔ فائر الارم سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ ایمرجنسی کی صورت میں دروازے یا سیڑھیاں ہی موجود نہیں تھیں۔ جب فیکٹری میں آگ لگی تو سوائے ایک کے تمام دروازے بند تھے اس کی وجہ سے وہاں کام کرنے والے مزدور باہر نہیں نکل پائے اور جل کر خاک ہوئے۔ اس حادثے کے بعد مختلف انسانی اور مزدور حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی جانب سے ایک آئینی پٹیشن داخل کی گئی تاکہ حادثے کے اسباب اور ذمہ داروں کا تعین ہو سکے جس کے نتیجے میں ایک جوڈیشل کمیشن بھی تشکیل پایا تاہم اس کمیشن کی رپورٹ تادم تحریر شائع نہیں ہوئی۔ فیکٹری مالکان کو گرفتار کیا گیا جو بعد ازاں ضمانت پر رہا ہوئے اور ملک سے باہر چلے گئے۔ انہیں بعد میں اس کیس سے بھی خارج کیا گیا اور اب یہ کیس (ATC )انسداد دہشتگردی کی عدالت میں جاری ہے۔

حادثے کے بعد مزدوروں کے حقوق پر کام کرنے والی مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں Clean Cloth Campagin, Industriall, European Center for Constitutional Rights (ECCR), PILER,  اور دیگر نمائندہ تنظیموں کی کاوشوں سے دسمبر 2012 میں پائیلر اور علی انٹر پرائز میں بننے والی مصنوعات کی خریدار جرمن کمپنی KIK کے درمیان ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے جس کے تحت ایک ملین ڈالر کی رقم سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے تشکیل کردہ کمیشن کے ذریعے متاثرہ خاندانوں میں تقسیم کی گئی۔ طویل المدتی معاوضے (Long Term Compensation) کے حصول کے لئے بھی مندرجہ بالا مقامی اور بین الاقوامی مزدور حقوق کی تنظیموں نے سرتوڑ کوششیں جاری رکھیں اور ایک بھرپور مہم کے بعد ILO عالمی ادارہ محنت نے اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے حامی بھری۔ اس سلسلے میں عالمی ادارہ محنت کے ایک وفد نے گزشتہ مہینے پاکستان کا دورہ کیا اور مزدور تنظیموں، متاثرین کے نمائندوں سے ملاقات کے بعد ایک رپورٹ پیش کی جس کے نتیجے میں طویل المدتی معاوضی کے لیے معاہدہ جلد متوقع ہے۔ جو کہ اس حادثے سے متاثر ہونے والے خاندانوں کے لئے یقیناً ایک اچھی خبر ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے حادثے کو چار سال گزر جانے کے بعد کیا کام کی جگہوں کو محفوظ بنانے کے لئے حکومتی اداروں کی جانب سے کوئی عملی اقدامات کئے گئے ہیں؟ بدقسمتی سے اس کا جواب نفی میں ہے۔ 2013 میں حکومت نے کام کی جگہوں میں پیشہ ورانہ صحت اور سلامتی کے لئے جوائنٹ ایکشن پلان کا اعلان کیا تھا جس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ صوبائی حکومتیں لیبر انسپکشن کے نظام میں اصلاحات لانے میں تاحال ناکام ہیں۔ اخبارات میں کام کی جگہوں پر ہونے والے حادثات میں جانوں کے ضیاع کی خبریں روز کا معمول ہیں۔ کورنگی میں کیمیکل ٹینک میں دم گھٹنے سے اور اورنگی کی برف کی فیکٹری میں چھت گرنے سے ملبے کے نیچے آکر مزدوروں کی ہلاکتیں ان گنت واقعات میں سے چند تازہ ترین مثالیں ہیں۔ یورپی یونین سے پاکستان کو ترجیحی سہولت جی ایس پی پلس ملنے کے بعد پاکستان کے اس نظرانداز کئے گئے پسے ہوئے طبقے کے حالات بہتر ہونے کی امید ہے۔ اس سہولت کے نتیجے میں پاکستان کی حکومت 27 بین الاقوامی کنونشنز پر عمل کرنے کی پابند ہے جن میں عالمی ادارہ محنت کے آٹھ بنیادی مزدور معیارات بھی شامل ہیں۔

سانحہ بلدیہ جیسے واقعات کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ محنت کشوں کو سماجی تحفظ کی فراہمی، لیبر انسپیکشن کے ایک مربوط نظام کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ عالمی ادارہ محنت کے صحت و سلامتی سے متعلق کنونشن اور لیبر انسپکشن سے متعلق کنونشنز 155 اور 81 کی فوری توثیق کی جائے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ محنت کش طبقہ متحد ہو کر اپنے حقوق کے لئے اٹھ کھڑا ہو کر اپنی غلامی کی ان زنجیروں کو توڑ ڈالے تاکہ ظلم اور جبر کے اندھیروں سے نجات مل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments