کشمیریوں کی تحریک آزادی طاقت سے نہیں دبائی جا سکتی


  \"edit\"مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کی شدت میں کمی نہیں آئی ہے۔ بھارتی حکومت کو اندیشہ ہے کہ عیدالاضحیٰ کے موقع پر عوام کے احتجاج اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ تصادم میں شدت آ سکتی ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کےلئے کئی ہزار تازہ دم بھارتی فوجی مقبوضہ وادی میں بھیجے جا رہے ہیں۔ آج بھارت کے آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ نے کشمیر کا دورہ کیا اور مقامی فوجی لیڈروں کے ساتھ مل کر امن بحال کرنے کی نئی حکمت عملی تیار کی ہے۔ نئے لائحہ عمل کے مطابق بھارتی فوج دور دراز دیہی علاقوں میں بھی فوجی دستے تعینات کرے گی۔ اس طرح لوگوں کو اپنے گھروں اور دیہات سے دیگر علاقوں کے لوگوں کے ساتھ مل کر احتجاج کرنے کےلئے جمع ہونے سے روکنے کی کوشش کی جائے گی۔ فوج کی قیادت کا خیال ہے کہ نئے فوجی دستوں کی آمد کے بعد 63 روز سے جاری احتجاج کو کنٹرول کرنا ممکن ہو سکے گا۔ وادی میں دو ماہ سے کرفیو نافذ ہے اور لوگوں کو معمولات زندگی میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود کشمیری عوام کے حوصلے جوان ہیں۔ حریت کانفرنس کے لیڈر سید علی گیلانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کشمیری عوام نے واضح کر دیا ہے کہ وہ آزادی کےلئے اپنی جانیں اور معاشی سہولتوں کو قربان کرنے پر تیار ہیں۔ کشمیری عوام آزادی کے ایک مقصد کےلئے متحد ہیں۔ ہمارا اتحاد ہی دشمن کی موت ہے۔

سید علی گیلانی نے اس بیان میں بتایا ہے کہ کشمیری عوام پر بھارتی سکیورٹی فورسز کے مظالم کا بدترین سلسلہ جاری ہے۔ انہیں جیلوں میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ احتجاج کرنے کی صورتوں میں ان پر گولیاں برسائی جاتی ہیں۔ لیکن کشمیری عوام پوری استقامت سے آزادی کی جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔ غریب محنت کش اور تاجر پیشہ لوگ اپنے کاروبار اور روزگار کے ذرائع کی قربانی دینے کے باوجود نہ تو تھکے ہیں اور نہ ہی مایوس ہیں۔ وہ بہرصورت متحد ہیں۔ اسی اتحاد کی وجہ سے انہوں نے درحقیقت غلامی کی زنجیروں کو توڑ دیا ہے۔ سید علی گیلانی نے پاکستان سمیت دنیا کے ان ممالک کا شکریہ بھی ادا کیا ہے جنہوں نے اس مشکل وقت میں کشمیری عوام کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔

دوسری طرف بھارتی حکومت سکیورٹی اقدامات کرنے کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں روزگار کے مواقع دینے اور ترقیاتی منصوبوں کےلئے وسائل فراہم کرنے کا اعلان کر رہی ہے۔ لوک سبھا میں نمائندگی کرنے والی سیاسی پارٹیوں کا ایک پارلیمانی وفد گزشتہ دنوں کشمیر گیا تھا اور اس نے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بات چیت کی تھی۔ حریت رہنماؤں نے اس وفد سے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔ حریت قیادت کا کہنا ہے کہ حکومت جب تک مسئلہ کشمیر کے سیاسی حل کےلئے سنجیدگی سے بات چیت پر آمادہ نہیں ہوتی، اس وقت تک کسی پارلیمانی وفد یا سرکاری اہلکار سے ملنا بے سود ہے۔ اب وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے جو اس پارلیمانی وفد کے قائد کے طور پر کشمیر گئے تھے، بتایا ہے کہ حکومت دیگر سیاسی جماعتوں کی تجاویز کی روشنی میں کشمیری عوام کی بہبود اور خوشحالی کے لئے اقدامات کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس مقصد کےلئے ابتدائی اقدام کے طور پر ریاست سے دس ہزار اسپیشل پولیس آفیسرز بھرتی کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بعض ترقیاتی منصوبوں کےلئے فنڈز فراہم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔ تاہم بھارتی حکومت اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر نظر آتی ہے کہ وہ جن اقدامات کا اعلان کر رہی ہے، وہ مسئلہ کی نوعیت ، کشمیری عوام کی ناراضگی اور مایوسی اور وادی کے مسئلہ کے مستقل سیاسی حل کے مطالبہ کے مقابلے میں غیر اہم اور ناکافی ہیں۔ خاص طور سے پولیس فورس میں آسامیاں دینے کا لالچ دے کر نئی دہلی کی حکومت کشمیری معاشرے میں انتشار پیدا کرنا چاہتی ہے۔ اس طرح لوگوں کو گروہوں میں بانٹ کر مسلسل کشمیر پر عوام کی مرضی کے بغیر ان کے وطن پر قبضہ بحال رکھنے کا خواب دیکھا جا رہا ہے۔

اس حوالے سے پرانی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے سیاسی لیڈر، سرکاری عمال اور میڈیا بدستور یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے احتجاج سرحد پار سے آئے ہوئے شرپسند عناصر کی وجہ سے منظم ہو رہے ہیں۔ گویا ان کا یہ دعویٰ ہے کہ اگر پاکستان سے مداخلت کا سلسلہ بند ہو جائے تو کشمیر میں شورش بھی ختم ہو جائے گی۔ اسی کوتاہ نظری کی وجہ سے بھارتی سیاسی قیادت حوصلہ مندی سے عوام کی ناراضگی کی نوعیت اور مسئلہ کی سنجیدگی کو سمجھنے کی کوشش نہیں کر پاتی۔ فوجی طاقت سے نہتے نوجوانوں کے احتجاج کو کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جاسوسوں کے نیٹ ورک کے ذریعے آزادی کےلئے سرگرم نوجوانوں کو حراست میں لے کر ان پر انسانیت سوز تشدد کیا جاتا ہے۔ پاکستان پر مداخلت کا الزام عائد کر کے عالمی رائے کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ کشمیری عوام تو دراصل پرامن ہیں لیکن ہمسایہ ملک انہیں تشدد اور ہنگامہ آرائی پر اکساتا ہے۔ اسی طرح جو کشمیری نوجوان مسلسل ظلم سے تنگ آ کر مسلح جہدوجہد کی طرف راغب ہوتے ہیں، انہیں مفاہمت اور سیاسی طریقہ کار سے راضی کرنے کی بجائے فوری طور پر پاکستان کا ایجنٹ اور دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ اسی طرح بھارتی میڈیا میں حریت پسند نوجوانوں کے خلاف دہشتگردی کے الزام کی تکرار سے کشمیری نوجوان نسل کے غم و غصہ اور مایوسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

8 جولائی کو بھارتی فوج کی کارروائی میں شہید ہونے والا برہان وانی صرف 22 برس کا نوجوان تھا۔ اس نے بھارتی پولیس کی حراست میں اپنے بھائی کی موت کے بعد پندرہ برس کی عمر میں مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا تھا۔ تاہم حزب المجاہدین میں شامل ہونے اور ہتھیار اٹھانے کے باوجود برہان وانی کی اصل طاقت آزادی کےلئے اس کے فیس بک پیغامات تھے۔ وہ نوجوانوں کو متحرک ہونے اور سب مذاہب کا احترام کرنے کا سبق دیتا تھا۔ بھارتی حکام اور ان کے زیر اثر کشمیر دشمن پروپیگنڈا کرنے والا میڈیا ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ برہان وانی نے چند برس میں کیسے اتنی مقبولیت حاصل کر لی کہ اس کے مرنے کے دو ماہ بعد بھی احتجاج کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔

برہان وانی اور اس کے ہم خیال نوجوانوں ہی کی بدولت مقبوضہ کشمیر میں مسلمان اکثریت اور ہندو اقلیت کے درمیان مفاہمت کا ماحول پیدا ہوا تھا۔ کشمیری پنڈتوں کو واپس آ کر اپنے گھروں میں آباد ہونے کےلئے سہولتیں فراہم کی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ برہان وانی نے واضح اعلان کیا تھا کہ اس کی لڑائی کشمیریوں پر ظلم کرنے والے فوجیوں اور سکیورٹی فورسز سے ہے۔ عام شہری خواہ ان کا کوئی بھی عقیدہ ہو، سے ہمیں کوئی پرخاش نہیں ہے۔ اسی لئے اس کے گروہ نے کشمیر آنے والے ہندو زائرین کو بھی سہولتیں فراہم کیں اور ان کی حفاظت کا یقین دلایا۔ طاقت کے نشے میں چور نئی دلی سرکار اور سری نگر میں جاہ پسند کشمیری لیڈروں پر مشتمل ریاستی حکومت ان تبدیلیوں کو نوٹ کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی۔ معاشرہ میں مذہبی تعصبات کو ختم کر کے کشمیری عوام میں بلاتخصیص عقیدہ و مذہب ایک تحریک ابھر رہی تھی اور حکام اسے بعض گمراہ نوجوانوں کی لاقانونیت اور دہشت گردی قرار دینے میں مصروف تھے۔ سیاسی ضرورتوں کےلئے پاکستان پر مداخلت کے الزام عائد کر کے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنایا جاتا رہا ہے۔

بھارتی حکمران دو ماہ گزرنے کے باوجود یہ باور کرنے پر بھی تیار نہیں ہیں کہ برہان وانی کے جنازے میں دور دراز سے شرکت کرنے کےلئے جو لوگ آئے تھے اور ان کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ تھی۔ اس اجتماع سے خوفزدہ ہو کر جب سکیورٹی فورسز نے طاقت کا استعمال کرنا شروع کیا تو غصے اور مایوسی کا شکار لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ اس کا جواب فائرنگ ، پیلٹ چھروں ، گرفتاریوں ، الزام تراشیوں اور سیاسی مذاکرات سے انکار کی صورت میں دیا گیا۔ کشمیر میں صورتحال کا جائزہ لینے والی ایک تنظیم ’’گریٹر کشمیر‘‘ نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ روزانہ 166 شہری پولیس اور سکیورٹی فورسز کے حملوں میں زخمی ہوتے ہیں۔ اب تک کشمیر کے احتجاج میں زخمی ہونے والوں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ 73 نوجوان جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ زخمیوں میں 750 شہریوں کے چہروں پر پیلٹ گولیاں ماری گئیں ہیں۔ چھروں سے بھری ان گولیوں سے زخمی ہونے والے ان لوگوں میں سے اکثر کی بینائی ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق 4500 کشمیری جسم کے دوسرے حصوں پر پیلٹ فائرنگ سے زخمی ہوئے ہیں۔

آج مسلسل احتجاج کو طاقت کے زور پر دبانے کا سلسلہ جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تین دہائیوں سے بھارتی فوج کشمیر کی تحریک آزادی کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 1989 سے 68 ہزار افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ کشمیری ذرائع اور انسانی حقوق کی تنظیمیں یہ تعداد بہت زیادہ بتاتی ہیں۔ یورپی اور عالمی تنظیمیں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے شواہد سامنے لا چکی ہیں۔ اجتماعی قبروں کا انکشاف بھی ہو چکا ہے۔ یہ رپورٹیں بھی منظر عام پر آتی رہتی ہیں کہ سکیورٹی فورسز عام کشمیری شہریوں کو نفرت و حقارت سے دیکھتی ہیں اور کسی احتجاج میں شامل نہ ہونے والے لوگوں کے ساتھ بھی ظالمانہ سلوک کرتی ہیں۔ اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ کشمیر میں فوجی طاقت کے استعمال سے حق خود اختیاری کا جذبہ کم ہونے کی بجائے، اس میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔

بھارت کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کی دعویدار حکومت یہ سمجھنے سے مسلسل انکار کر رہی ہے کہ اس کی کشمیر حکمت عملی ناقص اور ناقابل عمل ہے۔ کشمیر میں مزید فوج اور اسلحہ بھیجنے کی بجائے، اب وہاں سے فوج نکال کر کشمیری عوام کے حقیقی نمائندوں کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ نئی دہلی کو جتنی جلد یہ بات سمجھ آ جائے گی ۔۔۔۔۔۔ بھارت کےلئے اتنا ہی اچھا ہو گا۔ بصورت دیگر بھارتی جمہوریت اور انسان دوستی کے چہرے سے نقاب اترتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments