قندیل بلوچ کے گاہک اور بیوپاری


آج چودہ جولائی ہے !

ایک اور سال بیت گیا!

قندیل بلوچ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

کون تھی قندیل بلوچ ؟

ایک سر پھری عورت، جو چلی تھی اپنے معاشرے کے ان دیوتاؤں کو للکارنے، جو عورت کے آشنا صرف رات کی تاریکیوں میں بنتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہوئے چلی تھی کہ روک سکو تو روک لو !

اور روک لیا گیا، اس کی آتشیں زبان ہمیشہ کے لئے چپ کروا دی گئی۔ وہ سرکش عورت، وہ کام سر عام کرنے چلی تھی جو عورتوں سے بند دروازوں کے پیچھے کروایا جاتا ہے۔

قندیل نے ان تمام مردوں کو، اور ان کی رات کے اندھیرے میں نمودار ہونے والی خرمستیوں کا پردہ چاک کیا۔ وہ خود بھی تماشا بنی اور مرد کیا چاہتا ہے اور جنس مرد کے حواسوں پہ کیسے سوار ہے، یہ بھی دکھا دیا ۔

سوشل میڈیا پہ ہر نئی وڈیو کے لئے لاکھوں لوگوں کی پسندیدگی کے کلکس اور بے چینی سے اگلی وڈیو کا انتظار، یہ معاشرے کے شوقین مزاجوں کے بنا کہاں ممکن تھا۔ دن میں پتھر پھینکنے والے خریداروں نے ہی رات میں اتنے پھول بھیجے کہ وہ بے خوف ہو کے سوشل میڈیا کے بازار میں آ بیٹھی۔

اس نے ثابت کیا کہ مرد چاہے مولوی ہو اور مذہب کا عمامہ پہن کے معاشرے کا اور خاس طور پہ عورتوں کا ٹھیکے دار بنا ہو، رہتا وہی معمولی مرد ہے۔ اپنے جبلی تقاضوں اور اپنی ہوس کے نشے کے ساتھ۔ اس وقت مرد کو یاد نہیں رہتا کہ مذہب، معاشرے اور اخلاقیات کے سامنے وہ بھی اتنا ہی جواب دہ ہے جتنی کہ عورت۔ گناہ اور ثواب کا فلسفہ اس پہ بھی اتنا ہی لاگو ہے جتنا کہ عورت پہ۔

عورت اکیلی تو کوئی کوٹھا نہیں چلا سکتی اور عورت وہاں تماشبین بھی نہیں ہو سکتی۔ یہ مرد ہی ہے جو اسے اور اس کی مجبوری کو وہاں بیچتا بھی ہے اور خریدتا بھی۔ عورت سوشل میڈیا پہ اکیلی بے حیائی بھی نہیں کر سکتی کہ بے پناہ شوق سے دیکھنے والا بھی مرد ہے۔ اور کسی مولوی کی خلوت میں اس کی مرضی کے بغیر نہیں پہنچ سکتی ۔ مولوی کی رال گرنا بہت ضروری ہے۔

ہمارے معاشرے میں مرد اور وہ بھی مولوی، کہیے کریلا اور نیم چڑھا !

مذہب کا تڑکا لگا کے جنونی معاشرے کی باگ ڈور بھی ہاتھ آ جاے تو آپ کے پاؤں زمین پہ کیوں لگیں گے۔ طاقت کا نشہ تو بڑے بڑوں کے سر پہ چڑ ھ کے بولتا ہے۔

اب کون یاد رکھے کہ وہ سورہ نسا جو عورتوں کو بار بار یاد کرائی جاتی ہے۔ وہ عورت سے پہلے مرد کو حکم دے رہی ہے کہ خبردار دیکھنا نہیں، نگاہ پہ پردے ڈال لو، یہ شہوت کا راستہ ہے۔ اس شیطانی رہ گزر کو نظر کے دروازے سے بند کر دو۔

قران کا یہ سبق اول تو یاد نہیں رہتا۔ اگر کوئی یاد کروانے کی جسارت کر لے تو ڈھٹائی سے یہ جواب دیا جاتا ہے کہ اگر زیبائش سرعام ہو گی، عورت ڈھانپے گی نہیں تو ہم تو نظر کو جھکا نہیں سکتے یعنی مجبور ہیں اف اللہ !

قندیل نے جب مردوں کی بے قابو شہوت کو چوک کے بل بورڈ پہ رسوا کر دیا تو کچھ جیالے ڈھونڈنے لگے کہ کہاں سے آئی ہے یہ من چلی، شیر کی کچھار میں گھس کے اس کا شکار کرنے۔

آخر ایک جری صحافی نے کھوج ہی لیا کہ اس کا تعلق معاشرے کے اس پس ماندہ طبقےسے ہے جہاں عورت سانس بھی مرد کی اجازت کے بغیر نہیں لے سکتی۔ اب ہنسی اڑانے کی باری تھی۔ نشیبی بستیوں کی باسی اور اٹھان دیکھو، چلی ہیں نام و حلیہ بدل کے مردوں کی دل لگیوں کو بے نقاب کرنے ۔

سزا دینے کا فیصلہ ہوا۔ یہ منہ زورعورت جو سوشل میڈیا پہ مرد کے پہلے سے بے قابو جذبات کو مزید بے قابو کر رہی ہے، کیوں نہ اس کی اصلیت اس کے اپنوں کو دکھائی جائے۔ اس کے گھر کے مردوں کو غیرت دلائی جائے کہ کیوں کھلا چھوڑ دیا اس آگ بھری کو، کیسے مرد ہو تم، ایک عورت نہیں سنبھالی جاتی ۔

چلیے جی! ایک صاحب نے بیک گراؤنڈ من وعن چھاپ دیا۔ ایک اور عقل کل صاحب، جنہیں دادا گیری خوب بھاتی ہے، نے اپنا پرائم ٹائم شو چٹپٹا بنانے کی سوچی۔ مولوی اور قندیل کو آمنے سامنے بٹھا دیا، اور قندیل نے مولوی کی خلوت بے نقاب کر دی۔ وہ تو پہلے ہی بدنام تھی، اسے شعلہ بن کے آگ لگانے میں کچھ مانع نہ تھا۔ سو اس نے وہی کیا جو محترم اینکر نے سوچا تھا۔ شو کی ریٹنگ تو بڑھ گئی مگر مولوی کی پگڑی اچھل گئی۔ لوگ باگ ٹھٹھا لگانے لگے کہ مولوی کے کرتوتوں کا علم تو تھا ہی، مگر میڈیا پہ یوں آمنے سامنے ۔

قندیل کو یوں بیچنےمیں کسی کو خیال نہ آیا کہ وہ مردوں کے اس جنگل میں کس قدر غیر محفوظ کر دی گئی ہے۔ نچلے طبقے کی عورت، اور اتنی جرات۔ خود کو بھرے بازار میں بیچنا تو سمجھ میں آتا ہے اور معاشرے کو قبول بھی ہے بلکہ بہت مرغوب بھی۔ لیکن خریداروں کے نام پتے کون چوک کے بل بورڈ پہ لکھتا ہے ؟

قندیل کی زبان کاٹنی ضروری تھی۔ اسے سبق سکھانے کے لئے سولی چڑھایا جانا تھا۔ مرد وزن کا یہ کھیل تو صدیوں سے جاری ہے مگر اب عورت کی ہمت کہ تماشبین کے کمزور لمحوں کو بے نقاب کرے اور اس کی بے تابیوں کی ہنسی اڑائے۔ یہ معاشرے کے رواج میں نہ تھا اور نہ ہونے دیا جائے گا۔

 سو قندیل بلوچ کی زبان خاموش کروا کے عورت کو یہ پیغام دے دیا گیا کہ ہماری خلوت کا ساتھی بننا ہے تو خامشی سے۔ ہمیں ضرورت تو ہے تمہاری، اپنی بے چین شہوتوں کے لئے مگر خبردار اندر کی بات اندر ہی رہے باہر نہ نکلے۔

 بازار میں بیٹھو ضرور کہ ہماری آرزو بھی ہے اور ضرورت بھی، مگر اشتہار نہ لگنے پائے۔

 تمہیں شمع محفل بننے پر سزا نہیں دی جا رہی۔ تمہاری لو ہمارے اختیار سے باہر ہو چلی تھی۔ اسے بجھانا ضروری ہو گیا تھا۔ جیسا کہ ہوتا آیا ہے، تمہاری جگہ خالی نہیں رہے گی۔ نام اور چہرہ تبدیل ہو گا، اختیار کی ترتیب وہی رہے گی۔

 ہم تمہارے خریدار تھے اور رہیں گے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).