ہڑتال کیسے کامیاب ہوئی؟


اگر آپ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ بجٹ کے خلاف ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کامیابی کا کریڈٹ کسے جاتا ہے تو میرا ایک ہی جواب ہے، جناب عمران خان کو، وہ تاجروں کو اعتماد میں لینے کے لئے کراچی پہنچے۔ تاجر مطالبات، مطالبات چیختے رہے اور عمران خان احتساب احتساب پکارتے رہے۔ بھلا تاجروں کا آپ کے شروع ہوئے احتساب سے کیا تعلق، وہ تو اس لئے سراپا احتجاج ہیں کہ ملک کی بگڑتی ہوئی اقتصادی صورتحال نے ان کے گھروں کے چولہے بجھا دئیے ہیں۔ میں نہ پروگرام ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کے کرتا ہوں اور نہ ہی کالم کسی جزیرے میں بیٹھ کے لکھتا ہوں، میں اپنے شہریوں کے ساتھ ہوتا ہوں۔ مجھے کار ڈیلرز فیڈریشن کے صدر شہزادہ سلیم نے کہا کہ انہوں نے زندگی میں پہلی بار ووٹ دیا اور پی ٹی آئی کو دیا اور پھر یوں ہوا کہ ان دس مہینوں میں وہ سب بھی خرچ ہو گیا جو دس برسوں میں کمایا تھا۔

 کیا یہ انجمن تاجران پاکستان کے جنرل سیکرٹری نعیم میر اور ان کے ساتھیوں کی کامیابی ہے تو اس کے دو جواب ہیں۔ پہلا جواب ہے، ہاں، یہ ان کی ہی کامیابی ہے کیونکہ ہڑتال کی کال کو وہی پوری تندہی اور ایمانداری کے ساتھ لے کر چل رہے تھے مگر دوسری طرف ہڑتال تو خود عام تاجر کا فیصلہ تھا۔ پاکستان ٹریڈرز الائنس کو پاکستان تحریک انصاف کا تاجر ونگ سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کے سربراہ لاہور چیمبر کے سابق صدر محمد علی میاں ہیں۔ محمد علی میاں برس ہا برس حمزہ شہباز شریف کے ساتھ رہے اور مسلم لیگ نون کا ٹریڈرز ونگ چلاتے رہے مگر موجودہ حکومت قائم ہونے کے بعد چودھری پرویز الٰہی کے راستے حکومت کے ساتھ چلے گئے، یہ ان کا فیصلہ ہے اور انہیں اپنے فیصلے کرنے کا حق ہے۔

اسی پی ٹی اے کا وفاقی بجٹ کے خلاف لاہور کے سب سے بڑے ہال ایوان اقبال میں کنونشن ہو رہا تھا اور وہاں پی ٹی آئی کے بانی رکن شبیر سیال بھی موجود تھے اور حمزہ شہباز کے خلاف بلے کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑنے والے میاں زمان نصیب اور عثمان ملک سمیت عمران خان کے بہت سارے دوسرے فدائی بھی ۔ میں ہال روڈ پر گیا تو وہاں تاجر رہنما امین مظہر بٹ ملے جو اپنی سفید داڑھی لہراتے ہوئے شریف فیملی کے خلاف جذباتی گفتگو کرنے میں خاص شہرت رکھتے ہیں اور وہ مجھے بہت دیر تک ہڑتال کے حق میں دلائل دیتے رہے۔ بٹ صاحب کے مقابلے میں صدام نوجوان ہے اور عمران خان کا دیوانہ بھی، سبزی منڈی کا تاجر ہے اور وہاں اس وقت انتظامی ذمہ داریاں بھی نبھا رہا ہے مگر وہ سراپا احتجاج تھا۔

اگر آپ خان صاحب کے سوشل میڈیا ئی مجاہد ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہڑتال ٹیکس چوروں کا ” شو“ ہے تو مجھے افسوس کے ساتھ کہنا ہے کہ آپ کو اقتصادیات اور کاروبار کی الف ، بے کا بھی علم نہیں ہے۔ ٹھنڈے بیڈ روموں میں باپ کی کمائی سے خریدے ہوئے موبائل فون پر دوپہر تک بستر پر اینڈھتے ہوئے اگر کوئی تاجروں کو چور کہتا ہے تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی مڈل فیل پی ایچ ڈی کے سلیبس پر اعترا ض کر رہا ہو۔ میں بار بار تاجروں سے پوچھتا ہوں کہ ضروریات زندگی تو اسی طرح برقرار رہیں، زندہ رہنے والے پاکستانیوں نے کھانا بھی کھانا ہے، کپڑے اور جوتے بھی پہننے ہیں اور زندگی کی دیگر ضروریات بھی پوری کرنی ہیں تو یہ کاروبار بھی مندے کیسے ہو گئے۔

وہ مجھے لاہور کی مصروف ترین مارکیٹیں دکھاتے ہیں جو سنسان اور ویران ہیں مگر جہاں دو، تین برس پہلے گزرنے کی جگہ نہیں ملتی تھی، کھوے سے کھوا چھلتا تھا، وہ بتاتے ہیں کہ لوگوں کی قوت خرید ختم ہو کر رہ گئی ہے، ہمارے پیارے وطن کی اکانومی سکڑ رہی ہے، جی ڈی پی کم ہو رہی ہے، گروتھ ریٹ آدھا رہ گیا ہے، مہنگائی دوگنی ہو گئی ہے اور معیشت میں کمی کے باعث اگر بے روزگاری بڑھنے کا یہی عمل جاری رہا تو اگلے برس میں مزید اسی لاکھ تک ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ یہ بجٹ غریبوں ہی نہیں بلکہ ان امیروں کا بھی دشمن ہے جنہوں نے تن، من، دھن کے ساتھ پی ٹی آئی کی سپورٹ کی۔ یہ دلچسپ ہے کہ غریبوں کے چولہوں کے ساتھ ساتھ ٹویوٹا اور ہونڈا جیسی گاڑیاں بنانے والوں نے بھی اپنے پلانٹ بند کر نے شروع کر دئیے ہیں۔

میں تاجروں کو سمجھاتا ہوں کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے، دنیا ہمیں دہشت گرد سمجھتی ہے اور چاہتی ہے کہ ہم رقوم کی ترسیل کے نظام کو فول پروف بنائیں تاکہ دہشت گردوں کو فنڈز نہ مل سکیں مگر وہ پوچھتے ہیں کہ کیا پاکستان کا ہر شہری اور ہر تاجر دہشت گرد ہے۔ پاکستان کی ایجنسیاں کیوں سیاستدانوں کے پیچھے خوار ہوتی ہیں، وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں لوگوں کو لوٹا بنانے کے بجائے دہشت گردوں کو پکڑنے پر صرف کیوں نہیں کرتیں۔

میں انہیں بتاتا ہوں کہ پوری دنیا میں ڈاکومینٹیشن ہوتی ہے لہٰذا انہیں بھی اس پر آنا ہو گا اور وہ مجھے بتاتے ہیں کہ پوری دنیا میں پالیسیاں سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے بنتی ہیں، ان پر تھوپی نہیں جاتیں۔ دنیا بھر میں جن سے رقم لی جاتی ہے ان کی عزت کی جاتی ہے، ان کے سامنے اجلاسوں میں بندوقوں والے نہیں بٹھا دیے جاتے اور یہ نہیں کہا جاتا کہ اگر تم نے پیسے نہ دئیے تو ہم تمہیں چھوڑیں گے نہیں، پیسے تو محبت اور اعتماد سے لئے جاتے ہیں۔ وہ مجھے بتاتے ہیں کہ تاجروں سے کمزور کوئی بھی نہیں، کوئی بھی تاجر کسی بھی حکومت سے نہیں لڑنا چاہتا اور یہی وجہ ہے کہ اگر نعیم میر کی بات کر لی جائے تو انہوں نے سب سے پہلے ایک، ایک دروازہ کھٹکھٹایا اور خالد پرویز تو آخری روز رات دس بجے تک اس نوٹیفیکیشن کا انتظار کرتے رہے جس کا ان کے بقول ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔

پاکستان ٹریڈرز الائنس کی صوبائی قیادت تو اتنی بھولی نکلی کہ اس نے ایف بی آر کے حوالے سے صوبائی وزیر صنعت اسلم اقبال کے وعدوں پر یقین کر لیا حالانکہ ایک صوبائی وزیر ایف بی آر کو کیسے کنٹرول کر سکتا ہے کہ یہ تو وہ محکمہ ہے جس نے قومی اسمبلی کے ایوان میں بجٹ تقریر کرتے ہوئے حماد اظہر کی بھد اڑا دی جب اس نوجوان نے کہا کہ زمین کی خریداری پر فائلر کی شرط ختم کی جا رہی ہے۔ ایف بی آر نے اس تاثر کی تردید اپنی ویب سائیٹ پر کی اور پھر وہی ہوا جو ایف بی آر نے کہا۔ ایوان میں بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر کی بات غلط ہوئی۔

 نچلی سطح پر حکومت نے ہڑتا ل ناکام بنانے کی کوشش ضرور کی مگر یہ کوششیں میاں اسلم اقبال اور پھر ڈپٹی کمشنر کی سطح پر ہی رہیں اور انہوں نے لاہور میں مکمل کنفیوژن پیدا کر دی، جس کا انہیں کسی حد تک فائدہ بھی ہوا۔ اس وقت پنجاب کے سب سے متحرک وزیر اسلم اقبال ہی ہیں اور اگر انہیں وزیراعلیٰ بنا دیا جائے تو وہ کافی کرشماتی قسم کے وزیراعلیٰ ثابت ہو سکتے ہیں مگر میں جانتا ہوں کہ ان کے وزیراعلیٰ بننے کی راہ میں دو رکاوٹیں ہیں، پہلی رکاوٹ تو خود پی ٹی آئی والے ہیں اور دوسری رکاوٹ کا میں نام نہیں لینا چاہتا۔

اگر میاں اسلم اقبال یا ان سے تعلق رکھنے والے تاجروں کے بس میں ہوتا تو ہڑتال ناکام ہو جاتی مگر یہ ہڑتال عام تاجروں کے دل کی آواز تھی، یہاں گھوڑے پیچھے تھے اور گاڑی آگے تھی اور یہی وجہ ہے کہ جب کچھ گھوڑے بدکے تو گاڑی کے بوجھ نے انہیں سیدھا کر دیا۔ خالد پرویز تاجر کاز میں کنفیوژن پیدا کرنے اور تقسیم کا تاثر دینے کے سوا کچھ نہ کر سکے اور محمد علی میاں نے اپنی ہی تنظیم کے ہڑتال نہ کرنے کے فیصلے کے خلاف آخری لمحوں میں پریس کانفرنس کر کے اپنی عزت بچا لی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).