ناروے میں پاکستانی: کلچر کے شاک سے جینریشن گیپ تک


پچاس اور ساٹھ کی دہایؤں تک ناروے اسکینڈے نیویا میں کوئی خاص مقام نہیں رکھتا تھا۔ ناروے کو سوئیڈن اور ڈنمارک کا غریب کزن کہا جاتا تھا۔ لیکن ساٹھ کی دہائی کے آخر میں یہاں تیل کی دریافت نے ناروے کے حالات کو یکسر بدل ڈالا۔ اور آج ناروے دنیا کے امیر ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ تیل کی دریافت نے ناروے کی معشیت کو تیزی سے آگے بڑھایا اور ناروے کو مین پاور کی ضرورت محسوس ہوئی۔

ہمارے دیسی بھایؤں نے بھی یہاں کا رخ کیا۔ کام کی کمی نہ تھی اور دیسی محنت کش مردوں نے خوب جی جان سے کام کیا۔ انجان ملک، ناآشنا زبان، شدید اور لمبی سردیاں اور سب سے بڑھ کر تنہائی برداشت کی۔ ایسی جان فشانی سے کام کیا کہ آجروں کے دل جیت لئے اور مقامی لوگ بھی گرویدہ ہو گئے۔

شروع میں ہمارے محنت کش مرد اکیلے آئے۔ ایک کمرے میں کئی کئی لوگ رہتے۔ سارا دن کام کر کے تھکے ہارے آتے۔ مل جل کچھ پکا لیتے اور جہاں جگہ ملتی سو جاتے۔ لیکن جب ذرا پیر جمے اور زبان اور سسٹم سمجھ میں آنے لگا تو ایک خوشگوار حیرت ہوئی۔ فلاحی ریاست کا مطلب سمجھ آیا۔ یہاں کا سسٹم تو فیملی لائف کو بہت سپورٹ دیتا ہے۔ بیوی بچے ساتھ ہوں تو پیسے بھی زیادہ ملتے ہیں۔ بنک سے آسان اقساط پر گھر بھی خریدا جا سکتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر بچوں کو اچھی تعلیم کے مواقع مل سکتے ہیں۔ ۔ سات سال بعد ملک کی شہریت بھی مل جاتی ہے اور نئے نارویجین کو بھی برابر کے حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ یہاں کوئی دوسرے درجے کا شہری نہیں ہے۔ تنہائی بھی جان لیوا تھی۔ سو بیوی بچوں کو بلا لیا گیا۔

پاکستان سے آنے والے ایک اچھی زندگی اور معاشی خوشحالی کا خواب لے کر آئے تھے۔ وہ یہاں کام کرنے اور پیسہ کمانے کے لئے آئے تھے۔

تلاش رزق کا یہ مرحلہ عجب ہے کہ ہم

گھروں سے دور بھی گھر کے لیے بسے ہوئے ہیں

سب ہی کا خیال تھا کہ یہ ترک وطن وقتی ہے۔ سب کا ہی یہ قوی ارادہ تھا کہ اتنا کما لیں کہ پاکستان میں ایک گھر بنا لیں۔ بچے اعلی تعلیم پا لیں۔ ایک نہ ایک دن ہییں واپس جانا ہے۔

اور واپس جانے کے اس ارادے کو بچوں کے دلوں میں بھی ڈال دیا۔ بچے شروع شروع میں اسی گمان میں رہے کہ ہم یہاں مسافر ہی ہیں اور ہمیں ایک دن گھر واپس جانا ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ بچے اس ماحول میں ڈھلنے لگے۔ اور یہاں دل لگا بیٹھے۔

جو بچے یہاں پیدا ہوئے اور یہیں سے اسکولنگ شروع کی اب ان کے والدین کو ایک نئی فکر نے آ لیا۔ بچے کچھ زیادہ ہی نارویجین ہو رہے ہیں۔ اردو زبان کمزور پڑ رہی ہے۔ پاکستان کے بارے میں نا کافی معلومات ہیں۔ اپنی تہذیب اور ثقافت سے نا آشنا ہو رہے ہیں اور مذہبی تعلیم بھی نہیں مل رہی۔ حالانکہ اسکولوں میں اس وقت بچوں کو مادری زبان کی تعلیم کا حق بھی دیا جا رہا تھا اور مسجدیں بھی وجود میں آ گئی تھیں جہاں مولوی حضرات دین کی ابتدائی تعلیم دے رہے تھے۔

کچھ والدین نے { سب نے نہیں } اسے نا کافی جانا اور اس کا حل یہ نکلا گیا کہ بیوی بچوں کو کچھ سال کے لیے واپس پاکستان بھیج دیا جائے۔ بچے جو اب یہاں اپنی جگہ بنانے میں کسی حد تک کامیاب ہو رہے تھے انہیں ایک بار پھر ایک نئے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان میں انہیں ہر چیز نئی لگی۔ زبان، اسکول سسٹم، بہت سا ہوم ورک، ٹیوشن، گرمی، ٹریفک، لوگوں کا طرز عمل اور رد عمل سب کچھ الگ تھا۔ چند سال وہاں پڑھا کر انہیں واپس بلا لیا گیا۔

اور ایک بار پھر ہمارا یہ الجھا ہوا بچہ اور بھی الجھ گیا۔ پھر نئے سرے سے زبان پر دسترس حاصل کرنی پڑی۔ ایک آدھ سال دوسرے بچوں سے پیچھے بھی رہ گئے۔ ایک بار پھر ان پر زور دیا گیا کہ بس ڈاکٹر بن جاؤ پھر ٹھاٹ سے پاکستان جا کر اپنی کلینک کھول لینا۔ بچے بے تحاشا پریشر میں آ گئے اور جو کر سکتے تھے وہ بھی نہ کر پائے۔ جو بن سکتے تھے اس کی راہ میں والدین کے خواب آ کھڑے ہوئے۔

اب وقت کافی بدل گیا ہے لیکن شروع میں بچوں کو یہ بھی کہا جاتا رہا کہ تم صرف ”تم“ نہیں ہو تم پورا ”خاندان“ ہو۔ تمہارا ہر عمل ہر حرکت خاندان پر اثرانداز ہوگی۔ یہ بھی سمجھا دیا گیا کہ مردوں کو عورتوں پر فوقیت ہے اور بڑوں کو چھوٹوں پر۔ بھایؤں کو بہنوں پر نظر رکھنی چاہیے چاہے وہ ان سے بڑی ہی کیوں نہ ہوں۔ اور بہنوں کو بھایؤں کی بات ماننی ہے خواہ وہ ان سے چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں۔ بہنوں اور بیٹیوں کے کاندھوں پر والدین اور خاندان کی شیشہ جیسی عزت رکھی ہے جس کی انہیں ہر آن حفاظت کرنی ہے۔ اس آبگینے کو ٹھیس نہ لگنے پائے۔

بچے اور بڑے ہوئے تو والدین کی پریشانیاں بھی بڑھ گیں۔ بچے اب کالج جانے لگے ہیں۔ فکریں لگ گئیں کہیں لڑکے نشہ نہ کرنے لگیں، کہیں لڑکیاں بوائے فرینڈ نہ بنا لیں۔ اس کا حل انہوں نے یہ نکالا کہ جلد از جلد ان کی شادی کر دی جائے۔ کنووں میں بانس ڈالنے کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ خاندان میں ہی کافی امیدوار تھے۔ بھانجے بھتیجے، بھانجیاں بھتیجیاں بہت۔ مسئلہ تھا کہ بچوں کو کیسے راضی کیا جائے۔ بچے اتنی کم عمری میں کسی انجانے کے ساتھ بندھن باندھنے کو تیار نہ تھے۔ اب کسی کو پیار محبت سے، کسی کو پرکشش وعدوں سے، کسی کو منت ترلے کر کے، کسی کو ماں کے دوپٹے اور باپ کی پگ کا واسطہ دے کر اور کسی کو سختی اور برہمی سے آمادہ کرنے کی کوششیں کی جانے لگیں۔

چند بچے کسی نا کسی حد تک اس پر راضی ہو گئے۔ کچھ بچے دباؤ میں آ گئے۔ اس موضوع پر پھر کبھی لکھوں گی۔

ان تمام مشکلات، مختلف ثقافت، زبان کی دشواری اور معاشی مسائل کے باوجود پاکستانی بچے ڈاکٹر بھی بنے انجیئنیر بھی۔ وکیل بھی اور پولیس افسر بھی۔ حکومتی اداروں کے اعلی افسران بھی اور نجی کمپنیوں کے سی او بھی، صحافی بھی اور سیاستدان بھی۔ غرض ہر شعبہ میں ان بچوں نے اپنے ہونے کو ثابت کیا۔ کامیاب رہے اور یہیں کے ہو رہے۔

پاکستان چھٹیوں پر جانا تو بہت بھلا لگتا تھا۔ بھری جیبیں، اپنا موڈرن مکان، مہنگی گاڑی، سستی چیزیں، ڈھیروں شوپنگ، مزیدار کھانے، بڑا کنبہ، لوگوں سے ملنا ملانا اور گھومنا پھرنا۔ اپنی اتنی آو بھگت اور شان و شوکت بہت مزا دیتی۔ ایک ہائی اسکول جانے والا پاکستانی بچہ میرا اسٹوڈنٹ تھا، ایک بار پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس نے کہا ”پاکستان جا کر بہت مزا آتا ہے کیونکہ ہم وہاں بہت امیر ہوتے ہیں“ لیکن جب وہاں مستقل رہنے کی بات آتی تو بچے کسی طور راضی نہ ہوتے۔ ان کے تحفظات جائز ہیں۔ وہ یہاں کے نظام کے عادی ہو گئے۔ یہ نظام جو لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں انہیں کوئی نظام سرے سے نظر ہی نہیں آتا۔ وہاں قوانین تو ہیں لیکن عمل نہیں۔ دوسری نسل واپس جانے کو تیار نہیں۔ ناروے ان کا وطن ہے۔

اور بہت سے والدین کا بچوں سمیت وطن واپس جانے کا خواب شرمدہ تعبیر نہ ہوسکا۔ رہنے کے لئے ناروے دنیا کے بہترین ممالک میں سے ہے۔ ۔ گو اب بھی پہلی نسل کی گاہ گاہ نگاہ گھر کی طرف اٹھتی ہے لیکن۔

اب وطن میں کبھی جائیں گے تو مہماں ہوں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).