باپ، بیٹا اور مایا کی محبت


اب مایا روزانہ گھر آنے لگی۔ صبح کے وقت بنٹی کالج جاتا تھا، شام کو مایا آ جاتی، مقصد یہی تھا کہ بنٹی کے ساتھ کچھ وقت گزارا جائے۔ بنٹی کو بھی اس کا انتظار رہتا تھا۔ دو تین دن بعد جب وہ جانے لگی تو بنٹی کہا، ”ابھی نہ جائیں ناں، تھوڑی دیر رک جائیں۔ “

مایا مسکرا اٹھی۔ ”کل پھر آؤں گی، ابھی مجھے جانا ہو گا۔ “
”اچھا۔ ایک بار مجھے گلے لگا لیں۔ “ بنٹی نے عجیب سے لہجے میں کہا۔

”اوہ۔ “ مایا نے بازو پھیلا دیے۔ بنٹی اس سے لپٹ گیا اور دیر تک لپٹا رہا۔
”چھوڑو ناں بنٹی! کب تک گلے لگے رہو گے“ مایا نے بالآخر کہا۔
”میں آپ کی خوشبو کو اپنے اندر سمو لینا چاہتا ہوں تا کہ آپ کے جانے کے بعد میں دیر تک محسوس کرتا رہوں۔ “

یہ پہلا موقع تھا جب مایا چونک اٹھی۔ اس کے دل میں عجیب عجیب سے خیال آ رہے تھے۔ بعد میں وہ خاص طور پر اپنے خدشات کے حوالے سے اس کا جائزہ لینے لگی۔ ہر روز اس کا شک بڑھتا جا رہا تھا۔ اب وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوتی تھی بنٹی اس سے لپٹ جاتا تھا اور پھر بعد میں بھی بہانے بہانے سے اسے چھونے کی کوشش کرتا تھا۔ مایا کے لیے یہ صورت حال پریشان کن تھی چناں چہ اس نے احمد جمال سے بات کی۔

”سنو کوئی گڑ بڑ ہے، بنٹی کا رویہ بہت عجیب ہے۔ “
”میں بھی ایک عجیب سی بات محسوس کر رہا ہوں، مجھے ایسا لگتا ہے جیسے بنٹی مجھ سی جیلس ہے۔ خاص طور پر جب میں اس سے تمہارے بارے میں بات کرتا ہوں“

”جمال! اسے کسی نفسیاتی معالج کی ضرورت ہے، میں اس کی ہونے والی ماں ہوں، میں ایک ماں کی طرح اس کا خیال کرتی ہوں لیکن وہ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی مجھ سے کسی اور طرح۔ بس مجھے نہیں پتہ۔ “ مایا کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہے۔

احمد جمال اس کی بات سن کر دھک سے رہ گیا۔ یہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ ایسی توقع نہیں کر رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ اس مسئلے کو فوراً حل کرنا چاہیے۔ اسی شام وہ مایا کو ساتھ لے کر گھر پہنچا۔ بنٹی گھر میں تھا۔ ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر بنٹی کو کوئی خاص خوشی نہ ہوئی نہ وہ دوڑ کر مایا کے گلے لگا۔ مایا نے خاص طور پر اس بات کو نوٹ کیا۔

”ڈیڈ میں اپنے کمرے میں جا رہا ہوں“ اس نے قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔
”رکو بنٹی! تم سے بات کرنی ہے۔ “ احمد جمال نے سنجیدگی سے کہا۔

”کہیے کیا بات ہے؟ “ بنٹی نے بیزاری سے کہا۔
”میں مایا سے کل شادی کر رہا ہوں“ احمد جمال نے مایا کی کمر میں بازو ڈالتے ہوئے اسے اپنی طرف کھینچا۔

بنٹی کے چہرے پر غصے کے تاثرات ابھر آئے۔
”ڈیڈ پلیز! آُپ ایسا نہیں کر سکتے۔ “

”کیا مطلب؟ کیوں نہیں کر سکتا، اسی لیے تو میں نے مایا کو تم سے ملوایا تھا۔ تاکہ تم مایا سے گھل مل جاؤ“ احمد جمال نے سختی سے کہا۔
”بس میں کہہ رہا ہوں کہ آپ ایسا نہیں کریں گے۔ “ بنٹی کا لہجہ بھی سخت تھا۔

”بنٹی تہیں ہو کیا گیا ہے، کیسی باتیں کر رہے ہو؟ “
”میں ٹھیک کہہ رہا ہوں، آپ مایا کو مجھ سے نہیں چھین سکتے۔ “ بنٹی بولا۔

”بنٹی ہوش میں تو ہو، مایا تمہاری ماں بننے والی ہے اور تم اس کا نام لے رہے ہو۔ “
”نہیں مایا میری ہے، میں ان سے شادی کروں گا، میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ “ بنٹی نے با لآخر اگل دیا۔
”بنٹی تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے، وہ تم سے دگنی عمر کی ہے“

”میں کچھ نہیں جانتا اگر مایا مجھے نہ ملی تو میں مر جاؤں گا۔ “ بنٹی کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔ احمد جمال نے سر پکڑ لیا۔ مایا کی یہ حالت تھی کہ پتھر کا بت بنی کھڑی تھی۔ باپ اور بیٹا دونوں اس سے شادی کرنا چاہتے تھے وہ کیا کرتی، وہ تو ایک ہی تھی۔

بنٹی غصے سے پیر پٹختا اپنے کمرے میں چلا گیا۔ احمد جمال اسے روکتا رہ گیا۔
”اف! میں کس مشکل میں پھنس گیا ہوں، مجھے نہیں پتا تھا کہ حالات یہ رخ اختیار کر لیں گے۔ میں اسے کیسے سمجھاؤں، میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آ رہا۔ “ احمد کمال اس طرح صوفے پر بیٹھا تھا جیسے اس کی عمر بھر کی متاع لٹ گئی ہو۔

”تم فکر مت کرو جمال! میں ہوں ناں، میں اسے سمجھاتی ہوں، اگر وہ پھر بھی نہ سمجھا تو ہم اسے نفسیاتی معالج کے پاس لے جائیں گے۔ میں ایسے ایک ڈاکٹر کو جانتی ہوں، ان کا نام ڈاکٹر سہیل ہے وہی اس سلسلے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ “

مایا بنٹی کے کمرے کی طرف چل پڑی۔ دروازے کے قریب رک اس نے دو تین بار بنٹی کو آواز دی مگر بنٹی کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ دو تین لمحے رک کر اس نے دروازے پر دباؤ ڈالا۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ وہ اندر داخل ہوئی تو اس نے دیکھا کہ بنٹی اپنے بیڈ کے کنارے پر بیٹھا البم دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔

”بنٹی! “ مایا نے اسے پکارا تو اس نے نظریں اٹھا کر مایا کو دیکھا پھر وہ روتے روتے مسکرا اٹھا۔
”مجھے پتہ تھا آپ ضرور آئیں گی۔ آپ اپنے بنٹی کو روتا ہوا نہیں دیکھ سکتی ناں۔ “

مایا اس کے قریب بیٹھ گئی۔ البم میں اس کی ماں کی تصویریں تھیں۔ مایا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور مناسب الفاظ ڈھونڈنے لگی۔
”بنٹی تمہیں ابھی آرام کی ضرورت ہے اور پلیز یہ رونا بند کرو تم بچے نہیں ہو۔ میں تمہاری مدد کرنا چاہتی ہوں۔ “

”آپ میری کیا مدد کریں گی۔ ہاں ایک مدد کر سکتی ہیں ڈیڈ کو چھوڑ دیں۔ “ بنٹی نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
”بنٹی سمجھنے کی کوشش کرو، میں ایک اچھے ڈاکٹر کو جانتی ہوں کیوں نہ ہم کل اس سے ملیں۔ “

اس کی بات سن کر بنٹی ایک دم غصے میں آ گیا۔ ”آپ کیا سمجھتی ہیں، کیا میں پاگل ہوں۔ خیر ایسی بات ہے تو یوں ہی سہی۔ “ بنٹی نے پہلے نفی کی پھر تسلیم کر لیا۔

”آپ ٹھیک کہتی ہیں، ہاں میں پاگل ہوں لیکن میں آپ کے پیار میں پاگل ہوں۔ “ بنٹی نے یکا یک مایا کو اپنی گرفت میں لے لیا اوراس کے ہونٹ، چہرے، گردن اور بازوؤں کو دیوانہ وار چومنے لگا۔ مایا اس کے طاقتور بازوؤں میں کسی نازک چڑیا کی طرح پھڑپھڑا رہی تھی۔ اس کے لیے سانس لینا بھی محال تھا۔ اس نے اپنے آپ کو چھڑانے کی بھرپور کوشش کی مگر بنٹی پر تو کوئی جنون طاری تھا۔ اس کی پیش قدمی بڑھتی جارہی تھی۔ مایا نے زور سے چیختے ہوئے اسے دھکا دیا شاید اس وقت بنٹی کی گرفت کمزور تھی وہ لڑکھڑایا اور وہ خود کو چھڑانے میں کامیاب ہو گئی۔

چوں کہ وہ بیڈ کے کنارے پر بیٹھا تھا اس لیے توازن قائم نہ رکھ سکا اوردھکے سے نیچے قالین پر گرا۔ مایا نے آگے بڑھ کر ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا۔

”تم انسان نہیں جانور ہو، سنا تم نے۔ “ مایا غصے سے یہ کہہ کر کمرے سے نکل آئی۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بنٹی اس حد تک آگے بڑھ جائے گا۔ دروازے سے باہر نکلتے ہی اسے احمد جمال نظر آیا۔ وہ اس کی چیخیں سن کر آیا تھا۔
”نہیں جمال میں اسے نہیں سنبھال سکتی، پلیز اسے ڈاکٹر کو دکھاؤ، میں جا رہی ہوں۔ “ مایا نے ہونٹ چباتے ہوئے کہا۔

”ٹھیک ہے ریلیکس! میں کچھ کرتا ہوں۔ “ اس کی بات درمیان میں ہی رہ گئی۔ اچانک گولی چلنے کی آواز سنائی دی۔ وہ دونوں فوراً دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوئے مگر بہت دیر ہو چکی تھی۔ بنٹی بیڈ پر پڑا تھا اس کے دائیں ہاتھ میں ریوالور تھا اور بستر کی سفید چادر اس کے خون سے سرخ ہوتی جا رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2