اسپیکر، پاناما لیکس ریفرنس سے میڈیا کی زبان بندی تک


\"ibarhimپہلے وکی لیکس اور اب پاناما لیکس، پاکستان کے سیاسی حکمرانوں کے لیے تو دنیا کے آزاد میڈیا نے جینا حرام کر دیا ہے۔ پاناما لیکس اسکینڈل نے برطانیہ، آئس لینڈ اور بھارت کے ساتھ کئی ملکوں کے حکمرانوں کو کچھ وقت کے لئے اپنی لپیٹ میں لیا، اور ان حکومتوں کی دانشمندانہ پالیسیوں اور فیصلہ سازی سے تمام خطرے ٹل چکے، لیکن خطرے کے بادل ہیں کہ مسلم لیگ نواز کی حکومت سے ٹلنے کام نام نہیں لے رہے ہیں۔

اس اسکینڈل نے شاید وزیراعظم کے لیے اتنی مشکلات نہیں پیدا کیں جتنی مشکلات وزیراعظم کی وضاحتوں، تاولیوں، تردیدوں اور صفائی پیش کرنے کے عمل نے بڑھادیں۔ پہلے ہی مرحلے پر اس اسکینڈل نے ملک کے چیف ایگزیکیٹو کو دفاعی پوزیشن پر کھڑا کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وزرا اور حکومتی مشیر وضاحتوں کے دلدل میں پھنستے چلے گئے، ایک کے بعد ایک بیان دوسرے سے متنازع اور مسئلے کو مزید الجھانے کا سبب بنتا گیا۔

اسی پاناما لیکس پر حزب اختلاف کا اکٹھا ہونا، پھر اجلاس، قانون سازی کے لئے مشاورت، پھر ٹی او آرز اور پھر بیٹھکیں، پھر ملاقاتیں، رابطے، لیکن حکومت نے کہہ دیا کہ کچھ بھی ہو جائے ہم پکڑائی نہیں دیں گے۔ اب اسی پاناما لیکس کی کوکھ سے نکلا ایک ریفرنس قومی اسمبلی تک پہنچا، جس پر اسپیکر نے جو فیصلہ صادر فرمایا اس کا نتیجہ کوئی اچھا نہیں نکلا۔ اور پھر ہوا یوں کہ ہر طرف سے اسپیکر پر جانبداری اور متنازع ہونے کے الزام لگ رہے ہیں، یہ بات وفاقی وزیر خواجہ آصف کہہ چکے ہیں کہ اسپیکر بھلے اسپیکر ہو پر اس کا تعلق سیاسی پارٹی سے ہوتا ہے، چلو بات ٹھیک ہے لیکن اس کو اپنے عمل اور رویے سے یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ پورے ایوان کا نگہبان ہے۔

تین سال تک قومی اسمبلی کا اسپیکر جتنا غیر متنازع، غیر جابندار اور ایوان کے تمام ممبران کا خیال رکھنے والا سمجھا جاتا تھا۔ اب ان کی پوزیشن پر کئی سوالیہ نشان آچکے ہیں۔ پاناما لیکس کی بنیاد پر تیار ہونے والے ایک چھوٹے سے ریفرنس نے ساری صورت حال ہی بگاڑ کر رکھ دی ہے۔ اسپیکر کو انتخابات کی دھاندلی کے الزامات نے شاید اتنا پریشان نہیں کیا جتنا پریشان اس ریفرنس پر نظراندازی کی مہر نے کیا ہے۔ مانتے ہیں کہ وزیراعظم کے خلاف ریفرنس کسی بڑے پارٹی کی طرف سے نہییں آیا تھا، لیکن اس ریفرنس کو جب اسپیکر نے ون مین شو کی پارٹی کی طرف سے بھیجا ہوا سمجھ کر نظر انداز کر دیا اور حکومت مخالف ممبر کے خلاف ریفرنس اہم سمجھ کر الیکشن کمیشن کو بھیجا تو پاناما اسکینڈل ایک بار پھر زندہ ہو کر منظر عام پر چھا گیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ جس اسپیکر کو پہلے صرف عمران خان اور تحریک انصاف متنازع سمجھتے تھے اس پر اب پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی سے لے کر اس دور کی کمزور ایم کیو ایم بھی ایک پیج پر آچکے ہیں۔

یہ تو قصہ تھا اسپیکر، وزیراعظم کے خلاف ریفرنس، اور سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کی کارروائی کا لیکن اسپیکر نے اس پاناما لیکس کے معاملے پر میڈیا سے جو رویہ رکھا ہے وہ بھی کسی غیر جانبدار اور جمہوریت میں یقین رکھنے والے سیاسی کارکن کا شیوہ ہرگز نہیں۔ ہوا یہ کہ پاناما اسکینڈل کے معاملے پر قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں خفیہ اجلاس ہوا، اس مبینہ اجلاس میں قومی اسمبلی کی تمام قائمہ کمیٹیوں کے سیکریٹریز کو ہدایات دی گئیں کہ کسی بھی قائمہ کمیٹی میں پاناما لیکس کا معاملہ ایجنڈا پر نہیں آنا چاہئے۔ یہ خبر جب ٹی وی چینلز پر چلی تو اسمبلی سیکریٹریٹ کی طرف سے اس کی تردید آ گئی، لیکن اس خبر کے درست ہونے کی تصدیق یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ اس سے پہلے یعنی سات ستمبر کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے طے شدہ اجلاس میں پاناما لیکس کا معاملہ زیر غور آنا تھا جس پر اکاؤنٹس کمیٹی نے سیکریٹری خارجہ امور، گورنر اسٹیٹ بنک، چئیرمین سکیورٹی ایکسچنج پاکستان، چیرمین ایف بی آر، چیرمین نیب، ڈی جی ایف آئی اور دیگر افسران کو طلب کیا گیا تھا لیکن ان میں سے کوئی افسر نہیں آیا جس پر کمیٹی نے غصہ کا اظہار کر کے اجلاس ہی ملتوی کر دیا۔ اب سب افسران کیوں نہیں آئے، کس نے روکا، ان کے پاس کیا اطلاع گئی اس کا پتہ لگانا تو اکاؤنٹس کمیٹی کے چئرمین کا کام ہے۔ لیکن یہ روایت نئی ہے کہ اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں متعلقہ افسران پیش نہ ہوں، کیوں کہ آج کے وزیر داخلہ نے یہ روایت ڈالی تھے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں اگر پرنسپل افسر یعنی وزارت کا سیکریٹری نہیں آیا تو اس دن اجلاس نہیں چلے گا، لیکن اس حکومت میں پہلی بار ہوا کہ متعلقہ سیکریٹری تو کیا نیب کے ڈپٹی چیرمین نے بھی آنا گوارا نہیں کیا۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی اسپیکر کے خلاف یا کمیٹیوں میں پاناما لیکس پر بحث پر بندش کی خبر اگر غلط بھی تھی تو اس کی تردید بھی چلی، لیکن اسپیکر آفس ایک قدم اور آگے چل دیا۔ اسمبلی سیکریٹریٹ سے چیرمین پیمرا کو ایک خط لکھا گیا ہے جس میں تمام صورت حال کو بیان کر کے یہ سفارش کی گئی ہے کہ جس جس چینل نے یہ خبر چلائی ہے اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اگر پیمرا کسی بھی چینل کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو لازمی بات ہے اس صحافی کے خلاف کارروائی ہوگی جس نے یہ خبر دی ہے۔ پھر ایک اور کام بھی ہوا اسپیکر نے ایک اور خط بھی پیمرا کو لکھ کر سینیر صحافی رؤف کلاسرا پر تاحیات پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ رؤف کلاسرا نے اپنے پروگرام میں اسپیکر ایاز صادق پر ذاتی نوعیت کے الزام لگائے تھے، جس کے خلاف اصلی فورم تو عدالت ہے جہاں پر ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا جاتا ہے، لیکن اسپیکر آج کل سب کی زبان بندی کے چکر میں لگ گئے ہیں۔ اسپیکر نے میڈیا کی زبان بندی کے لئے جو کچھ کر دکھایا ہے اس کی ہر سیاسی جماعت مذمت کر رہی ہے اور صحافیوں نے اسپیکر کے اس عمل کے خلاف احتجاج کا فیصلہ کر لیا ہے۔ محمد علی جناح قانون ساز اسمبلی کے پہلے گورنر جنرل اور نگہبان تھے، مولوی تمیز الدین سے لے کر موجودہ انیسویں اسپیکر ایاز صادق تک اپنے اپنے دور میں ہر اسپیکر نے اچھی اور بری دونوں روایات ڈالی ہیں جن کو ان کی خوبیوں اور خامیوں سے جانا جاتا ہے۔ موجودہ اسپیکر کون سا راستہ چنتا ہے اس کا فیصلہ انہوں نے ہی کرنا ہے، لیکن یہ زبان بندی والا فیصلہ تو جناب جمہوری روایات کے خلاف کہلائے گا۔ اگر یہ ہی کرنا تو کل سے جمہوریت، پارلیامانی نظام، سویلین بالادستی، آئین اور قانون کی حکمرانی کی راگنی بھی بند کر دینا چاہیے اور براہ کرم دنیا کے آزاد میڈیا کا بدلہ پاکستانی میڈیا سے نہ لیا جائے۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments